تم نے ہر کھیت میں انسانوں کے سر بوئے ہیں


\"ehsanوطن عزیز میں قومی سطح پہ محبت کی آبیاری نفرت کی زمیں پہ کی گئی ہے کہ کسی سے بھی محبت کسی اور سے شدید تر نفرت سے ہی تصدق پائے گی ۔ بصورت دیگر محبت کامل نہ کہلائے گی

جیسے ہمارے ہاں حب الوطنی صرف اور صرف  انڈیا کو گالی دے کر ثابت ہوسکتی  ہے

کیونکہ انڈیا کا جو یار ہے، وہ غدار ہے، غدار ہے۔۔۔ ہمارا جزوِایمانی ہے خود چاہے ٹیکس کروڑوں میں چوری کیا ہو یا سرکار کی زمین ہڑپ کر لی ہو، ہیں تو پھر بھی پاکستانی نا ۔۔۔

اسی تناظر میں اگر ہم اپنے فقہی مسلکی معاملات بھی دیکھیں تو وہ بھی خود کو درست ثابت کرنے سے زیادہ دوسروں کو غلط ثابت کرنے پہ زیادہ زور دیتے نظر آتے ہیں

\”ہم اپنی محبت کو نفرت کی شدت سے منوانے کے عادی ہیں ۔جو بذات خود تعمیر نہیں تخریب پہ مشتمل جذبہ ہے۔\”

کیونکہ نفرت انتشار تفریق کا سبب تو بن  سکتی ہے مگر اس سے پرامن بندوبست پیدا ہونا ممکن نہیں۔

یہی وہ رویہ ہے جس کا فروغ قومی سطح پہ سرکاری چھتری تلے دو سے زائد دہائیوں تک ہوتا رہا۔ اور جب آگ گھر کو جلانا شروع ہوئی تو ہوش آیا، اور اب قومی منشور تبدیلی کے مراحل سے گزر رہا ہے۔

جبکہ معاشرہ ابھی تک اسی رویے کا عادی ہے اور عدم برداشت اور تشدد  جزوِایمانی ہے، جس کا شکار سلمان تاثیر ہوا اور آج جس کی جھلک جنید جمشید کو نظر آئی ہے۔

جنید جمشید جس مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں اس نے ہمیشہ طالبان کی طرف سے اپنی نگاہیں بند رکھیں اور کبھی انڈیا اور کبھی بیرونی سازش کا نام دے کے حقائق پہ مٹی ڈالنے کا کام کیا۔ جب ہمارے معصوم بچے سولہ دسمبر کو درندگی کا شکار ہوئے تو بھی عزت مآب جناب مولانا طارق جمیل صاحب نے اس کو ہمارے گناھوں اور بدعمالیوں کا شاخسانہ اور غیظ الہی قرار دیا اور دس منٹ کے اس کلپ میں جسے میں نے تین مرتبہ سنا ایک لفظ بھی طالبان کے خلاف نہ کہا، ملتان میں پروفیسر پہ توہین مذہب کا الزام لگا تو اس کا وکیل مار دیا گیا۔ جج اس کا کیس سننے سے انکاری رہے۔ پنڈی میں قرآن پاک کی توہین کا الزام ایک نابالغ بچی پر لگایا گیا۔ آسیہ بی بی کے واقعے تفصیلات ابھی تک الزام در الزام کی گہری دھند میں ہیں۔ کیا ان میں سے کسی ایک واقعہ کی تحقیق راؤنڈ کے اکابر علما نے کرنے کی کوشش کی کہ اسلام کی غلط تشریح کی جا رھی ہے، یہ اسوہ حسنہ نہ تھا۔ رسول اللہ کا اخلاق اور ان کی شریعت یہ نہیں تھی۔

نہیں ایسی کوئی آواز اس قوم کی سماعت تک نہ پہنچی۔ ھاں مگر تبلیغ کا دائرہ عامر خان اور وینا ملک نرگس تک ضرور پہنچا اور ایک آواز ضرور سنائی دیتی تھی کہ گستاخ رسول کی سزا سر تن سے جدا، توہین کے مجرم کو معافی صرف نبی پاک دے سکتے ہیں جیسے فتوی ہم سنتے رہے۔ اور جب انجانے میں  جنید جمشید  نے یہی غلطی دہرائی تو ایک دم سے وھی علما  معافی اللہ کو پسند ہے نیز رسول پاک کی شفقت اور رحم دلی کے واقعات کے دفتر کے دفتر اٹھا لائے، جو جنید حفیظ کے معاملے میں سنتِ رسول فراموش کر بیٹھے تھے۔ یہ وہ موقع تھا جب مخالف فرقے نے جنید جمشید کو توہین مذہب کا مجرم قرار دے دیا اور اپنے مسلک کی ترویج نفرت کی آگ پھیلا کے کی اور جس کا شکار آج جنید جمشید صاحب ہوگئے۔

اب اس واقعہ کو رائے ونڈ والے جنید جمشید کس نظر سے دیکھتے ہیں یہی سب سے اہم ہے کیونکہ اگر یہ لوگ پھر فرقہ پرستی کو ہوا دینے لگے تو یہ آگ ہمارے گلشن  کو جلا کے خاکستر کر دے گی اور اگر جنید جمشید صاحب  ایک لمحہ کے لئے ٹھہر کے سوچیں کہ وہ لمحہ ان پہ کیسا بیتا جب کوئی ان کو گالیاں دے رہا تھا ۔

گستاخِ قرار دے رہا تھا، ان کے منہ سے مارے غیظ و غضب کے کف اڑ رھی تھی، آنکھوں میں ان کے لئے نفرت اور حقارت کے انگارے تھے اور وہ ان کی جان لینے کے درپے تھے تب جنید جمشید کا دل و دماغ  کیا کہہ رہے تہے کہ کاش میں اکیلا نہ ہوتا ۔

تو حضور پرنور آپ سے صرف اتنی گزارش ہے  کہ کہ پروفیسر جنید حفیظ اور آسیہ بی بی  کے دلوں پہ ان لمحوں میں کیا گزرتی ہوگی  جب انہیں احساس ہوتا ہو گا کہ ان کو بچانے اور چھڑانے کے لئے کوئی طارق جمیل نہیں آنے والا۔

خدارا یہ سوال خود سے کریں، شاید کہ تبدیلی آ جائے۔

شاید یہ احساس جاگے کہ عشق کا پودا نفرت کی زمیں پہ پروان چڑھے تو پھل کشت و خوں کا ہوتا ہے اور پھولوں کی  جگہ انگار برستے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments