بچی ماری گئی، زبانیں لمبی ہو گئیں


بچوں اور بچیوں کے ساتھ، غیر محفوظ کم سن ملازماؤں کے ساتھ، مزارعین کی نوعمر لڑکیوں کے ساتھ، کھیتوں میں گھروں میں، مدارس میں مکتب میں، گھروں کے اندر، گھروں سے باہر، اپنوں کے ہاتھوں اور غیروں کی جانب سے جنسی زیادتیاں کسی نہ کسی اور انتہائی شکل میں ہوتی رہی ہیں اور ہوتی رہتی ہیں۔ اس مذموم حرکت کے بعد مظلوم بچوں، بچیوں، کمسن ملازماؤں اور نوعمر لڑکیوں کی جان تک لے لینے میں کہیں جبروتیت و فرعونیت کا ہاتھ ہوتا ہے، کہیں انتقامی منظر سازی کا مگر عموماً زیادتی کرنے والے کا اندرونی خوف اسے اپنے مظلوم شکار کی روح قبض کرنے کا مجبور کرتا ہے۔

میرے لیے اس بار کے واقعے کے بعد، ان دو دنوں میں اس واقعے سے متعلق طرح طرح کی باتیں سننا اور تحریریں پڑھنا بچی کے ساتھ زیادتی اور اس کے قتل کے اندوہ جتنا ہی غمناک رہا۔ کوئی لکھتا ہے، اچھا ہوا زینب تم مر گئیں، تم بڑی ہوتیں تو تمہارے ساتھ یہ ہوتا، وہ ہوتا۔ تحریر میں جنسی دراز دستی کی تصویر کھینچی جاتی ہے، یہ بذات خود غیر عمومی تلذذ کیشی کی ایک شکل ہے۔ کوئی اس واقعے کے پس منظر میں اپنی ادب نگاری کے نگ ٹانکنے کے بعد ایک بے کیف سی مذمت کا اختتامیہ لکھتا ہے۔ کوئی محض جذبات کا اظہار کرتے ہوئے مجرم کو سرعام پھانسی دینے کی بات کرکے اپنا رنج ظاہر کرتا ہے، کوئی پولیس کی نا اہلی پر نالاں ہے، کوئی کسی حد تک عقل سے کام لیتے ہوئے والدین اور بچوں کی کونسلنگ کی بات بھی کرتا ہے، کوئی بیچاری زینب کی موت کو اپنی سیاست چمکانے اور حکومت گرانے کے لیے استعمال کرنے کی روش اپناتا ہے مگر کوئی ایسا نہیں جو گذشتہ عرصہ میں ہوئے ایسے سانحات کا عقلی، قانونی اور نفسیاتی تجزیہ کرکے نتائج اخذ کرکے ان کی بنیاد پر آئندہ ایسے مذموم واقعات کو ہونے سے روکنے کی خاطر حکمت عملی وضع کرنے کی بات کرتا ہو۔

اخبارات کے مطابق چند ماہ کے دوران ایک ہی علاقے میں دس بارہ بچیوں کے ساتھ ایک ہی طرح کے اندوہناک واقعات ہو چکے ہیں۔ کچھ سے متعلق پولیس کا دعوٰی ہے کہ ان کے ملزم گرفتاری کے بعد جیل میں ہیں اور کچھ واقعات کا ابھی تک سراغ نہیں لگایا جا سکا۔ کئی لوگوں کو مسلسل جنسی زیادتی کے بعد مارنے کے واقعات سے یہی لگتا ہے کہ مجرم کوئی ذہنی مریض ہے۔ بچوں اور بے بس لوگوں کے ساتھ ایسا سلوک کرنے والے ذہنی مریض ہوتے ہیں۔

سیریل کلر کی اصطلاح سب نے سنی ہوئی ہے۔ جس میں ایک ہی مرد بار بار لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرتا ہے اور انہیں موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ تفتیش میں بہت زیادہ ترقی یافتہ ملکوں میں بھی ایسے مجرم پکڑے جانا عموماً چیلنج بن جاتا ہے، کیونکہ ایسے مجرم فطین ہوتے ہیں۔ وہ عام زندگی میں بہت شریف النفس اور دبو دکھائی پڑتے ہیں۔ ان پر کسی کو شک تک نہیں ہوتا کہ وہ ایسی کوئی حرکت کر سکتے ہوں گے۔ مثال کے طور پر سوویت یونین کے دور میں چیکاتیلو نام کے ایک سیریل کلر کے شبہ میں دو اور اشخاص کو موت کی سزا دی گئی اور اس پر عمل درآمد بھی کر دیا گیا تھا۔ مگر جب اصل قاتل پکڑا گیا تو وہ ایک بوڑھا سکول ٹیچر تھا جو محرومی کا شکار تھا۔ دو سال پیشتر ایک اور سیریل کلر پکڑا گیا جو بیوی کی جدائی کے بعد انتقام کے تحت لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کرکے انہیں مارتا تھا، یہ ایک سابق پولیس افسر تھا۔ روس میں تحقیق کے مطابق کچھ خاص علاقوں میں ایسے سیریل کلر زیادہ ہوتے ہیں جس کا تعلق زمین سے اٹھنے والی مقناطیسی لہروں سے جوڑا گیا ہے۔

ہم چونکہ بات کر رہے ہیں بچیوں سے ہوئی زیادتی اور ان کے قتل سے متعلق تو یہ باور کرنے کی ضرورت ہے کہ کوئی بھی بچی اپنی معصومیت اور جسمانی کمزوری کی وجہ سے سب سے آسان شکار ہوتی ہے۔ بچی بڑی بڑی مونچھوں اور لال انگارہ آنکھوں والے شخص کی بات سنتے ہی بھاگ کھڑی ہوگی لیکن اگر ایک شفیق دکھائی دینے والا مرد اس کے ساتھ پیار سے بات کرے گا تو ممکن ہے وہ اس کی باتوں میں آ جائے۔

سب سے پہلے تو بچوں کو اس بارے میں شعور دیے جانے کی ضرورت ہے کہ کسی بھی غیر کے ساتھ کہیں نہیں جانا چاہیے اور اگر کوئی اپنا بھی جسم کے ایسے مقامات کو چھوئے جن کا چھونا انہیں برا لگتا ہو تو اس بارے میں وہ گھبرائے بغیر ماں باپ کو مطلع کریں۔ بچوں کو یہ بھی احساس دلایا جائے کہ کوئی بھی ان کے ساتھ زیادتی کر سکتا ہے اس لیے وہ صرف اپنے ماں باپ، بہن بھائی کے ساتھ ہی کہیں جائیں۔

اگر اس علاقے میں کوئی ذہنی مریض نہیں بھی ہے تب بھی ہمیں سرجوڑ کر سوچنا چاہیے کہ ایسے واقعات کیوں بڑھ رہے ہیں چاہے ان میں زیادتی کا شکار بچوں اور بچیوں کو قتل نہ بھی کیا گیا ہو۔ چند وجوہ جو ذہن میں آتی ہیں وہ کچھ یوں ہیں:

1۔ جنسی ہیجان کے ذرائع کا عام ہونا اور جنسی اخراج کے مواقع کا فقدان۔ یہ معاملہ طبی بھی ہے اور عمرانی بھی۔ چونکہ خاندانی نظام ٹوٹ رہا ہے۔ یگانگت میں کمی آ رہی ہے۔ مادی طلب بڑھ رہی ہے۔ معاشی تضاد وسیع ہو رہا ہے۔ بیاہ ہونا مہنگا ہو چکا ہے۔ انٹرنیٹ کا استعمال عام ہو ہے۔ جس پر جنسی ہیجان خیز فلمیں دیکھنا اب کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ جب ایسا نہیں تھا تب ہیجان سوچ تک محدود ہوتا تھا اب اخراج کی خاطر عمل کی خواہش تک پھیل چکا ہے۔ مذہبی اور سماجی قدغن اج بھی جنس کو طبو بنائے ہوئے ہیں۔ اگر کوئی حد سے گزر جائے یا ذہنی مریض ہو اور وہ ایسی حرکت سرزد کر بیٹھے جس سے بدنامی اور سماجی و قانونی گرفت کا امکان ہو تو وہ شکار کو مار دینا اپنی نجات سمجھے گا۔

2۔ مخالف جنسوں کے درمیان عمومی اختلاط نہ ہونا۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ ایسے واقعات ان معاشی و سماجی پرتوں میں زیادہ ہوتے ہیں جہاں لڑکوں لڑکیوں کو آپس میں ٹھٹھا مخول کرنے اور چھونے کھیلنے کی آزادی نہیں ہوتی۔ کم عمر بچوں بچیوں کی اس نوع کی معصومانہ حرکتوں سے جنسی ہیجان میں کمی آتی ہے اور ایک دوسرے پر اعتماد کی فضا قائم ہوتی ہے۔ دونوں مخالف جنسیں ایک دوسرے کا خیال اور احترام کرنا سیکھتے ہیں۔ اگر معاملہ اس کے برعکس ہو ایک دوسرے کے بارے میں تجسس بڑھتا ہے۔ جب ایک فریق اس تجسس کو اپنے عمل سے دور کرنے کی سعی کرے گا تو دوسرے فریق کی مزاحمت سے غصہ جنم لے گا اور اگر پہلا فریق مضبوط ہو تو بات کہیں تک بھی جا سکتی ہے۔

3۔ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے مجرموں کے ساتھ ریاست اور سماج کا رویہ غیر حساس ہونا۔ ترقی یافتہ ملکوں میں جہاں سزائے موت کو غیر انسانی خیال کیا جاتا ہے اور ریاست کو کسی کو مارنے کا حق نہیں دیا جاتا کیونکہ اس طرح ریاست خود قاتل کہلاتی ہے وہاں سیریل کلر کو تو تا دوام قید خانے میں رکھا جاتا ہے۔ ایسے مجرم جنہوں نے بچوں کے ساتھ زیادتی کی ہو مگر انہیں جان سےنہ مارا ہو وہ اپنی سزا کی مدت پوری ہونے کے بعد جب رہا ہوتے ہیں تو جس بھی علاقے میں وہ رہنے کو جائیں انہیں وہاں کے مقامی تھانے کو رپورٹ کرنی ہوتی ہے۔ تھانے کا انچارج علاقے کے تمام لوگوں کو اس کی موجودگی کے بارے میں مطلع و متنبہ کرتا ہے۔ ہمارے ملک میں ایسا کوئی سلسلہ نہیں ہے۔ مجھے یاد ہے 1958، 1959 میں جب ہمارے آبائی گھر کے سامنے رہنے والے جیدے نے ایک سات سال کی بچی کو ورغلا کر اپنی پان کی دکان کے پچھلے حصے میں اندر لے جا کر ریپ کیا تھا، بچی کی چیخیں سننے پر لوگوں نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا تھا تو اسے سات سال قید کی سزا ہوگئی تھی۔ وہ جیل سے آنے کے بعد اپنے گھر میں اپنے بھائیوں کے ساتھ رہتا تھا۔ ہماری والدہ حساس اور پڑھی لکھی خاتون تھیں چنانچہ انہوں نے ہم دو کمسن بھائیوں کو بتا دیا تھا کہ یہ برا آدمی ہے اس لیے ہم اس سے کنی کتراتے تھے۔

4۔ پولیس کا بے حس رویہ اور حکومت کا نا اہل ہونا۔ پولیس ایسے واقعات میں پہلے معاملے کو بچی کے گم ہو جانے کے طور پر اتنا سنجیدہ نہیں لیتی۔ والدین سے کہا جاتا ہے کہ اپنے طور پر ڈھونڈیں۔ لوگ مساجد میں اعلان کرواتے ہیں یا آج کے دور میں مقامی کیبل پر تصاویر جاری کرتے ہیں۔ اگر پھر بھی نہیں ملتی اس کے بعد بھی پولیس کا رویہ سرد مہر ہوتا ہے۔ لاش ملنے کے بعد ہی معاملے کی سنگینی کا احساس کیا جاتا ہے اور پولیس کی پہلی نگاہ رشتے داروں پر پڑتی ہے۔

اس کے برعکس روس کے کسی چھوٹے شہر میں اگر بچہ گم ہو جائے تو مقامی حکومت سے لے کر رضاکار تنظیمیں تک فعال ہو جاتی ہیں۔ اس کے باوجود بعض اوقات بچے ایک عرصہ نہیں مل پاتے کیونکہ بہت سے کسی اور شہر کو نکل چکے ہوتے ہیں۔

ہمارے ہاں حکومتیں تمام معاملات کی طرح بچوں اور کمزوروں کے تحفظ میں نا اہل ہیں۔ انسان کی کوئی قدر ہے ہی نہیں، بچہ تو ویسے بھی ایسی حکومتوں کی نظر میں چھوٹا انسان ہوتا ہے۔ قتل ہو جانے کے بعد پنجاب کے وزیراعلٰی لواحقین سے ملنے میں البتہ بہت مستعد ہیں تاکہ فوٹو سیشن ہو۔

5۔ آبادی کا پھیلاؤ اور انفرادی توجہ میں کمی۔ غربت اور جہالت کی وجہ سے لوگ زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں کیونکہ ماسوائے جنسی عمل کے انہیں کوئی اور تفریح میسر نہیں اگر میسر ہے تو وسائل نہ ہونے کے سبب دستیاب نہیں۔ جتنے زیادہ بچے ہوں گے اتنی ہی ہر بچے پر انفرادی توجہ کم ہوگی۔ جب انفرادی توجہ کم ہوگی تو بچہ اپنے اعمال میں خود کفیل ہوگا اور اس کی یہ خام خود کفالت بعض اوقات اس کے لیے موجب ہلاکت ہو سکتی ہے۔

چند عمومی وجوہ بیان کرنے کے بعد ”سرعام پھانسی دی جائے“ جیسے جذباتی اور برحق جذباتی نعرے پر بھی غور کیے جانے کی ضرورت ہے۔ جان سے گئی بچی مجرم کو پھانسی دیے جانے سے واپس نہیں آ سکتی۔ ایسے مجرم کو تادوام سزائے مشقت دیا جانا زیادہ بہتر ہوگا جہاں سے اس کی لاش ہی نکل سکتی ہو۔ یا جیسے چند ملکوں میں ایسے لوگوں کو نشان عبرت بنانے کی غرض سے قانون ہے جس کے تحت انہیں کیمیائی عمل کے ذریعے جنسی فعل کی صلاحیت سے عمر بھر کے لیے محرم کر دیا جاتا ہے، کیا ایسا نہیں سوچا جا سکتا کہ ہمارے ملک میں بھی ایسا ہی قانون بنایا جائے۔ نامرد ہونے کی شرمندگی ہمارے جیسے پدرسری نظام میں سب سے ذلت آمیز سزا ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).