بیٹیاں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں


دل ہے کہ سناٹے میں ہے۔ آنکھیں وہ منظر دیکھنا ہی نہیں چاہتیں جو انہیں روز دیکھنے پڑتے ہیں۔ کیا زندگی صرف بری خبروں کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کا نام ہے؟ زینب آج تمہارے لیے ہر کوئی سراپا احتجاج ہے۔ سوشل میڈیا پر بس تمہارے بارے ہی میں لکھا جا رہا ہے۔ تمہاری موت پر حکومت کی جانب سے بھی افسوس کا بیان آ چکا ہے۔ تمہارے والدین سے وعدہ کیا گیا ہے کہ تمہارے مجرم کو ہر حال میں پکڑا جائے گا۔ تمہاری المناک موت اور اُس سے پہلے تمہارے پھول جیسے جسم کو نوچے جانے پر ہر کوئی افسردہ ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب تمہارے لیے بھی کافی ہے؟ تمہارا مجرم شاید پکڑ لیا جائے۔ اسے سخت ترین سزا بھی مل جائے لیکن کیا مرنے سے پہلے کے اُن تکلیف دہ لمحوں کو تمہارے ذہن کی تختی سے ڈیلیٹ کیے جانا ممکن ہو گا؟ اخلاقی پستیوں میں گرتا ہمارا معاشرہ کیا اس بات کی ضمانت دے گا کہ پھر کوئی زینب امین اس درندگی کا شکار نہیں ہو گی؟ نہیں ایسا ممکن نہیں ہو گا۔

سوال یہ بھی ہے کہ معاشرے میں موجود درندگی اور وحشت کے اس عفریت کے پاؤں میں زنجیر کون ڈالے گا اور کیسے ڈالے گا۔ کیا صرف تعلیم کا عام ہونا ان وحشتناک رویوں کا سد باب کر سکتا ہے یا پھر ہمیں اپنے عمومی رویوں اور سوچ کو بھی بدلنا ہو گا۔ لیکن آدمی سے انسان بننے کے لیے آخر کتنے دن، کتنے عشرے کتنی صدیاں درکار ہوں گی؟

زینب سب کی بیٹی تھی۔ بیٹیاں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔ اپنے ارد گرد کے ماحول پر نظر رکھنا معاشرے کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ سوسائٹی کے زوال کی وجہ صرف اس معاشرے کے اپنے منفی رویے ہوا کرتے ہیں۔ جب تک ہم رنگ، نسل اور مذہب ہر تعصب سے بالاتر ہو کر صرف انسانیت سے محبت کے رویوں کو رواج نہیں دیں گے، جب تک ہم سڑک پر خون میں لت پت زخمیوں یا لاشوں کے پاس سے صرف اس لیے خاموشی سے گزر جائیں گے کہ مدد کر کے کہیں ہم خود مصیبت میں نہ پڑ جائیں، جب تک ہم ’ ہنوز دلی دور است‘ والا رویہ اپنائے رکھیں گے، زینب جیسی بچیاں اغوا ہوتی رہیں گی۔ سڑکوں پر قتلِ عام ہوتے رہیں گے اور مائیں اسکول سے اپنے بچوں کے لوٹنے کا انتظار کرتی رہیں گی۔ زینب کا مجرم کوئی ایک فرد نہیں بلکہ پورا معاشرہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).