چاہت، شادی کی یا روحانیت کی؟


عمران خان نے، کامران شاہد کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ تیس سال پہلے انہیں تو خدا پر بھی ایمان نہیں تھا، میاں بشیر صاحب انہیں روحانیت کی جانب لے کر آئے۔ بشریٰ بی بی سے صرف دو سال پہلے ملے، انہوں نے معرفت کا جو درجہ بشریٰ بی بی میں دیکھا وہ کسی اور میں نہیں دیکھا۔

1995 میں شادی کی پہلی چاہت ہوئی تو نظرِ انتخاب جمائمہ پر ٹھہری، جمائمہ نے اس چاہت میں مذہب، نام اور گھر بدل لیا۔ پھر سیاست کی چاہت میں عمران خان نے انہیں طلاق دے دی۔

جب آف شور کمپنی اور بنی گالہ کے گھر کا مسئلہ اٹھا تو سب جمائمہ پر واری صدقے جا رہے تھے تب دو سابقہ بیویوں کا تقابل کیا جا رہا تھا۔ ریحام خان کا جمائمہ سے، کہ دیکھو دونوں سابقہ بیویوں میں ایک یہودن، وفا، مروت اور اخلاص میں بازی لے گئی۔

یہ ریحام خان وہی ہے نہ جس سے شادی کی چاہت میں کپتان ایسے اتاؤ لے ہوئے، کہ آرمی پبلک اسکول کے سوگوار خاندانوں کے زخموں پر آپ نے شادی کی خوشیاں منا کر نمک چھڑک دیا، یوں کتنے ہی مداحوں کے دل بھی زخمی کر دیے، روحانیت کے متلاشی اپنی ذات سے کسی کو دکھ نہیں دیتے، روحانیت کی تعلیم دینے والی، بشریٰ بی بی لائقِ احترام ہیں، لیکن ان میں آخر ایسا کیا ہے کہ پانچ بچوں کی پاکباز، دیندار اور عمران خان کے بقول معرفت میں سب کو پیچھے چھوڑ دینے والی کو اس کے شوہر نے طلاق دے دی، معرفت میں سب کو پچھاڑ دینے والی بشریٰ بی بی کو طلاق کے پانچ ماہ بعد ہی کپتان نے پرو پوز کر دیا۔ عمران خان تیس سال سے روحانیت کی تلاش میں بڑی چاہت سے سر گرداں ہیں، مگر یہ متاع ان کے ہاتھ آتی دکھا ئی نہیں دیتی، اسی لئے کسی نے مشورہ دیا ہو گا کہ روحانیت کو’’ اپنے‘‘ گھر لاکر فیض اٹھا یا جا ئے۔

بابائے اردو، مولوی عبد الحق سمجھتے تھے کہ اردو کی ترقی و ترویج کے لیے وہ جو کام کر رہے ہیں، اس میں شادی بڑی رکاوٹ ڈالے گی انہیں ان کے مقصد سے دور کر دے گی، بڑوں نے گونتھ گانتھ شادی کی بھی تو پہلی ہی رات بھاگ کھڑے ہوئے۔ یہ سماج سے ایک بہت بڑی بغاوت تھی، لیکن ان کی شخصیت اور ان کا مقصد اتنا واضح تھا کہ آج تک کسی نے ان کی ذات اور ذندگی کے اس پہلو پر بحث نہیں کی، کپتان نے بھی جمائمہ کو چھوڑتے وقت انہیں خیالات کا اظہار کیا تھا کہ وہ اپنے مقصد پر فوکس کرنا چا ہتے ہیں، اس بی بی نے بھی کپتان کی بات کو دل سے نہ لگایا لیکن کہیں اور بھی زیادہ عرصہ دل نہ لگا۔

روحانیت حساسیت میں ہے، روحانیت سے فیض اٹھانے والوں کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کس خزانے سے فیض یاب ہو ئے ہیں مگر یہ خزانہ چاہت اور خواہش کرنے سے ہاتھ نہیں آتا۔ روحانی شخصیات میں ایسی مقناطیسیت ہوتی ہے کہ انسان ہو یا جانور خود بخود اس کی جانب کھنچا چلا آتا ہے، بہاؤالدین ذکریا ہوِ یا مست قلندر، بھٹائی ہوں یا سچل، خواجہ نظام الدین ہوں یا بلھے شاہ، مادام ٹریسا ہوں یا رابعہ بصری اور بہتیرے روحانی نام جن کا ذکر کرتے ہوئے بھی دماغ میں ایک چاشنی سی بھر جاتی ہے۔ روحانیت کسی مذہب کی میراث نہیں، اس کے ڈھول پیٹنے کی بھی ضرورت نہیں عشق کی آنچ میں اپنا آپ دھک کر کندن بن جاتا ہے۔

روحانیت ایک کیفیت ہے اس میں مبتلا من مارتا ہے، خواہش کا گلا گھوٹتا ہے، نفس کو اپنے قابو میں رکھتا ہے، دنیا کو معنی دے کر اسے بے معنی سمجھتا ہے، وہ اپنے من کی نہیں کرتا وہ، وہ کرتا ہے جس میں سب کی بھلائی ہو، اس کا دل شیشے کی طرح صاف ہو تا ہے۔

، روحانیت کا کوئی لبادہ نہیں ہو تا، کہ حسبِ ضرورت اوڑھ لیا، اور نہ ہی اس کا سبق پڑھا جا سکتا ہے، اولیاء اور صوفیاکرام کے قصے پڑھ کر بھی روحانیت سیکھی نہیں جا سکتی نہ تو یہ سنیاس لینے سے حاصل ہوتی ہے نہ ہجوم میں گھرے رہنے سے، خاموشی کی چادر تاننے سے روحانیت کا پتہ چلتا ہے، نہ بک بک کرنے سے۔ سارا جہاں صرف اس کی ہوں ہاں سے فیض اٹھایا کرتا ہے۔ یہ تو بنا طلب کے عطا ہوتی ہے، انہیں جن کا خمیر محبت سے گندھا ہو، جو بدلہ لینا جانتے ہوں نہ شکوہ کرنا جوانسان پر کامل یقین رکھتے ہوں، جن کے نزدیک انسان سب سے بڑا حق ہے، انسان سے محبت ہی عبادت ہے اور اس سے عشق علم ہے، انسان سے پیار ترقی کا ضامن ہے، اور اس کا خیال رکھنے سے خوش حالی نصیب ہوتی ہے، اس کی بھلائی میں خوشی ہے، اس کے احساس میں سکون ہے، اس کے ساتھ رونے میں امن اور ساتھ ہنسنے میں طما نیت ہے، اور اس کے ساتھ ٹھہرنے میں نشانِ راہ ہے اور ساتھ چلنے میں منزل ہے۔
جسے انسان سے محبت، چاہت اور اس کی عزت میں فرق نہیں معلوم وہ روحانیت کا پاسنگ بھی نہیں پا سکتا، شادی کے لیے چاہت کا اظہار کیا جا سکتا ہے مگر روحانیت سے شادی رچائی نہیں جا سکتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).