قسم لے لیں میں احمدی نہیں ہوں لیکن وہ انسان ہیں


یہ مضمون لکھنے سے پہلے ہی مجاہدینِ اسلام کی خدمت میں عرض کر دوں کہ میں احمدی نہیں اور چونکہ ابھی کم از کم تیس سال مزید جینے کی خواہش ہے تو اس لیے یہ وضاحت لازم ٹھہری۔

زینب امین کے والد صاحب، امین صاحب نے کل ارشاد فرمایا کہ ان کی بیٹی، جن کے ساتھ شدت کا ظلم ہوا، کے واقعہ کی تحقیقاتی کمیٹی کا سربراہ اک مسلمان ہونا چاہئیے کیونکہ شنید تھی کہ جو صاحب یا صاحبہ بھی بنائی جانے والی کمیٹی کے سربراہ بنائے جا رہے تھے، وہ شاید احمدی تھے۔ کل ہی سے شک میں مبتلا ہوں کہ شاید قدرت نے مسلمانوں کی قابلیت بڑھانے کی خاطر چار دماغ زیادہ دیئے ہونگے۔ کوئی ڈاکٹر صاحب ہیں یہاں جو میری اس جہالت میں اپنے علم کی روشنی بکھیر سکیں؟

امین صاحب کا یہ بیان پاکستانی معاشرے پر اک اور بھدہ تبصرہ ہے کہ جہاں مذہب کے نام پر تقسیم در تقسیم کا عمل انسانی ذہنوں کو اپنے بدترین حالات میں بھی اپنے مسلکی و مذہبی تعصبات سے باہر نہیں نکلنے دیتا۔ میں امین صاحب سے دلی درخواست کرتا ہوں کہ چونکہ ان کی تمام باتیں آج کل مانی جا رہی ہیں تو لگے ہاتھوں وہ یہ حکم بھی صادر کر دیں کہ تحقیقاتی کمیٹی کا سربراہ اک حنفی بریلوی سُنی ہو اور وہ جناب خادم رضوی صاحب مدظلہ علیہ کا دست راست ہو۔ سونے پر سہاگہ تو یہ ہوگا کہ وہ سر پر سبز پگڑی بھی باندھتا ہو، اور سامنے والی جیب میں اک مسواک بھی ٹکائے پھرتا ہو۔ مجھے یقینِ کامل ہے کہ ان کے اس مطالبہ سے ان کی، اور میری بیٹی، زینب کے ساتھ ہونے والے جرم کی تحقیقات بمشکل پندرہ سیکنڈ میں ہو جائیں گی اور مجرم بھی پکڑا جائے گا۔ میں ان کا مزید احسان مند ہوں گا اگر وہ پکڑے جانے والے مجرم کا مذہب اور اسکا فرقہ بھی بتا دیں۔ اتنا مجھے اندازہ ہے کہ وہ احمدی نہ ہو گا۔

یاد رہے مگر، کہ میں احمدی نہیں!

احمدیوں کے بارے میں پاکستان میں بالعموم اور پنجاب میں بالخصوص اک مستقل نفرت اور تشدد کی فضا قائم ہے اور یہ اک کلاسیکی مطالعہ بن سکتا ہے کہ کیسے نسل در نسل تعصب اور نفرت کے پیغامات اک سماجی رواج کی شکل دھار کر گویا اس زمانے میں مروج مذہب و دین کی تشریحات کا ایسا حصہ بن جاتے ہیں کہ جن پر عقل، دلیل اور فہم کی کوئی ضرب لگانا تو اربوں نوری سال دور کا معاملہ ٹھہرا، بات کرنا بھی گردن زدنی ہو سکتا ہے۔ اس سے بڑا تضاد کیا ہو گا کہ اقرا سے شروع ہو کر تفکر، مہربانی اور حسن سلوک کے تواتر سے حکم دینے والے مذہب اور اس کے نبی ﷺ کی زندگی کے اکثریتی طریق کو اپنے پاکستانی اور پنجابی تعصب، نفرت اور تشدد کی بھینٹ چڑھا دیا جائے؟

اک بار پھر: میں احمدی نہیں، واللہ! بالکل نہیں ہوں

میں ملکوال، میدانی اور درمیانی پنجاب کی پیدائش ہوں۔ میں بہت چھوٹا تھا، جب وہاں کے سول ہسپتال میں سرکاری ڈاکٹر کا نام بھی مبشر تھا اور وہ احمدی تھے۔ میں اپنی ہوش سنبھالنے کے اوائل میں تھا جب ملکوال میں تمام مسالک کے رہنما ان احمدی ڈاکٹر کے خلاف اکٹھے ہوگئے اور ان کی جان کو خطرہ بنا ڈالا۔ ڈاکٹر مبشر، اک قابل اور خدمت کی نفسیات رکھنے والے ڈاکٹر تھے، انہوں نے وہاں سے جلدی میں ٹرانسفر کروالی اور پھر انکی جگہ حال ہی میں اک سابقہ جنگجو مسلک کے مولوی صاحب نے اپنا سالا ڈاکٹر بھرتی کروا لیا۔ عرصہ پندرہ سال کے بعد، میں ملکوال میں ہی تھا تب، تو معلوم پڑا کہ ان سالا صاحب کی اصل ڈگری کمپاؤنڈری کی تھی اور انہوں نے ڈاکٹری کی جعل سازی کی ہوئی تھی۔ رہے نام اللہ کا، مگر اپنی “ڈاکٹری” کے دنوں میں سالا صاحب نے نجانے کیا کیا کھلواڑ کیے ہوں گے!

پھر ملکوال میں ہی بڑے ہوتے ہوئے احمدیوں کے بارے میں اک لغو اور جھوٹ بات سنی کہ ربوہ (حالیہ زبردستی کا چناب نگر) میں ان   کی اک جنت ہے جہاں انہوں نے احمدی کرنے اور نئے نئے احمدی ہو جانے والوں کے لیے عیاشی کا سامان مہیا کیا ہوا ہے۔ سچ کہتا ہوں کہ اس جھوٹ کی تفصیلات یہ تھیں کہ احمدی کرنے کے لیے مجھ جیسے معصوم مسلمانوں کو وہ اس جنت میں لے جاتے ہیں کہ جہاں اک نیم تاریک کمرے میں کہ جس میں خوشبویات کا زور ہوتا ہے، اک راستے کے دونوں جانب خوبصورت لڑکیاں دو زانو جھکے ہوئے اپنے بال زمین پر پھیلائے بیٹھی ہوتی ہیں اور احمدی ہو جانے والا معصوم مسلمان ان بالوں پر چل کر آگے بڑھتا ہے۔ بہت بدقسمتی رہی کہ بالوں پر چل کر جانے کے بعد اس “جنت” میں کیا “معاملہ” ہوتا تھا، یہاں راوی کچھ بھی بیان کرنے سے قاصر رہتے تھے۔

فہم اور شعور نے جب دماغ کے دروازے پر کہیں بعد دستک دی تو معلوم پڑا کہ پکے احمدی تو اپنی تعلیمات میں بہت سخت پکے مسلمانوں سے بھی سخت المزاج ہوتے ہیں۔

میری اک سینئر دوست احمدی ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے ٹیچر ہیں۔ ان کی اپنی والدہ سے ساری عمر جنگ رہی کہ میری یہ دوست بھرپور پردہ نہیں کرتی تھیں۔ انکے والد صاحب حیات ہیں اور ان سے ملنے سے کتراتے ہیں، صرف اس لیے کہ انکی بیٹی احمدیت میں اصولی طور پر مروج پردہ نہیں کرتی۔

ایسی کئی دوسری مثالیں بھی مزید دے سکتا ہوں، مگر پاکستانی اور پکے پنجابی مسلمان کی شدت سے چونکہ خوف آتا ہے تو اسلیے اک بار پھر حلفا کہے دیتا ہوں: میں احمدی نہیں۔

ہمارے اک بھاری بھرکم اور بہت مشہور مذہبی سیاسی رہنما ہیں۔ انہیں سنہ 2002 میں اک ریلی کی قیادت کرتے ہوئے ملتان کے قریب دل کا دورہ پڑا۔ اس کی تفصیلات پھر کبھی سہی، مگر ان کے دل کا “حتمی اور بہترین” علاج بھی امریکہ سے بلوائے ضلع گجرات، پنجاب کے اک سابق پاکستانی احمدی ڈاکٹر، جن کا نام بھی ڈاکٹر مبشر ہی تھا، نے کیا۔ وہ ڈاکٹر اس وقت کے اک عینک پوش سیاسی رہنما کی درخواست پر پاکستان آئے، علاج کیا اور باہر باہر سے واپس باہر چلے گئے۔ ان کے احمدی دماغ کی پاکستان کو بھلا کیا ضرورت ہو سکتی تھی؟

کل اسلام آباد میں زینب بیٹی کے حق میں کہ جس کو یار لوگ طنزا “موم بتی مافیا” کہتے ہیں کے چند لوگوں نے پرامن مظاہرہ کیا۔ اس مظاہرے میں بھی دو احمدی فیملیز سے لوگ آئے ہوئے تھے، ان میں سے اک احمدی بیٹی نے اپنے فیس بک پر تحریر کیا (مفہوم): امین صاحب، گو کہ آپ نے ہمارے بارے میں جو کہا، وہ کہا، مگر میں بطور پاکستانی احمدی، آپ کی بیٹی کے ساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف ہر محاذ پر آپ کے ساتھ کھڑی ہونگی۔” ویسے، خادم “جبہ و دستار” کے صاحبان کے مظاہرے کا منتظر ہے۔

آخر میں صاحبو، درخواست یہ کرنی ہے کہ آپ کے سماجی، مذہبی، معاشرتی اختلاف بھلے کسی کے ساتھ بھی ہوں، یہ اختلافات کبھی بھی تعصبات کی شکل اختیار نہیں کرنے چاہئیں کہ تشدد کا رستہ تعصب کی گلی سے ہی گزرتا ہے۔ بہت پرہیز کیا کیجیے۔ احمدیوں کا معاملہ پاکستان کی پارلیمنٹ نے طے کر دیا ہوا ہے اور ان کے بارے میں قوانین موجود ہیں، آپ کو ان قوانین سے اتفاق ہو یا اختلاف ہو، قانون ہاتھ میں لینے کی کوئی تُک اور ضرورت نہیں بنتی۔ تشدد سے کسی بھی مذہب، فرقہ یا نظریہ کی کوئی عظمت نہ بیان ہوتی ہے، نہ ہی بڑھائی جا سکتی ہے۔ یاد رکھا کیجیے کہ احمدی ہوں، مسیحی ہوں یا کسی اور مذہب و فرقہ کے لوگ ہوں، وہ بھی آپ کی طرح کے انسان ہی ہیں اور پاکستان کے ویسے ہی قانونی، معاشرتی، سیاسی اور سماجی شہری ہیں کہ جیسا کہ آپ ہیں، یا زینب کے والد، جناب امین صاحب ہیں۔

پس نوشت: قران، کلمے، رسولؐ کی قسم لے لیجیے، میں احمدی نہیں۔ بہت شکریہ!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).