کوئی مدد کو نہیں آئے گا


حکومت کسی قابل ہو تو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں روزانہ چھ عورتیں اغوا، چھ قتل اور چار ریپ نہ ہوں اور تین عورتیں خودکشی نہ کریں۔
پولیس بھی مدد کو نہیں آئے گی، ورنہ مظفرگڑھ کے میر ہزار تھانے کے سامنے 18 سالہ ریپ زدہ لڑکی کاہے کو خود پر تیل چھڑک کے جل مرتی۔

عدالت سے بھی انصاف کی توقع نہ رکھیے۔ ایسے معاملات میں اصل ملزموں کے سزا پانے کا امکان ایک فیصد سے بھی کم ہے۔
فوجی عدالتوں میں بھی ایسے مقدمات نہیں بھیجے جاسکتے کیونکہ ٹیرر ازم کی تعریف میں جنسی دہشت گردی اور قوم کے مستقبل کا ریپ نہیں آتے۔

اس دھوکے میں بھی نہ رہیے کہ جہاں امن و امان کی عمومی صورتحال زیادہ بہتر بتائی جائے وہاں کوئی عورت، بچی یا بچہ بھی زیادہ محفوظ ہو۔ ایسا ہوتا تو عورت فاؤنڈیشن کے مطابق سالِ گذشتہ بدامن سندھ کی 85 عورتوں کے مقابلے میں پرامن پنجاب کی 1408 عورتیں گینگ ریپ کا شکار نہ ہوتیں۔

ایسا ہو تو اس پاکستان میں پانچ تا 15 برس تک کے دس بچے روزانہ اجتماعی و انفرادی جنسی تشدد کا نشانہ کیوں بنتے اور روزانہ پانچ بچے کیوں اغوا ہوتے۔ ( حالانکہ اغوا کی سزا موت ہے)۔
تو پھر میڈیا کچھ کرے؟ مگر اسے ریٹنگ کے ٹھیلے پر مصالحے دار چاٹ بیچنے سے فرصت کہاں؟ میڈیا پر تو ایٹم بم گرنے کی خبر بھی چار دن چلنے کے بعد پانچویں نمبر پر آ جاتی ہے۔

کہتے ہیں اس ملک میں کوئی چائلڈ پروٹیکشن ایجنسی بھی ہے اور کسی نیشنل کمیشن فار چائلڈ ویلفیئر کا وجود بھی ہے۔ سنتے ہیں کہ شہروں کے برعکس آج بھی دیہی علاقوں میں نفسا نفسی کم ہے کیونکہ چھوٹی جگہ پر لوگ ایک دوسرے سے زیادہ واقف ہوتے ہیں۔
تو پھر خواتین اور بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے 67 فیصد واقعات دیہی علاقوں میں اور 33 فیصد شہری علاقوں میں کیوں؟

پنجاب میں ایسا کیا ہے کہ گذشتہ برس وہاں پانچ تا 15 برس کے 2054 بچے انفرادی و اجتماعی جنسی تشدد کا شکار ہوئے اور گلگت و بلتستان میں ایسا کیا ہے کہ وہاں بچوں پر جنسی تشدد کا صرف ایک کیس سامنے آیا۔

لیکن اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں پڑھنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ بس یوں سمجھیے کہ ہر سامنے آنے والی ایک واردات کے پیچھے تین تا پانچ وہ وارداتیں ہیں جو گھر، محلے اور برادری میں ہی دھونس، شرم، رقم اور بے بسی کے بوجھ تلے دب کے رھ جاتی ہیں اور متاثرہ عورت یا بچہ باقی عمر اپنی بے عزتی کی قیمت پر دوسروں کی عزت رکھتے رکھتے دہکتے دل و دماغ کے دوزخ میں گزار دیتا ہے۔

ہاں انسان سماجی جانور ہے اور تنہا زندگی نہیں گزار سکتا۔ اسے قدم قدم پر رشتے داروں، جان پہچان والوں اور طاقتوروں کی ضرورت پڑتی ہے۔ مگر اندھا اعتماد بھی تو خود کو اندھی گلی میں لے جانے کا راستہ ہے۔

مت کیجیے اندھا اعتماد۔ آپ کے بچے یا بچی کو کسی اجنبی سے صرف 30 فیصد جنسی خطرہ ہے۔ 70 فیصد خطرہ رشتے داروں، جاننے والوں یا اردگرد کے لوگوں سے ہے۔ تب ہی تو ہمیں اور آپ کو اپنے بچوں سے ہونے والی زیادتی سے زیادہ یہ فکر رہتی ہے کہ منہ کھولا تو دنیا کیا کہے گی۔

تو پھر کریں کیا؟ حل جتنا مشکل ہے اتنا ہی آسان ہے۔
اپنے بچوں کے ساتھ جتنا وقت گزار سکیں گزاریں۔ جگر گوشوں کو جیب خرچ، کھلونے، سوٹ، موٹر سائیکل، گھڑی یا موبائل فون سے بھی بہت پہلے آپ کی قربت چاہیے۔ فاصلہ پیدا ہوگا تو بیچ میں کوئی نہ کوئی تیسرا آ جائے گا اور یہ تیسرا کوئی فرشتہ بھی ہو سکتا ہے اور شیطان بھی۔

اس سے پہلے کہ بچوں کو کسی اور سے پتہ چلے۔ آپ خود دوستانہ تعلیمی انداز میں انسانی جسم اور اس میں وقت کے ساتھ ساتھ آنے والی تبدیلیوں کے بارے میں ان کی عمر کا لحاظ رکھتے ہوئے آسان لہجے میں سمجھائیں۔

یہ بھی بتائیں کہ ماں، باپ اور بہن، بھائیوں کے علاوہ اگر کوئی بھی قریبی یا دور کا جاننے والا یا اجنبی غیر معمولی انسیت یا بے تکلفی برتے یا مادی ترغیب دے تو دماغ میں الارم بجنا چاہیے اور اس بارے میں والدین کو ضرور بتانا چاہیے اور ایسا کرنے پر شاباش بھی ملے گی۔

جتنی توجہ ہم اپنی املاک اور دولت کی حفاظت پر دیتے ہیں کیا اتنی ہی توجہ اپنے بچوں کے ذہنی و جسمانی تحفظ پر بھی دیتے ہیں؟

پھر بھی ہمارا بچہ شکار بن جائے تو کیا کریں؟ سب سے پہلے یہ کریں کہ اسے پہلے سے زیادہ پیار اور توجہ دیں تاکہ یہ احساس نہ کھا جائے کہ وہ تنہا ہے یا وہی قصور وار ہے اور پھر فیصلہ کریں کہ مزید کیا کرنا ہے؟

چپ سادھ کے شکاریوں کی حوصلہ افزائی کرنی ہے یا شور مچا کر ان کے گرد گھیرا تنگ کرنا اور دوسروں کو خبردار کرنا ہے؟
جب آپ کسی اور کے بچے کی حفاظت کرتے ہیں تو اصل میں اپنے ہی بچے کی حفاظت کر رہے ہوتے ہیں۔

اگر بات اب بھی سمجھ میں نہیں آ رہی تو وائلڈ لائف چینل باقاعدگی سے دیکھیے تاکہ معلوم ہو سکے کہ جانور اپنے بچوں کو کیسے بچاتے ہیں۔ جنگل میں تو کوئی ریاست، تھانہ اور کچہری بھی نہیں ہوتے۔

9 اگست 2015


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).