کچی مٹی کے برتن


بابا جی نے کسی کالج یا یونیورسٹی سے تعلیم حاصل نہیں کی لیکن زندگی سے انہوں نے کچھ عالمگیر اور اٹل سبق سیکھے ہیں۔ آج ان کی باتوں سے وہی فلسفہ ٹپک رہا تھا جو انگلش ناول نگار تھامس ہارڈی کے ناولوں میں ملتا ہے۔ انسان اس دنیا میں پتلی کی مانند ہے جس کی ڈوریاں قسمت کے ہاتھوں میں ہیں۔ پتلی کی اپنی مرضی نہیں ہوتی۔ قدرت اور قسمت کے اشاروں پہ ناچنا ہی اس پتلی کا کام ہے۔ تھامس ہارڈی کے ناول ’ریٹرن آف دی نیٹو‘ کی ہیرؤئن یوسٹیشیا وائے ایک عالی شان زندگی گزارنے کا خواب بنتی ہے۔ مگر حالات و واقعات اس کے خوابوں کو ریزہ ریزہ کر دیتے ہیں۔ جیون کے پر خار راہوں پہ چلتی وہ اپنے ہی خوابوں کی کرچیوں سے لہو لہان ہو کر زندگی کی بازی ہار جاتی ہے۔ تھامس ہارڈی کے سارے کردار پھولوں کی تمنا کرتے ہیں اور کانٹے ان کا نصیب ٹھہرتے ہیں۔
بابا جی گاؤں میں ہونے والے افسوس ناک حادثات کو یاد کر رہے تھے۔ یوں لگ رہا تھا کہ یہ حادثوں کا شکار ہونے والےمیرے گاؤں کے لوگ تھامس ہارڈی کے ناولوں سے نکلے ہوں۔ پرمسرت زندگی کے یہ متلاشی کیسے موت کے منہ میں چلے گئے۔

بابا جی اس منحوس دن کو یاد کر رہے تھے جب کنواں منہدم ہونے سے سات افراد درگور ہوئے تھے۔ مستری مزدور سیڑھی لگائے گارے اینٹوں سے کنوے کے پشتے پکے کر رہے تھے۔ گارے سے بھری ٹریکٹر ٹرالی جب پاس آکے رکی تو ریتلی زمیں کے بھربھرے پشتے گر گئے۔ بچوں کا رزق کماتے مزدور اور بچوں کی بہتر زندگی کے خواب سب ریت ہو گئے۔
بانگی کھوہ کے مزارع کی جوان بیٹی کو سانپ نے کاٹا تھا۔ مولوی غلام فرید سے دم پھوکا کروانے لایا تھا اس کا باپ۔ ابھی دم بھی پورا نہ ہوا تھا کہ لڑکی کا جسم نیلے دھبوں میں بدل گیا اور اپنے باپ کی بانہوں میں دم توڑ گئی۔ چند دن بعد اس کی شادی تھی۔ جہیز کے رنگلے پلنگ پہ ہی اس کا جنازہ اٹھا تھا تبھی تو اس کی ماں کہتی تھی ’دیکھو میری بیٹی کی ڈولی اٹھی ہے‘۔ سارا پنڈ غم میں ڈوبا تھا کہ ایک محنت کش کی سخت جاں بیٹی کیسے پل بھر میں لمبی اڈاری اڑ گئی۔

تیرا پنڈا پوری توت دی تیری لگراں ورگی بانہہ
تیرے بلھ نیں پھل کریر دے تیرا جوبن ون دی چھاں
ایہہ چھاواں سدا نہ رہنیاں رہے سدا اوس دا ناں
اسیں رب سببی گورئیے اج آ گئے ایس گراں
۔ تیرے جوبن وانگوں گوریئے اسیں کل مسافر آں

ساون کا مہینا تھا۔ بادل ٹوٹ کے برسے تھے۔ حکیم کا اکلوتا جواں سال بیٹا نیم کے درخت پہ چڑھا نمولیاں کھا رہا تھا۔ دور دیس سے آئے پنچھیوں کے ڈار بھی نیم پہ اترے شور مچا رہے تھے۔ اونچی شاخ پہ کھڑے لڑکے کا پاؤں پھسلا تو زمیں پہ دھڑام سے گر گیا۔ سب پنچھی ایک دم سے اڑ گئے۔ حکیم باپ کے پاس نزلہ کھانسی بخار کے نسخے تو بہت تھے مگر بیٹے کی جان بچانے کی کوئی پڑیا نہ تھی۔ باپ پہ یکدم بڑھاپا آ گیا۔ حکیم خود مریض بن گیا۔ بیٹے کی موت کے بعد دو تین ساون ہی بمشکل دیکھ سکا۔

بابا بتا رہے تھے کہ کپاس کی چنائی کا موسم تھا۔ ماں نے چارپائی کے ساتھ دوپٹہ باندھے جھولا بنایا تھا جس میں ڈیڑھ سالہ بیٹا سو رہا تھا۔ چارپائی کھیت کنارے بہتے کھال پہ رکھی تھی۔ کپاس چنتی ماں کو خبر ہی نہ ہوئی کہ کب اس کے بیٹے نے کروٹ بدلی اور کھال میں گر گیا۔ شیر خوار بچہ پانی سے کیسے نکل سکتا تھا۔

عجیب اتفاق تھا کہ اسی ماں کا ایک بیٹا پہلے ہی ٹریکٹر ٹرالی کے نیچے آکر فوت ہوا تھا۔ اجل نے ایک ہی گھر کا راستہ تاڑ لیا تھا۔ دونوں معصوم بچے تھے۔
وہ تو بتا رہا تھا کئی میل کا سفر
زنجیر کھینچ کر جو مسافر اتر گیا

بھائی چھت پہ چارپائی ڈالے سوتا تھا۔ ڈھاری پہ چوری چکاری کا اندیشہ ہمیشہ رہتا تھا۔ ڈھور ڈنگر کی حفاظت کے لیے اک نالی بندوق میں کارتوس بھر کر سرہانے رکھتا تھا۔ سویرے بہن چھت سے چارپائی، بستر، پانی کی گاگر اور بندوق نیچے صحن میں اتارنے لگی تو بندوق چل گئی۔ کارتوس سے نکلے دانے کم بخت خطا نہیں ہوئے۔ جوان بہن کے گلے، چہرے اور دماغ میں اتر گئے۔
زندگی کے حسین ترکش میں
کتنے بے رحم تیر ہوتے ہیں

بابا کمال شاہ کی دربار پہ میلہ لگا تھا۔ قادر مہر منہ اندھیرے اٹھا اور سہ پہر تک کھیتی اور مال ڈنگر کے سارے کام نمٹا کر فارغ ہو گیا۔ بیٹے کو کندھوں پہ بٹھائے میلہ دکھانے آیا تھا۔ بیٹے کی ساری خواہشیں پوری کرنا باپ کی آرزو تھی۔ جھولے جھلائے اور فالودہ، آم اور جلیبی لے کر دی۔ کبڈی کا میچ دیکھا۔ جامن اتارنے کے لیے پیڑ پہ چڑھ گیا۔ جامن پیڑ کی کچی شاخ کڑک گئی اور وہ نیچے کھڑے بیٹے کے پاس آ گرا۔ معصوم بیٹے کو معلوم نہ تھا کہ جامن کھانے کی خواہش اتنا بڑا جرم بھی ہو سکتی ہے۔ یہ واقعہ سنانے کے بعد بابا جی کے الفاظ کا مفہوم تقریبا وہی تھا جو شیکسپئیر نے اپنے ڈرامہ ’کنگ لئیر‘ میں بیان کیا ہے۔

’جیسے چنچل بچوں کے ہاتھ میں تتلیاں ہوتی ہیں ویسے ہی انسان خداؤں کے ہاتھوں میں ہیں۔ وہ کھیل کھیل میں ہمیں مسل دیتے ہیں‘
ان کے پاس بے شمار حادثات کی یادیں تھیں جو وہ نم آنکھوں سے بیان کرتے رہے۔ انہوں نے چودہ سالہ کمہار لڑکے کے بارے بھی بتایا جو کھاد کی بوری رکھتے ہوئے ٹیوب ویل انجن کی شافٹ میں لپٹ گیا تھا۔ ہڈیاں چور ہو گئیں اور جسم مسخ ہو گیا تھا۔

گاؤں کے ایک زمیندار نے بڑی چاؤ چنتا سے اونٹ پالا تھا۔ دونوں ہر سفر میں ہم سفر ہوتے تھے۔ ایک دفعہ پڑوس گاؤں جاتے راستے میں اونٹ نے سوار پہ حملہ کر دیا۔ سوار نے نکیل کو کھینچ کر قابو کرنے کی ٹھانی تو نکیل ہی ٹوٹ گئی۔ اونٹ نے مالک کو گردن سے پکڑ کر زمین پہ پٹخ دیا اور سینے پہ بیٹھ کر کچل ڈالا۔ مالک کو اونٹ سے بہت پیار تھا۔

پھر ایک کسان فصل پہ کیڑے مار دوا کا چھڑکاؤ کر رہا تھا کہ صحت اچانک بگڑ گئی اور جانبر نہ ہو سکا۔ فصل کھاتے کیڑے تو شاید سب ختم نہ ہوئے ہوں گے مگر کسان کی کہانی ضرور ختم ہو گئی۔

ایک بار کچھ لوگ ریت کی ٹرالی بھر رہے تھے۔ ریت کے گڑھے کا پشتہ گرا تو ایک نوجوان منوں ریت تلے دب گیا۔ اس کا گھر نیا بن رہا تھا جو ریت کے گڑھے کا مکیں ہو گیا۔
بابا نے ایک اور عجیب واقعہ سنایا۔ چاچا غلام کی بیٹی اچانک حرکت قلب بند ہونے سے فوت ہوئی تو گھر کا کوئی فرد دوڑے دوڑے نمبردار کے ڈیرے گیا اور اسے بندوق ساتھ لانے کی منت سماجت کی۔ نمبردار دونالی بندوق میں کارتوس بھر لایا اور مردہ لڑکی کے سر کے قریب بندوق لاتے ہوئے ہوائی فائر کیا۔ ان کا ماننا تھا کہ ایکدم زوردار آواز سے دل دوبارہ چل سکتا ہے۔ جب نمبردار نے ٹرگر دبایا ہوگا تو گھر والے کتنی امید سے لڑکی کو تکتے رہے ہوں گے کہ شاید اٹھ بیٹھے گی۔ ان کے دل زور سے دھڑکے ہوں گے۔

گاؤں والے اب جان چکے کہ خواہ جتنی شدت سے امید باندھ لیں جانے والے کبھی لوٹ کر نہیں آتے۔ اچانک موت پہ بندوق چلانے والا ناکام سا حربہ بھی کب کا چھوڑ چکے۔
نماز کا وقت ہو چلا تھا۔ بابا نے بات مختصر کر دی۔ کہنے لگے کہ ہمارا گاؤں حادثات کا گاؤں ہے۔ یہاں کے لوگ تھوڑی سی زندگی لے کر آتے ہیں۔ مسجد کا لاؤڈ اسپیکر قضائے الہی کے ضروری اعلانات کے لیے کھڑکتا ہی رہتا ہے۔ ہمارے گاؤں کے لوگ کچی مٹی کے برتن ہیں جلدی ٹوٹ جاتے ہیں۔

احمد نعیم چشتی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

احمد نعیم چشتی

احمد نعیم چشتی درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ سادہ اور چھوٹے جملوں میں بات کہتے ہیں۔ کائنات اور زندگی کو انگشت بدنداں تکتے رہتے ہیں۔ ذہن میں اتنے سوال ہیں جتنے کائنات میں ستارے۔ شومئی قسمت جواب کی تلاش میں خاک چھانتے مزید سوالوں سے دامن بھر لیا ہے۔

ahmad-naeem-chishti has 76 posts and counting.See all posts by ahmad-naeem-chishti