یہ ایک بچی کا قتل نہیں، سماجی بگاڑ کا معاملہ ہے


سات سالہ زینب کے قتل پر قصور احتجاج اور مظاہروں کی زد پر ہے۔ یوں لگتا ہے کہ لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ مشتعل ہجوم پولیس تھانوں اور دفاتر پر حملہ آور ہوئے ہیں اور اس وقت تک اس تصادم میں دو افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ سات سالہ بچی کو 4 جنوری کو گھر سے ٹیوشن کے لئے جاتے ہوئے اغوا کرلیا گیا تھا۔ کل اس کی لاش ایک کوڑے کے ڈھیر پر ملی جس کے بعد شہر میں اشتعال اور سراسیمگی اور ملک بھر میں غم و غصہ اور رنج کی کیفیت طاری ہے۔ ہر طبقہ فکر کی طرف سے اس المناک سانحہ پر افسوس کا اظہار کیا جارہا ہے۔ بچی کی لاش کے پوسٹ مارٹم سے واضح ہؤا ہے کہ گلا گھونٹ کر مارنے سے پہلے سفاک اغوا کاروں نے بچی کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ اب قصور کے علاوہ ملک بھر کے تمام لوگ زینب کے لئے انصاف مانگ رہے ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار اور لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے اس سانحہ پر ازخود نوٹس لیا ہے، وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے فوری طور پر ملزموں کو پکڑنے کا حکم دیا ہے، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے تحقیقات میں سول حکام کو ہر قسم کا تعاون فراہم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ اور ملک کا ہر شہری ظلم کی اس آگ میں خود کو بھسم ہوتا محسوس کررہا ہے۔

سینیٹ کی امور داخلہ کمیٹی نے بھی اس واقعہ کا نوٹس لیا ہے اور تحقیقات سے متعلق پیش رفت کی نگرانی کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف، پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو زرداری، تحریک انصاف کے عمران خان کے علاوہ ملک کے تمام سیاسی لیڈروں، ممتاز شخصیات اور سماجی حلقوں نے اس واقعہ کی مذمت کی ہے اور اس ظلم پر احتجاج کیا ہے۔ آج بچی کی نماز جنازہ پڑھانے کے لئے پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ علامہ طاہر القادری قصور تشریف لے گئے اور اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اس سانحہ کے علاوہ مظاہرین پر گولی چلانے کے واقعہ کو پنجاب حکومت کی ناکامی قرار دیا۔ بلاول بھٹو زرداری نے تو اس المیہ کو ’ شریفوں‘ کے منہ پر طمانچہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’حکومت صوبے میں قانون کی عملداری یقینی بنانے میں ناکام رہی ہے۔ شریف برادران حکمرانوں کے طور پر اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں‘۔ دوسرے سیاسی لیڈر بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہار کررہے ہیں۔ یہ سانحہ اور قصور و دیگر شہروں میں رونما ہونے والے ایسے ہی واقعات اگرچہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ان کی نگرانی کرنے والی حکومت کی کمزوری اور تساہل کا منہ بولتا ثبوت ہیں لیکن ایک انسانی واقعہ کو بنیاد بنا کر سیاست کرنے اور اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش بھی ناجائز اور غلط ہوگی۔ ملک کو اس وقت سیاسی اور سماجی ہم آہنگی اور مل کر مسائل سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔

قصور میں زینب کے ساتھ زیادتی اور قتل کے سانحہ پر زیادہ غم و غصہ کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ایک سال کے دوران ایک ہی محلہ میں بچوں کو اغوا کرنے اور جنسی زیادتی کے بعد قتل کرنے کے 12 واقعات ہو چکے ہیں لیکن پولیس ملزموں کو پکڑنے میں ناکام رہی ہے۔ زینب کے اغوا کے بعد ایک سی سی ٹی وی ویڈیو سامنے آئی تھی جس میں بچی ایک اجنبی کے ساتھ جاتی دیکھی جا سکتی ہے۔ اس کے باوجود پولیس اس شخص کا پتہ لگانے میں ناکام رہی ہے۔ اب پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اس معاملہ کی تفتیش کے لئے 200 پولیس افسر کام کررہے ہیں اور مختلف کیمروں سے حاصل کی گئی متعدد فوٹیج کا مشاہدہ کیا جاچکا ہے لیکن ابھی تک ملزم کی شناخت نہیں ہو سکی ہے۔ تاہم پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ خان کے علاوہ مقامی پولیس حکام نے امید ظاہر کی ہے کہ جلد ہی اس واقعہ میں ملوث افراد کو گرفتار کرلیا جائے گا۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ گزشتہ ایک برس کے دوران سامنے آنے والے واقعات میں ایک ہی شخص ملوث ہو سکتا ہے۔ اگر یہ بات درست ثابت ہوتی ہے تو یہ پولیس اور حکومت کے لئے زیادہ شرم اور افسوس کا مقام ہو نا چاہئے کہ دو کلو میٹر کے چھوٹے سے علاقے میں ایک ہی نوعیت کی وارداتیں کرنے والے ایک درندہ نما انسان کا سراغ نہیں لگایا جاسکا۔ ان معاملات میں تساہل برتنے والے پولیس افسران قرار واقعی سزا کے مستحق ہیں۔

اس کے ساتھ ہی یہ سمجھنے کی بھی ضرورت ہے کہ یہ واقعہ یا گزشتہ ایک برس کے دوران قصور میں پیش آنے والے سانحات کو محض ایک شخص کی کارستانی قرار دیتے ہوئے یہ فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ معاشرے کی بگڑتی ہوئی صورت حال، سماجی رویوں میں ابتری اور بچوں کے علاوہ تمام کمزور طبقات کے تحفظ سے لاپرواہی تیزی سے بڑھتا ہؤا مسئلہ ہے۔ پنجاب کے مختلف علاقوں سے اسی قسم کے جرائم کی متعدد شکایات سامنے آچکی ہیں اور ملک کے دیگر علاقوں میں بھی بچوں کے خلاف جنسی جرائم رونما ہوتے رہتے ہیں۔ یہ مثبت بات ہے کہ سپریم کورٹ سے لے کر آرمی چیف اور صوبائی حکومت و سینیٹ اس معاملہ میں دلچسپی لے رہے ہیں ۔ لیکن ان کوششوں کو صرف ایک ملزم یا اس کے ساتھیوں کو پکڑنے تک محدود نہیں رہنا چاہئے بلکہ بچوں کے تحفظ کے لئے قوانین کو بہتر بنانے سے لے کر ان کے ساتھ زیادتی کی صورت میں تیزی سے تفتیش کرنے اور مجرموں کو پکڑنے اور سخت سزائیں دلوانے کا ٹھوس نظام استوار ہونا چاہئے۔

قصور کے واقعات سے سبق سیکھتے ہوئے ملک کی درسگاہوں میں جنسی جرائم کے بارے میں معلومات فراہم کرنے، سماجی سطح پر متحرک اداروں اور تنظیموں کو لوگوں کی ذہنی تربیت کرنے اور سیاسی اور انتظامی سطح پر جرائم سے نمٹنے کا کڑا نظام استوار کرنے کے کام کا آغاز ضروری ہے تاکہ معاشرے میں درندہ صفت لوگوں کی نگرانی اور جرم سے پہلے ہی ان کی گرفت کا اہتمام ہوسکے۔ زینب کے ساتھ ذیادتی ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک وسیع تر بگاڑ کی ایک تصویر ہے ۔ اس لئے اس بچی کو انصاف دلوانے کے لئے ضروری ہے سماج کی وسیع تر اصلاح کے عظیم تر منصوبے پر کام شروع کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali