بہشت سے مظلوم زینب کا خط بنام بابا


بابا اچھا ہوا میں مرگئی۔ اگر زندہ بچ جاتی تو آپ زندہ مرجاتے۔ جب میں بڑی ہوتی تو لوگ آپ کو ذلیل نظروں سے اور مجھے حقارت بھری نظروں سے مار دیتے۔ میرے بھائی اس سماج میں کبھی سر اٹھا کر جی نہیں پاتے۔

میری ماں کو محلے کی عورتیں کہتی — ہائے تیری بیٹی کی عزت لوٹ لی۔ اب اس سے شادی کون کرے گا؟

اس بستی میں کوئی یہ سوچنے والا بھی نہیں کہ ایک ریپ کرنے والا ہی عزت لوٹنے والا کہلاتا ہے اور مقتول مجرم بن کر رہ جاتا ہے یہاں عزتیں شلوار کے اندر اور تقدس صرف قمیض کے پیچھے تصور کیا جاتا ہے۔

اچھا ہوا میں نہ رہی ورنہ ساری عمر مجھے قصور شہر کے باسی قصوروارسمجھتے۔ میرے ہی ضلع قصور میں بچوں کے ساتھ جنسی اسکینڈل سامنے آیا تھا ان کے ماں باپ بھی بےقصور تھے جن کو بلیک میل کیا جاتا رہا۔ میرے دنیا سے گزر جانے کے بعد بھی دو ریپ کیس رپورٹ ہوئے۔

میرے والدین کو مجھے بھائیوں کے سپرد چھوڑ جانے کے طعنے مارے جا رہے ہیں اور کوئی یہ خیال میں بھی سوچنے کی زحمت نہیں کررہا کہ مجھے اکیلا چھوڑ دینا قصور تھا یا مجھے تنہا دیکھ کر میری معصومیت کا فائدہ اپنی ابلتی جنسی بھوک مٹانے کا سوچنا اور میرے ساتھ زبردستی جنسی فعل ظلم تھا؟

مجھے مدرسے میں اپنے آپ کو ڈھانپنے کی تعلیم دی جاتی تھی مگر وحشیوں کی پیداوار کیسے روکنی ہے، اس پر کوئی درس نہیں دیا جاتا تھا۔ میں چوتھا کلمہ یاد کر رہی تھی بابا — میں چار گواہ کہاں سے لاتی؟

میرے اسکول میں جنسی آگہی پر قدغن تھی۔ مجھے یہ تک خبر نہ تھی کہ بیڈ ٹچ اور گڈ ٹچ کیا ہوتا ہے؟ بس میرے کندھوں پر بستے کا بوجھ تھا۔ اس میں کوئی کتاب مجھے سماج سے لڑنے، جنسی آگاہی اور خواتین کے مسائل پر سبق یاد نہ کروا سکی۔ میرا کندھا بس کتابوں کے بوجھ سے جھکے جا رہا تھا۔

پچپن سے یہی تعلیم سنتی آ رہی ہوں کہ ہر کام میں خدا کی مصلحت ہوتی ہے مگر میری موت پر مجھے کچھ دکھائی نہیں دیا کیوں کہ ہم اپنی خاموشی اور کمزوری کو خدا کی مصلحت کا نام دیتے آئے ہیں۔

اچھا ہوا بابا میری زندگی کا فیصلہ اس کچرے کے ڈھیر پر ہو گیا جہاں صدیوں سے یہ سماج پڑا تھا۔ سماج کے کچرے دان کی بدبو سب محسوس کرتے ہیں لیکن ایسے دل خراش واقعات کی روک تھام اور اس مرض کا علاج سماج کا کوئی ڈاکٹر کرنے کو تیار نہیں۔

ہر سانحے کے بعد صدائیں بلند کی جاتی ہیں مگر عملی اقدام کچھ نہیں ہوتا۔ میری موت پر بھی مرچ مسالہ بیچا جا رہا ہے۔ میڈیا خبریں چمکا رہا ہے۔ ایک ٹی وی چینل کی اینکر نے میری ہم عمر بچی گود میں بیٹھا کر ٹرانسمیشن شروع کر دی اور سیاستدان میری لاش پر پنجاب میں سیاست کررہے ہیں۔ میرے نام پر گولیاں بھی برسائی گئی۔

بابا اگر میں حیات ہوتی اور جوانی کی دہلیز پر میرا پاؤں ہوتا تو آپ ہی مجھے گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہ دیتے۔ میرے اوپر سماجی پابندیوں کی دیوار تعمیر کر دی جاتی۔ پاک وطن کے پاک مقدس رکھوالے میرے جسم کے نقوش پر الزام دھر دیتے، شہوت کے بھوکے یہ کہہ کر آزاد کر دیے جاتے کہ میں ننگے سر تھی— میری چمکتی زلفوں کو قصوروار ٹھہرایا جاتا، میری نرم و ملائم جلد کو وحشیوں کے گرد کٹہرے میں کھڑا کردیا جاتا اور میں چیخ چیخ کر اپنی بےگناہی کا ثبوت دے رہی ہوتی۔

لوگ مجھے پھول کہہ رہے ہیں۔ میرے رخساروں پر تتلیوں کو بیٹھنے کا حق حاصل تھا مگر مجھے ایک جانور نے دبوچ کر نوچ ڈالا۔ لڑکیاں اور مائیں نوحے پڑھ رہی ہیں کہ اگلے جنم مجھے بٹیا نا کیجئو، مگر کوئی یہ نہیں کہہ رہا کہ اگلے جنم کیا بلکہ اس جنم بھی مجھے ریپ کرنے والا بیٹا نا دیجیو !

میری ساتھ گزرنے والی بربریت سے بھی کچھ حاصل وصول نہیں ہونے والا۔ اب سب باپ اپنی بیٹیوں کے گرد گھٹن بڑھا دیں گے مگر آگاہی کی گھنٹی کوئی نہیں بجائے گا۔

میرے مرنے کے باوجود بوسیدہ جاہلانہ روایات نہیں گزریں، اب بھی لڑکی کو کھلی تجوری سے تشبیہ دی جائے گی، اب بھی اس کو ایک امانت تصور کیا جائے گا جس میں خیانت کا شک ہونے پر بھی اسے ہی زندہ درگور کیا جائے گا۔ اب بھی لات و منات کے بت سجائے جائیں گے۔ سہاگن رہنے میں ہی عافیت جیسے جملوں اچھالے جائیں گا۔

گھروں کے باہر مرد کی جوتی پڑی رہنے پر غرور کیا جائے گا مگر گھر میں عورت کے وجود پر شرمایا جائے گا۔ ہر اجنبی سے اپنی ماں بہن بیٹی کو چھپایا تو جائے گا مگر اپنے گھر آنے والوں کی مشکوک آنکھ پر اعتراض کی جرات نہیں ہو گی۔

مجھے خبر نہ تھی بابا کہ میرے دیس میں ہر روز اوسطاً گیارہ ریپ ہوتے ہیں۔ میں نے تو ہمیشہ سنا تھا ریپ صرف کافروں کے ملک کی ایجاد ہے۔ مجھے خبر نہ تھی کہ ایک دن میں بھی ریپ کی خبر بن کر رہ جاوں گی۔ کوئی مجھے حوا کہہ رہا ہے۔ کوئی مجھے بی بی زینب کے صدقے پکار رہا ہے اور میں ساتویں آسمان پر بیٹھی سوچ رہی ہوں کہ ابن مریم ہوا کرے  کوئی۔۔۔

اور ہاں بابا۔ میری ماں کو پوسٹ مارٹم رپورٹ نہیں پڑھنے دینا۔ میری ماں میرا حساب کس سماج سے مانگے گی؟ اُس سماج سے جہاں کتیا، گدھی اور اندھی ڈالفن بھی محفوظ نہیں؟ مجھے انصاف مل بھی گیا تو کتنی ایسی مردہ یا زندہ زینب ہیں جن کی داستانیں خبر نہیں بن پائیں گی۔ کتنی زینب ہوں گی جن کا لاشہ گمنام رہے گا۔

بابا میری موت کا باعث بننے والی سفاکیت تو پوسٹ مارٹم رپورٹ میں درج ہوگی مگر میرا احساس کسی رپورٹ میں درج نہیں ہو سکتا۔ وہ کونسا دلاسہ دے کر مجھے لے جا رہا تھا پھر کس طرح اُس گدھ نے آپکی فاختہ کو نوچنا شروع کیا ہوگا۔ آپ کی کلی کو تو آخر تک یہ علم ہی نا ہوسکا کہ اسکے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔

بابا، مجھے میرے گھر میں بھی بنیادی جنسی آگاہی فراہم نہیں کی گئی ۔ ورنہ شاید زیادہ نہیں تو خطرے کی گھنٹی سمجھ کر میں اس کی آنکھوں کی بھوک محسوس کر پاتی۔ اُس رات بہت ٹھنڈ تھی۔ میرا آدھا برہنہ جسم اوڑھنی مانگ رہا تھا مگر اُس وقت تک میری سانسیں تھک چکی تھیں۔ یہ بھی کہیں درج نہیں ہوگا کہ میری آخری چیخ کب نکلی ہوگی۔

بابا، آپ نے غصے اور جذبات میں آ کر مجھے انصاف ملنے تک دفنانے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ مجھے اپنے دفن ہونے کی جلدی نہیں تھی، مجھے فکر تھی کہ اردگرد بڑھتی ہوئی جنسی بھوک کا علاج کیسے کیا جائے ورنہ یہ عفریت ہر روز مجھ جیسی بچیوں اور بچوں کو اپنی لپیٹ میں لیتا رہے گا۔

میں اب کچھ سن اور دیکھ نہیں سکتی مگر اتنا جانتی ہوں کہ جب میرے والدین مجھے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں چھوڑ کر خدا کے گھر گئے تھے تو میں اس دیس میں پھیلی وحشت کے خطرے سے دوچار ہو گئی تھی۔

بابا، عزت میری نہیں لُٹی بلکہ اُس معاشرے کی عزت لُٹی جہاں بھیڑیے پالے جاتے ہیں۔ میں تو مار دی گئی۔۔۔۔ مگر بابا کسی مذہبی قانون کے تحت میرے خون کا سودا مت کیجئو۔۔۔۔ بھلے کوئی پیر، مولوی یا بااثر غنڈہ دباؤ ہی کیوں نہ ڈالے۔۔۔۔ یہ میری آخری التجا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).