قصور ریپ کیس: پولیس زینب امین کے قتل کے ملزمان کو پکڑنے میں ابھی تک ناکام


مظاہرہ

قصور میں اس واقعہ کے خلاف ہونے والے پرتشدد احتجاج کی وجہ سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے ارکان اپنا دورہ مختصر کرنے کے بعد واپس لاہور چلے گئے

صوبۂ پنجاب کے شہر قصور میں آٹھ سالہ زینب امین کے قتل کی بہیمانہ واردات ہوئے تین دن گزر جانے کے بعد اس جرم کی تحقیقات میں کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہو سکی ہے جبکہ حکومت پنجاب نے قاتل کی نشاندھی کرنے والے کے لیے ایک کروڑ روپے کے انعام کا اعلان کیا ہے۔

پنجاب حکومت کی جانب سے قصور میں آٹھ سالہ زینب امین کے قتل کے لیے قائم کی جانے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے جمعرات کو جائے حادثہ کا دورہ کیا اور مقامی افراد سے اس بارے میں معلومات اکھٹی کیں۔

قصور پولیس کو آٹھ سالہ زینب امین کے قتل کے بارے میں ابھی تک ایسے ٹھوس شواہد نہیں ملے جس سے ملزمان کا سراغ لگانے میں مدد مل سکے۔

پولیس نے اب تک اس مقدمے میں20 مشتبہ افراد کو حراست میں لیا ہے تاہم ان افراد سے تفتیش سے ایسی کوئی بات سامنے نہیں آئی جو اس واقعہ میں ملزمان کا سراغ لگانے میں معاون ثابت ہو۔

نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق قصور میں اس واقعہ کے خلاف ہونے والے پرتشدد احتجاج کی وجہ سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے ارکان اپنا دورہ مختصر کرنے کے بعد واپس لاہور چلے گئے۔

اس بارے میں مزید پڑھیے

قصور میں مشتعل مظاہرین کی توڑ پھوڑ،حالات پھر کشیدہ

’بچوں کے اغوا اور قتل کے پیچھے بظاہر ایک ہی شخص‘

اگر زینب جیسا واقعہ پیش آئے تو والدین کیا کریں؟

قصور: کب کیا ہوا

پنجاب کے ضلع قصور میں کمسن بچی زینب کے ساتھ ہونے والے جنسی تشدد کے بعد قتل کا یہ پہلا واقعہ نہیں اس سے پہلے ایک سال کے عرصے میں 11 واقعات رونما ہو چکے ہیں لیکن ان واقعات میں ملوث کسی ایک بھی ملزم کو گرفتار نہیں کیا جا سکا۔

مقامی پولیس کے مطابق ضلع قصور میں زیادہ تر غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد رہتے ہیں۔

اس علاقے میں اب تک 11 ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں جن میں کمسن بچیوں کو اغوا کرنے کے بعد اُنھیں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان 11 واقعات میں صرف ایک بچی زندہ بچی ہے لیکن وہ بھی ابھی تک ہسپتال میں زیر علاج ہے اور پولیس کے مطابق وہ بولنے کے قابل نہیں ہے۔

کمسن بچیوں کو اغوا کرنے کے واقعات تھانہ اے ڈویژن کی حدود میں ہوئے جبکہ درندگی کا شکار ہونے والی ان بچیوں کی لاشیں تھانہ صدر کی حدود سے ملتی رہی ہیں۔ زینب کی لاش بھی تھانہ صدر کی حدود سے ہی ملی ہے۔

زینب جنازہ

قصور میں کمسن بچی زینب کے ساتھ ہونے والے جنسی تشدد کے بعد قتل کا یہ پہلا واقعہ نہیں اس سے پہلے ایک سال کے عرصے میں 11 ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں لیکن ان واقعات میں ملوث کسی ایک بھی ملزم کو گرفتار نہیں کیا جا سکا

ان واقعات میں ملوث دو مشتبہ افراد کو پولیس مقابلے میں مار دیا گیا لیکن بعد میں ان کے ڈی این اے ٹیسٹ سے معلوم ہوا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد کمسن بچیوں کو اغوا کرکے اُنھیں جنسی تشدد کا نشانہ بنانے میں ملوث نہیں تھے۔ ان مشتبہ افراد کے پولیس مقابلے میں مارے جانے کے معاملے پر کوئی عدالتی تحقیقات نہیں ہوئیں ہیں۔

پنجاب پولیس کے سربراہ نے جمعرات کو سپریم کورٹ میں آٹھ سالہ زینب کے قتل کے بارے میں رپورٹ جمع کروائی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زینب چار جنوری کو اپنے کزن عثمان کے ساتھ اپنی خالہ کے گھر دینی تعیلم حاصل کرنے کے لیے گئی۔ عثمان تو خالہ کے گھر پہنچ گیا لیکن زینب نہیں پہنچی۔ رپورٹ کے مطابق زینب کی خالہ نے سمجھا کہ وہ گھر واپس چلی گئی لیکن ایسا نہیں ہوا۔

رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے جب بچی کی لاش ملی تو اس کے چہرے پر تشدد کے نشانات بھی تھے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایڈشنل آئی جی انوسٹیگیشن ابو بکر خدا بخش کی سربراہی میں ایک ٹیم تشکیل دی گئی ہے جو اس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔

زینب کے قاتل کو گرفتار کرنے کے لیے پولیس کی ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں اور اس ضمن میں 80 مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ کی گئی لیکن تا حال اس کا سراغ نہیں ملا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp