میں اب تک زینب کی بات کیوں نہ کر سکا


یہ روٹین جیسے تیسے بنا لی ہے کہ سارا دن انٹرنیٹ سے دور رہنا ہے، ضروری کام کرنے ہیں، اصل انسانوں سے ملنا ہے اور شام کو مارے باندھے سوشل میڈیا کے معاملات نمٹانے ہیں۔ پرسوں شام گھر واپس آیا تو زینب کی خبر چاروں طرف موجود تھی۔ کیا انٹرنیٹ، کیا ٹی وی، کیا ایف ایم، ہر وہ میڈیا جس پہ کوئی بات ہو سکتی تھی وہاں ہر بات زینب کی بات تھی۔ یہ نام بہت مقدس ہے۔ یہ نام بہت بڑا نام ہے۔ اپنی بیٹی کا نام جب آئلہ زینب رکھا تو اسے بلانے کے لیے ہمیشہ آئلہ ہی کہا، زینب، مجھ سے کم ہی کہا گیا۔ میں اس پہ غصہ نہیں کر سکتا، غصے میں پکارنے لگتا ہوں تو اس کا پورا نام میرے سامنے آ جاتا ہے۔ کل سے میں کچھ بھی لکھ نہیں پا رہا۔ اس وقت بھی لکھتے ہوئے ہاتھوں پہ مسلسل پسینہ آ رہا ہے۔ زینب… یہ لفظ لکھتا ہوں اور قصور کی سات سالہ زینب کی تصویر آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہے۔ دس ہزار لفظ بھی اگر لکھ دئیے جائیں تو زینب کی ایک تصویر ان پہ بھاری پڑ جاتی ہے۔ میں اس تصویر کی ڈیٹیل میں نہیں جا سکتا۔ مجھے اتنا معلوم ہے کہ جب بھی میں اسے دیکھتا ہوں تو مجھے اپنی بیٹی یاد آ جاتی ہے۔ میں جب بھی میڈیا میں اس نام کو اچھلتا دیکھتا ہوں تو میری روح کانپ جاتی ہے۔ ڈاکٹر عفت میری کولیگ رہ چکی ہیں۔ وہ صحت کہانی کے نام سے خواتین کی مدد کا ایک ادارہ چلاتی ہیں۔ ان کی بیٹی کا نام بھی زینب ہے۔ کل انہوں نے بھی یہی بات پوسٹ کی۔ ”ایک زینب کی ماں ہونے کی وجہ سے مجھ پہ اس بات کا اثر بہت زیادہ ہوا ہے‘‘۔ سوال یہ ہے کہ جن کی بیٹیوں کا نام زینب نہیں ہے کیا وہ اس المناک واقعے کی گرفت میں نہیں ہیں؟ وہ سب ہیں لیکن ان سے شاید ایک یا دو فیصد زیادہ وہ تمام والدین محسوس کر رہے ہیں جن کے گھروں میں آنکھوں کے سامنے زینب چلتی پھرتی موجود ہے۔

قصور میں دو سو سے زائد بچوں کا ویڈیو سکینڈل سامنے آیا، وقت کی گرد اس پہ چھا گئی، کوئی قابل ذکر فیصلہ اب تک نظر نہیں آیا۔ معصوم بچی سے زیادتی اور قتل کے اس واقعے سے پہلے قصور شہر میں ہی دس گیارہ واقعات اسی نوعیت کے ہو چکے ہیں۔ ملزم تاحال پکڑے نہیں جا سکے تھے، اب پورا امکان ہے کہ پکڑے جائیں گے۔ ایسا کیوں ہوا ہے؟ کیا اس سے پہلے مارے جانے والے بچے کم معصوم تھے یا ان کے ساتھ ہونے والے واقعات کم تکلیف دہ تھے؟ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ہم لوگ تقریباً بے حس ہو چکے ہیں۔ جس نے بھی زینب کی بات کرنی ہے اس نے یہ رونا ضرور رونا ہے کہ حکومت کہاں تھی، پولیس کہاں تھی، بچوں کے تحفظ کی این جی اوز کہاں تھیں، کوئی اور ادارہ اگر ذمہ دار ہے تو وہ کہاں تھا، سوال یہ ہے کہ ہم کہاں ہیں؟ جو لوگ اس وقت یہ تحریر پڑھ رہے ہیں‘ ان میں سے کتنے ہیں جو یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ تمام عمر کسی نے انہیں بری نیت سے نہیں دیکھا؟ اوکے، جنہیں ایسا کوئی تجربہ نہیں ہوا وہ ایک منٹ رکیں، جنہیں ہو چکا ہے، جنہیں احساس ہے کہ ہیریسمینٹ کیا ہوتی ہے، کیا انہوں نے اپنے بچوں کو کبھی بٹھا کے اعتماد میں لیا کہ بیٹا اگر کوئی بھی تم سے بہت زیادہ جسمانی شفقت کا اظہار کرے تو فوراً ہمیں بتاؤ؟ کوئی بات بات پہ تمہارے گال کھینچے، تمہیں گود میں بٹھانا چاہے، تم پہ مہربان رہے، تمہیں ایکسٹراآرڈنری فیور دے تو گھر آ کے ضرور ڈسکس کرو؟ کسی کا دیکھنا بھی اگر تمہیں غیر محفوظ ہونے کا احساس دلائے تو اسی وقت گھر میں کسی بڑے کو بتاؤ؟ سکول میں مخالف یا سیم سیکس کا دوسرا کوئی بچہ تمہیں کسی بہانے سے چھونا چاہے تو ٹیچر کو بتاؤ۔ کوئی بھی حرکت، جسم پہ کہیں بھی ایسے چھونا جس سے بچہ ان ایزی محسوس کرے، وہ عجیب سی گھٹن کا شکار ہو جائے، وہ سب جنسی ہیریسمینٹ کے زمرے میں آتا ہے۔ تو کتنے ایسے لوگ ہیں جن کے بچوں کو یہ اعتماد ہے کہ اگر وہ گھر میں ایسی بات کریں گے تو انہیں دبایا نہیں جائے گا، انہیں عجیب نظروں سے نہیں دیکھا جائے گا یا ماں باپ ان سے اوپنلی سب کچھ سن لیں گے، انہیں مشورہ دے دیں گے؟

کیا ہم میں سے کوئی اپنے بچوں کو کھل کر یہ سمجھا سکتا ہے کہ بیٹا کسی کے بھی غیر ضروری طور پر ہاتھ لگانے کا مطلب ٹھیک نہیں ہوتا، ایسا کچھ بھی ہو، کہیں بھی ہو، تم نے وہاں سے بھاگ جانا ہے اور فوراً ہمیں آ کے بتانا ہے؟ ایسا بہت مشکل ہے؟ اگر ایک ماں یا ایک باپ اپنے بچوں کو اتنا اعتماد نہیں دے گا تو بچے جائیں گے کدھر؟ اور یہ تو ابتدائی صورت حال ہے، اگر بالفرض بچہ کسی بڑی مصیبت میں پھنس جاتا ہے، اس کی ویڈیو بن جاتی ہے، تصویریں بن جاتی ہیں یا کوئی خود ہی موبائل پہ الٹی سیدھی ذاتی تصویریں بھیج کے خود کو بلیک میلنگ کے جال میں پھنسا لیتا ہے تو اس کا انجام کیا ہو گا؟ دنیا بھر میں بلیک میلنگ کا شکار ہونے والوں کو سب سے پہلا خوف اپنی امیڈئیٹ فیملی کا ہوتا ہے، اپنی ماں کا، باپ کا، بہن بھائیوں کا… اگر وہ سب اتنے سمجھدار ہوں کہ یہ سوچ سکیں کہ معافی ملنے کا یقین رکھتا ہو، تو ہی بچہ ان سے بات کرے گا‘ ورنہ ساری عمر پھنسا رہے گا، یا گھر سے بھاگ کے ایسے ہی کسی گروہ کا شکار ہو جائے گا یا خود الجھے گا تو خدا نہ کرے مارا جائے گا یا پھر حتمی نتیجہ متاثرہ بچے کی خود کشی کا نکلے گا۔

اس کا حل بہت سادہ ہے۔ تھوڑی جرأت پیدا کرنی ہو گی۔ دادی دادا، نانی نانا، ماں باپ اور جتنے بچے گھر میں موجود ہیں انہیں بٹھا کے ان کے ساتھ ایک مشترکہ سٹنگ کی جائے۔ انہیں بہت سوفٹ انداز میں بتایا جائے کہ بیٹا یہ تمہاری فیملی ہے، یہ لوگ تمہارے اعتبار کے ہیں، تم ایسی کسی بھی صورت حال کا شکار ہو جاؤ تو عمر کے کسی بھی حصے میں ان سے مدد مانگ لینا، یہ بغیر تمہیں جج کیے، بغیر تمہیں قصور وار ٹھہرائے، بغیر تمہاری ذات میں کیڑے نکالے، تمہیں مدد دیں گے، تمہارے ساتھ کھڑے ہوں گے، تمہاری حفاظت کریں گے۔ ڈیجیٹل دنیا کے اس دور میں اپنے روایتی تصورات ہمیں تھوڑے بہت بدلنا ہوں گے۔ جسم کے بارے میں بات کرنا پہلے ٹیبو تھی، ممنوع تھی، بعض گھروں میں اب بھی ہے، نتیجہ یہ ہے کہ ہریسمینٹ پہ گفتگو کرنا تو بہت دور کی بات بچے اپنی بنیادی جسمانی صفائی تک کے اصول نہیں جان پاتے۔ دوستوں سے چھپ کے بات کرتے ہیں یا کمپیوٹر پہ ڈھونڈتے ہیں۔ اب، جبکہ پوری دنیا کا اچھا اور برا علم ایک بٹن کی نوک پہ ہے، کم از کم جسم سے متعلق اچھائی اور برائی کے بنیادی اصول بچوں کو خود بتانا ہوں گے۔ ہیریسمینٹ کیا ہوتی ہے وہ بتانا ہو گا۔ اچھا ساری بات ایک طرف کر دیں، کیا صرف یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ بیٹا، کسی کی کوئی بھی حرکت جس سے تم ان ایزی محسوس کرو، تمہیں بے چینی ہو، تم نے فوراً ہمیں بتانا ہے؟ اتنا کہنا بھی بچوں کو ٹھیک ٹھاک اعتماد بخش سکتا ہے۔

آخری بات یہ کہ حادثہ ان تمام احتیاطوں کے باوجود کبھی بھی ہو سکتا ہے۔ وہ ہماری سوچ کے دائرے سے باہر ہے۔ احتیاط کر لی جائے تو اس کے امکانات کم ہو سکتے ہیں لیکن ختم بہرحال نہیں ہو سکتے۔ امکانات ختم کرنا ایک طویل بحث ہے جس کی تان وہاں ٹوٹتی ہے جہاں پر جلتے ہیں۔ ایک دو ماہ بعد زینب امین کا واقعہ لوگوں کی یادداشت سے نکل سکتا ہے۔ یہ المیہ قومی سطح پہ یاد رکھا جائے تو اس سے متعلق بحث زندہ رہے گی، بچوں کو اعتماد دینے کے امکانات پہ بات ہوتی رہے گی۔ اگر اس موقع پہ حکومت بچوں سے زیادتی کے قانون میں کوئی تبدیلی کرتی ہے یا سکولوں میں بچاؤ کی بنیادی تعلیم دینے کی نیت کرتی ہے تو گزارش ہے کہ اسے ”زینب مہم‘‘ ”سیو زینب پروگرام‘‘ ”زینب امین بِل‘‘ یا کسی بھی ایسے نام سے موسوم کر دے۔ یہ دلخراش حادثہ لوگوں کے ذہنوں میں رہے گا تو شاید کل کوئی دوسری زینب بچائی جا سکے۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain