جرم اور تشدد کے اسباب کیا ہیں؟


جرم کے اسباب بہت پیچیدہ ہیں ذیادہ تر لوگوں کا ماننا ہے کہ غربت، والدین کی لا پرواہی، احساس کمتری، شراب نوشی یا نشہ بازی کا جرائم کے ارتکاب سے گہرا تعلق ہے۔

اسباب کی بوجہ ماحول اور حالات پیدائش
اگرچہ بہت سی اور پیچیدہ وجوہات ہیں۔ تشدد پسندانہ رویہ کی تو ہماری زندگیوں پر سیاہی پرت رہی ہیں۔ مگر دو عوامل کی شناخت بحیثیت شدید مصدقہ ہے۔
1) تشدد پسندی کی طرف رغبت
2) متشدد رویہ کی جانب توجہ مبذول کرنے والے حالات
رغبت کا تعلق براہ راست متشدد شخص کی اپنی ذات سے ہے۔ یہ اس فرد کے اندر موجود رجہان پر منحصر ہے۔

تشدد پسند انہ رویہ کو بڑھانے میں معاون ثابت ہونے والی درجنوں وجوہات ہیں۔ مگر معاشرتی رویہ اس میں اہم ترین ہے۔ تشدد کی طرف مائل کرنے والی کچھ مثالیں درج ذیل ہیں۔
1) شراب نوشی
2) میڈیا پر دکھا یا جانے والا تشدد
3) بڑھتی آبادی کی وجہ سے برتی جانے والی تربیت میں لا پرواہی

حد سے زیادہ شراب نوشی بعض دفعہ شرابی کے ساتھ ہی معا شرے کے لئے بھی خطرناک ہوتی ہے۔ زیادہ تر جرائم نشہ کرنے کے بعد ہی وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ مصدقہ بات ہے کہ نشئی کا کوئی اعتبار نہیں کب کس فیز میں چلا جائے اور کیا سے کیا کر بیٹھے۔ ہوش میں آنے کے بعد شاید پچھتاوا بھی ہو مگر جرم کا ارتکاب تو ہو چکا۔ اور شکار نقصان کی زد میں آ چکا۔

میڈیا پر دکھانے جانے والے پر تشدد مناظر ویسے تو اتنا برا اثر نہیں چھوڑتے مگر وہ بالغ جن کی پرورش پر تشدد ماحول میں ہوئی ہو ان میں جرم کی تحریک بڑھ جاتی ہے۔ ذہنی پراگندی میں اضافہ ہوتا ہے۔ میڈیا کا براہ راست کوئی قصور نہیں مگر ایک بڑا کردار ماحول اور خون کی ہولی، چوری ڈکیتی اور ریپ جیسے مناظر متاثرہ شخص میں ہیجان برپا کرتے ہیں اور یوں جرم سرزد ہوتا ہے۔
تشدد کی طرف رغبت دلانے میں اہم کردار بچوں کی پرورش میں غفلت بھی ہے۔ بے حسسی اور بے رحمی کے ماحول میں پلے بڑھے بچے تشدد کا زیادہ رجحان رکھتے ہیں۔ ہمدردانہ اور محبّت بھرا گھرانہ تشدد کا سب سے بڑا توڑ ہے۔ حتی کہ بڑوں کے ساتھ بھی اگر تربیتی کورسز کیے جائیں تو بہتری کی توقع ہے۔ ہمیں اپنے جوانوں پر محنت کرنا ہو گی۔

بچہ ماں کے پیٹ سے ہی ذہنی نشونما پانا شروع کر دیتا ہے۔ اس کا مزاج رحم مادر سے ہی بننا شروع ہو جاتا ہے۔ زندگی کے اول ماہ اول سال بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں، بچوں کی ذہنی تشکیل میں۔ اگر ان ابتدائی دنوں میں اگر بچے کو ہمدردانہ ماحول، پرسکون زندگی اور معاشرتی مثبت رویوں کا سامنا ہو تو بڑے ہو کر اس بچے کے ایک ذمہ دار شہری بننے کے 98% چانسز ہیں۔ بچوں کو سمجھایا جائے کہ کسی فرد کی برائی کیسے کسی دوسرے کے لئے عذاب بن سکتی ہے۔

انسانی ہمدردی، دوسرے کے درد کو سمجھنا، اپنا آپ قابو میں رکھنا غصہ حسد اور بدلے سے دور رہنا، یہ سب تعلیمات تشدد کے خلاف سب سے بڑا جہاد ہیں۔ ناقص ذہنی تراش، غیر معاشرتی رویہ، ہر طرح کا نشہ، فلاحی انحصار، غربت اور بے گھری سے لڑنا ہو گا۔

افراد کا غیر انسانی طرز عمل انتہائی غم زدہ کرنے والا اور ذہنی تناؤ بڑھانے والا ہے۔ ایسا نہیں کہ اس کا کوئی علاج نہیں نشے کا سدباب کیا جا سکتا ہے۔
اس سے دو طریقوں سے نبٹا جا سکتا ہے۔

ایک طویل منصوبہ بندی کے تحت کہ آنے والی نسلوں کو بگڑنے سے بچایا جا سکے۔ اور دوسرا سزا کا تصور۔ قرار واقعی سزا معا شرے میں عبرت کا مقام بنا دی جائے تا کہ فوری طور پر انسانیت اور قانون کا احترام اور ڈر پیدا ہو۔ فوری پکڑ اور سزا سے فوری نتائج بھی حاصل ہوں گے۔ مجرم ڈریں گے اور کھلے عام ظلم سے نجات حاصل ہو گی۔ جبکہ نوجونوں اور بچوں کی ذہن سازی کا ذمہ والدین اور معا شرہ اٹھائے۔ ذہنوں سے جرم کا خاکہ مٹانا مشکل ہے نا ممکن نہیں۔ ہزاروں انسانوں کو تباہی سے بچانے کے لئے اب قانون اور معا شرے دونوں کو میدان میں آنا ہو گا۔ کوئی نہیں چاہتا کہ ہماری نسلیں برباد ہوں جوانیاں اور بچپن پامال ہو۔ والدین کو ہوش میں لانے میں ہم سب کو آگے بڑھنا ہو گا کہ گھروں کو امن کا گہوارہ بنائیں۔ بچوں کو درد کے معنی سکھائیں اور حکومت کو معاشرتی بہبود پر کمر کسنا ہو گی تا کہ کوئی دہشت زدہ ہو کر یا دہشت گردی کا شکار ہو کر زندگی کاٹنے پر مجبور نہ ہو۔ اور اب ہم میں مزید معصوم لاشے کوڑے اور کماد سے اٹھانے کی تاب نہیں۔ ترس تو مجھے مجرم پر بھی آتا ہے۔ کہ اسے بھی کہیں نہ کہیں ہم نے ہی مجرم بنایا ہے۔ حقیقی منصف وہ ہے جو جرم میں خود کو برابر کا شریک سمجھے۔ نہ کہ ظلم کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو ہی مار ڈالا جائے۔

زینب روتے ہوئے کہتی ہو گی عرش بریں کے سائے تلے کہ میرے لئے آواز مت اٹھاؤ، بھول جاؤ مجھے۔ جیسے مجھ جیسے قسور کے دوسرے بچوں کو بھول چکے ہو۔ میں گئی جان سے اب خون نہ بہاؤ قانون کے رکھوالو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).