سانحہ یہ ہے کہ سب کچھ معمول کے مطابق ہے


تھانے کی حدود میں بہت بڑا جرم ہوا تھا؛ سات آٹھ سالہ بچی کو کسی نے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا، گلہ گھونٹا اور اس کا لاشہ کچرا کنڈی میں لے جا پھینکا۔ دیس میں ہونے والے معمولی واقعوں میں سے یہ محض ایک واقعہ ہے۔ اس میں غیر معمولی یہ ہوا کہ خبر آنا فانا چاروں اور پھیل گئی۔ یہ اس دیس کا قصہ ہے، جہاں غیرمعمولی سانحہ وہ کہلاتا ہے جو آن کی آن میں چاروں اور پھیل جائے۔ جس جس کو یہ اطلاع ملی اس نے سہم کے اپنے کم سن بچوں کی طرف دیکھا؛ یہ دیکھ کر کہ اس کی آنکھوں کا نور، اس کی ننھی پری اب تک محفوظ ہے، اس نے خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا۔ سب کچھ معمول کے مطابق ہے۔

مظلوم باپ داررسی کے لیے تھانے میں جا پہنچا؛ چوں کہ والدین کے لیے یہ سانحہ عظیم تھا، اس لیے تھانیدار نے عزت سے کرسی پیش کی، ورنہ اس دیس میں سائل کو تھانوں میں کس قدر خوار ہونا پڑتا ہے، یہ بتانے لگیں تو کتابوں کی کتابیں سیاہ پڑجائیں۔ مظلوم نے دہائی دی کہ وہ نماز پڑھنے مسجد گیا تھا، اس دوران اس کی بچی گم ہوگئی۔ بسیار تلاش کے بعد کچرا کنڈی سے اس کی لاش ملی۔ تھانیدار نے بچی کے باپ سے نرم لہجے میں کہا، یہ آپ کی نہیں میری بیٹی تھی، دیکھیے تو سہی میں اس ظالم کو ڈھونڈ کر کیسی عبرت ناک سزا دیتا ہوں۔ سانحے پہ سانحہ یہ ہوا کہ تھانیدار نے ابھی تک سانحے کی ایف آئی آر نہیں کاٹی تھی، ہاں یہ ہے کہ سادے کاغذ پہ اندراج کیا تھا، تاکہ بوقت ضرورت کام آ سکے۔ سب کچھ معمول کے مطابق ہوا۔

تھوڑی دیر میں چند معززین شہر کی ہم راہی میں علاقے کا کونسلر وہیں تھانے میں آ پہنچا۔ اس نے جہاں مظلوم سے ہم دردی کے بول کہے، وہاں مرحومہ کے باپ سے دبی زبان سے یہ شکوہ بھی کیا، کہ اس اہم موقع پر آپ مجھے اپنے ساتھ تھانے میں لانا کیوں بھول گئے؛ آخر ہمی تو ہیں جو آپ کے دُکھ درد میں شریک ہوتے ہیں۔ کونسلر نے ناچار کو شہر کے ناظم کا یہ پیغام بھی پہنچایا کہ ہم ہر دم مظلوم کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے کھڑے ہیں۔

انھی لمحات میں کونسلر کا مخالف بھی دیگر معززین شہر کو لیے تھانے آ گیا۔ وہ بھی مظلوم باپ سے شفقت سے ملا اور خود کو اس کا ہم درد بتلانے لگا۔ اس دوران یہ بھی جتلایا کہ آپ نے اور آپ کی برادری نے اگر مجھے ووٹ ڈالا ہوتا تو آج یہ دن دیکھنا نہ نصیب ہوتا۔ اس بات کو سن کر کونسلر کے حامیوں نے احتجاج کیا۔ قریب تھا کہ ان مخالفین کے حامی ایک دوسرے سے گھتم گھتا ہوتے، تھانیدار نے کمال ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہر دو طرف کے معززین کا بیچ بچاو کرادیا۔ سب کچھ معمول کے مطابق ہوا۔

دیس کے سبھی ٹیلے ویژن چینل سب خبروں کو بھلا کے اس ایک خبر کو بار بار نشر کررہے تھے۔ ”درندہ صفت نے معصوم کلی کو نوچ لیا“۔ دوسرے شہر والے اس شہر کے لوگوں کو سفاک بتلارہے تھے، اور رب کے حضور سجدہ شکر بجا لاتے نہ تھکتے تھے، کہ یہ ایسا شقی القلب ان کے محلے، ان کے شہر، ان کے صوبے میں نہیں۔ ہر صوبے کا حکمران فخریہ بتارہا تھا کہ اس کا صوبہ دوسرے صوبے سے زیادہ محفوظ ہے۔ سچ یہ ہے کہ اس دیس میں کوئی بھی کہیں بھی محفوظ نہ تھا۔ بہ ہر حال دیس کے شہر شہر میں ماتم کی سی فضا چھائی رہی۔ ہر گلی، محلے، تھڑے، بیٹھک، اوطاق، چوراہوں پر گفت گو کا موضوع ایک یہی خبر بنی ہوئی تھی۔ یہ سب معمول کے مطابق ہوا۔

ایسے میں خطیب شہر جس نے کونسلری کے الیکشن میں بارہ مومنین کے ووٹ حاصل کرکے تاریخی شکست پائی تھی؛ اُسے بھی اپنا غم یاد آیا؛ اس نے مسجد کا لاوڈ اسپیکر آن کرکے اعلان کیا کہ اگر اس دیس میں اسلامی نظام حکومت ہوتا، تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ دیس سے سب برائیوں کے خاتمے کا ایک ہی نسخہ ہے؛ اسلامی نظام؛ اور اسلامی نظام کو سمجھنے والے صالحین کی حکومت۔ خطیب کا کہنا تھا، کہ دیس میں جا بہ جا فحاشی پھیلی ہے، لوگ شرابیوں کو ووٹ دیتے ہیں، زانیوں کو کام یاب کراتے ہیں۔ عوام کی دین سے یہ دُوری اس دیس کے ہر محلے، ہر شہر کو جہنم بنا کے رکھ چھوڑے گی۔

اس دیس کے اس شہر میں معصیت پسند بھی رہتے تھے۔ انھوں نے الزام لگایا کہ مذہب پر چلنے کا یہی نتیجہ نکلنا تھا، کہ چھوٹے بڑے، جوان اور بچے، زن و مرد؛ کوئی بھی محفوظ نہ رہے۔ ہماری نجات سیکولرازم میں نہیں، تو لبرل ازم میں ضرور ہے۔ قصاص و دیت کا قانون ایسے قاتلوں کو ہلاشیری دیتا ہے؛ الخ۔ معصیب پسندوں کا دعوا تھا کہ دین داروں کے دیس میں ایسا ہی ہوتا آیا، ایسا ہی ہوتا چلا جائے گا۔

کچھ دین دار اور کچھ بے دین دانش ور یہ کہتے پائے گئے کہ مقتول بچی کے باپ کو کیا ضرورت تھی کہ بچی کو بے آسرا چھوڑ‌ کے مسجد میں نماز ادا کرنے جاتا، جس کے گھر بچی پیدا ہوجائے اسے تو کام پر بھی نہیں جانا چاہیے۔ کچھ شہری سیاست دانوں کو برا بھلا کہتے نہ تھکتے تھے۔ ان کا خیال تھا اس دیس کے لوگوں کا من بھاتا کچھ ہے، تو وہ ڈنڈا ہے، اس لیے یہاں ڈنڈے کا راج ہونا چاہیے۔ قصہ مختصر! اس دیس میں جتنے منہ تھے، اتنی باتیں تھیں۔

آہیں اور سسکیاں بڑھیں تو شہر کے ناظم نے، پھر صوبے کے وزیر اعلا نے نوٹس لیا، دیس کے وزیر اعظم نے بھی نوٹس لے لیا۔ یوں صوبے کا قاضی بھی نوٹس لینے پر مجبور ہوا، تو دیس کی عدالت عالیہ کیوں پیچھے رہتی، اس نے بھی نوٹس لے لیا۔ جس جس کا بس چلا اس نے نوٹس لینا ضروری سمجھا۔ اور یہ سب کچھ معمول کے مطابق ہوا۔

کونسلر اور اس کا حریف، ناظم شہر اور اس کا حریف، صوبے کا اعلا اور حزب مخالف کا رہنما، دیس کا اعظم اور حزب مخالف اعظم، ڈنڈا برداروں کا چیف، کون تھا جو مظلوم باپ کے گھر تعزیت کے لیے نہیں پہنچا۔ ان خبروں کو سب اخبارات، تمام ٹیلے ویژن چینلوں نے نمایاں جگہ دی۔ مجرموں کو عبرت ناک سزائیں دینے کا عندیہ دیا گیا؛ مظلوم کے ہاتھ پر کچھ پیسے رکھے گئے، اور مجرموں کی تلاش کا حکم دے کر چلتے بنے۔ یہ سب بھی معمول کے مطابق ہوا۔

بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم، عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی این جی او، سیلاب میں چندہ اکٹھے کرنے والی آرگنائزیشن، دینی جماعتیں، غیر دینی جماعتیں، وکیلوں اور ڈاکٹروں کی یونین، مزدوروں، صحافتی تنظیموں، بھکاریوں کی ایسوسی ایشن، الغرض؛ ہر سماج سیوک اپنا اپنا پلے کارڈ اٹھائے، اپنا اپنا نعرہ لیے شہر کے مرکزی چوراہے پہ اکٹھا ہوگیا۔ شرکائے احتجاج اس سانحے کا ذمہ دار، ہر اس دوسرے کی سوچ کو بتلارہے تھے، جو ان کی فکر سے متصادم تھی۔ سب کی اپنی اپنی آواز تھی، سب کا اپنا اپنا باجا، اور سب کی اپنی ڈفلی۔

سب تسلیم کررہے تھے کہ یہ سانحہ عظیم ہے، لیکن کوئی بھی سانحے کی کسی ایک وجہ پر متفق نہ ہوسکا۔ کچھ دیر میں مرکزی چوراہے سے اُٹھتی آوازیں شور و غل کے بن کے سارے شہر میں پھیل گئیں۔ کہانی کار تک یہ شور و غل پہنچا، نومید نے ان کی کہانی لکھ دی۔ سب کچھ معمول ہی تو تھا۔

اگلے روز یہ غیر معمولی سانحہ ہوا، کہ سب کچھ معمول پہ تھا۔ جب تک کوئی اور خبر نہیں آجاتی، جسے غیرمعمولی بنا کے پیش کیا جاسکے، تب تک سب کچھ معمول پر رہے گا؛ حتا کہ ایک دن پھر کوئی غیر معمولی خبر سنائی دے گی، یہی ڈھول تاشے پیٹے جائیں گے۔ کیوں کہ یہی دیس کا معمول بن کے رہ گیا ہے۔ سانحوں میں سانحہ یہ ہے کہ اس اعجوبہ دیس کے لوگوں میں اتفاق نہیں، نظم نہیں، اتحاد نہیں؛ ایک دوسرے کے لیے کینہ پالتے ہیں۔ سانحوں کا انتظار کرتے ہیں، اور سانحے کی ذمہ داری مخالف فریق کے کاندھوں پر لاد دینے کو بے تاب رہتے ہیں۔ یقین کیجیے یہ سب معمول کے مطابق ہے۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran