خواہش اور قسمت


فرض کریں آپ کا تعلق اس طبقہ اشرافیہ سے ہے جو جمہوریت کو اس معاشرے کی سب سے بڑی علت سمجھتا ہے۔ جس کے خیال میں سیاستدان سارے کے سارے ہی کرپٹ ہیں۔ سیاست مال بنانے کا ایک آزمودہ نسخہ ہے ۔ یہ حکومتوں میں آ کر پہلے اپنے الیکشن کے خرچے پورے کرتے ہیں پھر رشتہ داروں کو بھرتی کرتے ہیں پھر جی بھر کر ملکی خزانہ لوٹتے ہیں۔ یہ جاہل اجڈ اور گنوار ہیں۔ نہ انکو انگریزی بولنی آتی ہے ، نہ دو جملے لکھ سکتے ہیں ، نہ سوٹ کے ساتھ میچنگ ٹائی کا انتخاب درست کر سکتے ہیں، نہ چھری کانٹے سے کھانا کھانے کے آداب انہیں آتے ہیں، نہ انکی صفوں میں کوئی تنظیم ہے، نہ انکو ٹائم مینجمنٹ کی کوئی سمجھ ہے، نہ جسمانی تربیت اور کھیل کے لئے انکے پاس کوئی وقت مختص ہے، نہ ان کا کوئی یونیفارم ہے، کھانے کی کوئی تمیز ہے نہ پہننے کا کوئی سلیقہ ۔ یہ سیاستدان اس معاشرے کا سب سے بڑا ناسور ہیں۔ جمہوریت کا نعرہ کمتر لوگوں کی نشانی ہے، ووٹ کا تقدس بزدلی کی علامت ہے، اداروں کا احترام جاہلوں کی باتیں ہیں، عوام کے حق حاکمیت کا بیان دراصل مجذوب کی بڑ ہے۔ جمہوریت اس ملک میں ہونے والا سب سے بڑا فراڈ ہے۔ یہ جو عوام ہیں یہ جاہلوں کا ایک ہجوم ہے۔ نہ تعلیم نہ ہنر نہ تمیز نہ طریقہ نہ نظم نہ ضبط۔ اجڈ لوگوں کے اس گروہ سے اچھائی کی کیا توقع ہو سکتی ہے۔ جو لوگ بریانی کی ایک پلیٹ یا قیمے والے ایک نان پر ووٹ دے دیتے ہیں انہوں نے ملک کی تقدیر کیا بدلنی ہے؟ فیصلہ کن کردار کیا ادا کرنا ہے؟حکمران کون ہو گا اس کا کیا فیصلہ کرنا ہے؟فرض کریں آپ کا تعلق اسی طبقہ اشرافیہ سے ہے جو سمجھتا ہے نواز شریف تو بس اتفاق اسٹیل مل کی پیدوار ہے۔ امریکی صدر کے سامنے پرچیاں لے کر پڑ ھنے والا نااہل وزیر اعظم ہے۔ اتفاق سے لاٹری نکل گئی ہے اب جمہوریت کے نام پر انہوں نے لوگوں کو بے وقوف بنایا ہوا ہے۔اسکو نہ گورننس کی کوئی سمجھ ہے نہ معاشیات کا کوئی علم ہے۔ نہ خارجہ پالیسی انکی سمجھ میں آتی ہے نہ تجارتی معاہدوں کا انکا کوئی دماغ ہے۔یہ نااہل ، ناکارہ اور نکھٹو لوگ ہیں ۔ انکو حکومتوں میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔ ان کو اس ملک کی نمائندگی کا کوئی حق نہیں۔ ان کو حکومت کے فیصلے کرنے کا کوئی حق نہیں۔ ان کو اس نظام سے نکال دینا ہی عقلمندی ہے ، اسی میںملک کی بقاہے ، اسی میں اس ملک کی سلامتی ہے۔

فرض کریں آپ کا تعلق اس طبقہ اشرافیہ سے ہے جو کہتے ہیں پاناما کیس میں جو ہوا صحیح ہوا۔ پانچ ججوں نے جو فیصلہ کیا بہت سوچ سمجھ کر کیا ہے۔ ثبوت اگر نہیںملے تو کیا ؟نواز شریف سے چھٹکارا تو نصیب ہوا۔ کسی طرح یہ بلا تو سر سے ٹلی۔ شہباز شریف بہتر آدمی ہے۔ معاملات کو خوب سمجھتا ہے۔ اداروں کا دل سے احترام کرتا ہے۔ مصالحت کی بات کرتا ہے۔ جلدی جلدی کام کرتا ہے۔ کارکن آدمی ہے۔ مریم نواز تو بس باپ کے کہے پر چلتی ہے۔ جو باپ کہتا ہے اس سے دوہاتھ بڑھ کر بات کرتی ہے۔ ڈان لیکس بھی انہی باپ بیٹی نے کروایا تھا۔ مودی بھی ان سے ملنے انکے گھر آتا ہے ۔ متل کے ساتھ اسٹیل کے کاروبار کی سیٹنگ ہو چکی ہے۔اربوںڈالر ملک سے باہر منتقل ہو چکے ہیں۔ اسحاق ڈار نے سارا دبئی خرید لیا ہے۔ علی ڈار نے سوئس بینک بھر دیئے ہیں۔ خاقان عباسی ایک کٹھ پتلی ہیں۔ سب ملک کر اس ملک کو کھا رہے ہیں۔ ملک کو سنوارنے والوںکو یہ سب آنکھیںد کھا رہے ہیں۔

فرض کریں آپ کا تعلق اس طبقہ اشرافیہ سے ہے جویہ سمجھتے ہیں عمران خان کو جو مرضی کہیں وہ کرپٹ نہیں ہے۔ خیبر پختون خوادیکھیں کتنا بدل گیا ہے۔ چاروں جانب ایک ارب درخت لہلہا رہے ہیں۔ ماحولیات پر کام ہو رہا ہے۔ ڈیم بن رہے ہیں۔ بجلی دساور میں برآمد ہو رہی ہے۔ کے پی میں کشکول ٹوٹ گیا ہے۔ دودھ اور شہد کی نہریں بس اب رواں ہونے ہی والی ہیں۔ ہر فرد باروزگار ہو چکا ہے۔ خواتین کے پی کی صوبائی معیشت میں ایک فعال کردار ادا کر رہی ہیں۔ غربت ختم ہو گئی ہے۔ خط ناداری مٹ چکا ہے۔ اقلیتوں کو حقوق تقسیم ہو چکے ہیں۔ احتساب کا نابغہ روزگار نظام تشکیل ہو چکا ہے۔ زراعت ترقی پاچکی ہے۔ صنعت و حرفت میں بین الاقوامی منزل پائی جا چکی ہے۔ مزید یہ کہ خان باہر کی یونیورسٹیوں میں پڑھا ہوا ہے۔ انگریزی ٹھسے سے بولتا ہے۔ملکہ برطانیہ سے کئی ملاقاتیں کر چکا ہے۔ اچھائیاں ، برائیاں تو سب میں ہوتی ہیں۔ لیکن بندہ اچھا ہے۔دو، دو گھنٹے ایکسرسائز کرتا ہے۔ خواتین اب بھی اس پر مرتی ہیں۔ ہر قسم کے شکار کا شوقین ہے۔ بندوق چلانا جانتا ہے۔ کینسر اسپتال بھی بنا چکا ہے۔ نوجوان اس کو پسند کرتے ہیں۔ اسکے چاہنے والے اجڈ ، گنوار اور جاہل نہیں ہیں۔ یہ ماڈرن لوگوں کو متوجہ کرتا ہے۔ اس کے جلسے میں رونق لگی ہوتی ہے۔ سچ بولتا ہے۔رابطے رکھنا جانتا ہے۔ اس کے اردگرد بہترین لوگوں کا ہجوم ہے اور سب سے بڑھ کر بات ہے کہ یہ شخص ایمپائر کی انگلی کے اشارے کو مانتاہے۔کہاں چلنا ہے کہاں رک جانا ہے سب جانتا ہے۔

فرض کریں آپ کا تعلق اس طبقہ اشرافیہ سے ہے جو مندرجہ بالا سب باتوں پر کامل یقین رکھتا ہے۔ تو اس وقت آپ کا مایوسی سے برا حال ہوگا ۔ انجانے خوف آپ کے دل میں پل رہے ہوں گے۔ کچھ ہوجانے کا خدشہ دل میں مسلسل وسوسے ڈال رہا ہو گا۔ آپ اس بات پر افسردہ ہوں گے کہ جمہوریت کے اتنے مضمرات عوام کے سامنے رکھنے کے باوجود لوگ پھر جمہوریت کا قصہ لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ آپ کو دکھ ہوتا ہو گا کہ اجڈ جاہل اور گنوار لوگ پھر حق حاکمیت ، ووٹ کا تقدس ، عوام کی عدالت جیسے فروعی موضوعات پر بات کر رہے ہوں گے۔ آپ کا دل رنج سے بھر جاتا ہو گا کہ جب پاناما کیس میں اقامہ ثابت ہونے کے باوجود نواز شریف کے ساتھ جی ٹی روڈ پر جینے مرنے کے عہد وپیمان کرنے والوں کی کمی نہیں ہو رہی ہوگی۔ آپ کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑتے ہوں گے جب ہر ضمنی انتخاب مسلم لیگ ن جیت جاتی ہو گی۔ آپ کو صدمہ ہوتا ہو گا جب عمران خان کے صوبے میں کرپشن کے کیس نکلتے ہوں گے۔ آپ شاید رو پڑتے ہوں گے جب کے پی کی گورننس پر سوال اٹھتے ہوں گے۔ آپ کو برا لگتا ہوگا جب شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ اصل وزیر اعظم اب بھی نواز شریف ہیں۔ پاپولیرٹی کے گراف جب نواز شریف کے حق میں بلند ہوتے ہوں گے تو پھر آپ خوف زدہ بھی ہو جاتے ہوں گے ۔ ایسے میں آپ کو 2018 کے انتخابات سے خوف آنے لگتا ہوگا۔ عوام کے متوقع فیصلے سے دل سہم جاتا ہوگا۔ نواز شریف کے حکومت میں دوبارہ آنے کے خیال سے سینہ جل کر سیاہ ہو جاتا ہوگا۔

فرض کریں آپ کا تعلق اس طبقہ اشرافیہ سے ہے جنہیں 2018 کے انتخابات کے نتائج سامنے نظر آ رہے ہوں گے تو پھر آپ اس ملک کے اجڈ ، گنوار اور جاہل عوام سے مایوس ہو کر آپ کیا کریںگے؟ کون سے سہارے کی تلاش کریں گے؟ کون سے در پر دستک دیں گے؟اگر آپ کا تعلق اس طبقہ اشرافیہ سے ہے تو آپ اپنی پہلی کوشش میں الیکشن میں رخنے ڈالیں گے اور الیکشن ہونے ہی نہیں دیں گے۔ عوام کے فیصلے کو تعطل کا شکار کریں گے۔ نواز شریف اور جمہوریت سے اس ملک کو بچانے کے لئے جو ممکن ہو گا وہی کریں گے۔ چاہے اس کے لئے رینٹ اے انقلاب والے طاہر القادری کی مدد لینی پڑے ، چاہے اس کے لئے بلوچستان اسمبلی توڑنی پڑ جائے، چاہے اس کے لئے قیمتوں کا بحران پیدا کرنا پڑ جائے، چاہے اس کے لئے مذہبی منافرت اور فرقہ بندیوں کا سہارا لینا پڑ جائے، چاہے معصوم زینب کی لاش پر ناکام اور مردار کھانے والے سیاسی گدھوں کا تماشا ہی کیوں نہ کرنا پڑ جائے ، آپ الیکشن نہیں ہونے دیں گے اور بد قسمتی سے یہی سب کچھ ہو رہا ہے۔

فرض کریں آپ کا تعلق اس طبقہ اشرافیہ سے نہیں ہے تو پھر آپ جو مرضی چاہیں وہ نہیں ہوگا ۔ نہ ووٹ کی اہمیت ہو گی نہ جمہوریت کا ٹنٹا ہوگا۔ نہ عوام کی کوئی اہمیت ہو گی نہ الیکشن کا کوئی ذکر کرے گا۔ یہی اس ارض پاک کی اشرافیہ کی خواہش ہے اور یہی اس دھرتی کے عوام کی قسمت ہے۔

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar