جس مقتول کا قاتل نامعلوم ہو اس کا قاتل حاکم وقت ہوتا ہے


“جس مقتول کا قاتل نامعلوم ہو اس کا قاتل حاکم وقت ہوتا ہے”۔

ہم بھی پاگل ہیں کس کے آگے حضرت علیؓ کے قول کا حوالہ پیش کررہے ہیں۔ یہاں حاکم وقت اور ان کے گماشتے لوٹی ہوئی دولت بچانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کو زینب یا زینبوں سے کیا واسطہ۔ ملک کو ایک باقاعدہ جنگل کی شکل دے دی گئی ہے، جہاں ہر درندہ اپنے مزاج اور طاقت کے حساب جو میسر ہو لوٹ رہا ہے۔ یہاں سب کے کاروبار الگ۔ سب کی تربیت الگ، سب کے نظریے الگ۔ مملکت خداداد کے مشترکہ نظریے سے کسی کو کوئی واسطہ نہیں۔ اور ذاتی نظریات کے لئے قتل تک جائز ہیں۔

تین دن ہوتے ہیں جب سے زینب کا اندوہناک قتل ہوا ہے۔ چھہ سال کی میری بچی ہے اچھی بات یہ بھی ہے کہ چترال دور افتادہ ہونے کی وجہ سے ہمارے بچوں کو میڈیا تک خصوصاً سوشل میڈیا تک رسائی نہیں ہے۔ اس لئے میری پھول جیسی بچی اپنی جیسی ایک پھول کے درندوں کے ہاتھوں ریپ اور قتل سے مکمل طور پر انجان ہے۔ پھر بھی میں تین دن سے ان سے نظریں نہیں ملا پایا۔ کل ہی تو وہ کہہ رہی تھی کہ پاپا آپ اس دفعہ کراچی جائیں، تو میرے لئے گلابی رنگ کا اسکول بیگ لائیں۔ ان کے منہ سے گلابی کا لفظ سن کر زینب کا گلابی ڈریس جس میں وہ بالکل میری بیٹی جیسی لگ رہی ہے، یاد آیا۔ یہ سب سن کر میری جو حالات ہوئی۔ وہ بیاں سے باہر ہے۔ مجبوری مگر یہ بھی ہے کہ آپ کھل کے رو بھی نہیں سکتے اپنے بچوں کے سامنے۔ رونے کی وجہ کیا بتائیں گے؟

حیرت ایک اور بھی ہے۔ شہباز شریف کے پنجاب پر حکمرانی کی یہ چوتھی دہائی چل رہی ہے۔ عوام کو ان کے لانگ بوٹس اور جمیز بونڈ ٹائپ کی ٹوپی کے علاوہ کسی اور خیر کی خبر تک ان چالیس سالوں میں نہیں ملی۔ پھر بھی ’’زندہ باد‘‘! ایک ایسے ہجوم کی جس کو اپنے بچوں کی لاشوں سے زیادہ حاکم وقت کے جوتوں اور ٹوپی میں دلچسپی ہو۔ کوئی کیسے ذہن سازی کرسکتا ہے۔ اس ہجوم کے سامنے کوئی عقل کی بات کرنا بھینس کے آگے بین بجانے کی مترادف ہے۔ یہ بین ایک عرصے سے بجائی جارہی ہے مگر بھینس بھینس ہے نا بھائی۔ اس کو کیا فرق پڑنے والا۔

اس سے بھی زیادہ حیرت ایک اور حرکت یا تماشے کی ہے۔ جس کسی کا ریپ ہو یا کوئی اندوہناک قتل کی واردت۔ ہمارے خادم اعلی وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ ندامت کا شائبہ تک چہرے پر موجود نہیں۔ جس گھر کا مستقبل اجڑ چکا ہوتا ہے وہ خاندان والے اس سے بھی زیادہ شقی القلبی کا مظاہرہ کررہے ہوتے ہیں ان کی آمد کو اپنے لئے باعث فخر یا پتا نہیں کیا سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ اپنی بچی کی ریپ کا واقعہ تک بھول جاتے ہیں۔ حاکم وقت جو کہ اصل مجرم ہے وہ آپ کے گھر پر آیا ہے اگر وہ واقعی میں انصاف فراہم کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے اور آپ کو بھی ان سے کوئی توقع ہے تو ان کا گریبان کیوں نہیں پکڑتے۔

یہ حاکم وقت بن کر فیشن زدہ ایک شخص آپ کے سامنے جو بیٹھا ہے یہ آپ کے خون پسینے کی کمائی سے ٹیکس کاٹ کر ملک اور ملک سے باہر عیاشیاں کررہا ہے۔ ان کے بچے 40 سے کم گاڑیوں کی ریوڑ کے ساتھ سفر کرنا اپنا توہیں سمجھتے ہیں۔ ان کی کارکردگی کیا ہے؟ وہ جب آپ کو انصاف فراہم کرنے کا وعدہ کررہا ہوتا ہے تو آپ ان سے یہ کیوں نہیں پوچھتے کہ اس سے پہلے آپ نے کس کو انصاف فراہم کیا ہے جو یہاں آکر میڈیا ٹیم کے ساتھ فوٹو سیشن کروا رہے ہو۔ آپ نے قصورکے چار سو بچوں کو کون سا انصاف فراہم کیا ہے جو میرے گھر اور میری پھول جیسی بچی کے لاش پر کھڑے ہو کر تصویریں کھینچوارہے ہو۔

ہے ہمت یہ سب پوچھنے کی۔ نہیں نا! آپ غلام ابن غلام ابن غلام ہو۔ آپ کی تربیت میں سوال کرنا شامل ہی نہیں۔ آپ کے ملکی خزانے کا ریپ ہوتا ہے آپ نے کبھی سوال پوچھنے کی جسارت نہیں کی۔ ریپ کرنے والا بندہ آپ ہی کے پیسوں سے لندن میں بیٹھ کر علاج کے نام پر عیاشیاں کررہا ہے۔ آپ کے تعلیمی نظام کا ریپ کیا جاتا ہے۔ رشوت لینے والے وزیر تعلیم کو ایک اور وزارت انعام میں دی جاتی ہے، آپ تماشا دیکھتے ہو۔ آپ کے بچے ہزاروں کے حساب سے روزانہ ہسپتالوں کے سامنے سہولیات کے فقدان کی وجہ سے مرجاتے ہیں۔ آپ کے حکمرانوں کے کتوں کا ملک سے باہر علاج آپ کے ٹیکس کے پیسوں سے ہوتا ہے۔ اس سے بڑھ کر کسی قوم کا ریپ اور کیا ہوسکتا ہے۔ ریپ کے لئے آپ کیسے آواز اٹھا سکتے ہیں؟ ریپ تو اب آپ کی تربیت میں شامل ہے۔ ایک بچاری زینب کا ریپ ہوا تو آپ کے لئے کونسی بڑی بات ہے۔ صرف چار دن آپ واویلا مچائیں گے۔ آپ کا میڈیا پانچ دن زینب کے ریپ کو ریٹنگ کے لئے استعمال کرے گا۔ پانچ دن بعد پورا ملک بھول جائے گا کہ کچھ ہوا تھا۔ یہ آپ سب کا بحیثیت مجموعی مزاج ہے کیونکہ آپ اس ریپ کے عادی ہیں۔ بحیثیت قوم آپ سب کا روزانہ کسی نہ کسی سطح پر ریپ ہورہا ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).