بحث کا فقدان


ہونی ہوکے رہی۔ ٹرمپ انتظامیہ نے وہی راہ اختیار کی ہے جس کی واشنگٹن میں ہر کوئی اور ہمارے ہاں چند ایک نشاندہی کررہے تھے ۔ چنانچہ پاکستان اور امریکہ کے سیکورٹی تعلقات میں یک لخت گراوٹ میں حیرانی کا کوئی عنصرشامل نہیں۔ صدر ٹرمپ کی ناپسندیدہ ٹویٹ اور فوجی اور دفاعی امداد کی معطلی اعتماد کے طویل بحران کا نقطہ ٔ عروج ،اور دوطرفہ سفارت کاری کی ناکامی ہے ۔ یہ ناکامی شاید انڈیا اور امریکہ کے بڑھتے ہوئے تعلقات کا نتیجہ ہے ۔ہوسکتا ہے کہ یہ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کو عالمی دہشت گردی کے ساتھ جوڑنے کی وسیع تر سازش کا ایک حصہ ہو۔ا ور اسے یہاں سے اس مقام تک لے جانا مقصود ہو جہاں پاکستان کو ایٹمی ہتھیاروں سے محروم کرنے کا کیس بنایا جائے۔ شاید پاکستان چین کے کیمپ میں آنے کی قیمت چکا رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسے واشنگٹن کے غصے کا سامنا ہے جس پر نئی دہلی تیل چھڑک رہا ہے ، جاپان حمایت کررہا ہے اوربرطانیہ خاموشی ، لیکن نہایت موثر طریقے سے اسے کندھا دے رہا ہے ۔

لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ اسے کس انداز سے دیکھتے ہیں۔۔ ۔ ایک سازش، ناکام سفارت کاری ،ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف منصوبہ ، ایشیائی بحرالکاہل کے خطے میں وسیع تر ہنگامہ خیز سیاسی جغرافیائی حرکیات کا ردعمل ۔ ۔۔ لیکن حرف ِ آخر یہ ہے کہ ایسا ہوچکا ۔پاکستان کو ایک سپرپاور،امریکہ، ایک علاقائی طاقت، انڈیا اور انتہائی اہم ہمسائے ، افغانستان کی طرف سے غیر معمولی طور پر پریشان کن صورت ِحال کا سامنا ہے ۔ ان سب کے ترکش ہماری جانب اٹھے ہوئے ہیں۔

ان حالات میں ایک سنجیدہ، فکر انگیز اور غیر جذباتی بحث کا آغاز ہونا چاہیے تھا۔ خوش فہمی کی کوئی گنجائش نہیں بچی۔ کوئی ملک بھی اس طرح گھیرے میں آنا پسند نہیں کرتا۔ یہ کوئی مذاق نہیں۔ سنگین معاملات ہمارے دامن گیر ہیں۔ لیکن ذرا دیکھیں ، ہم اس چیلنج کے ہوتے ہوئے کس طرح کی بحث میں الجھے ہوئے ہیں۔ عوامی اور سیاسی بیانیہ بیک وقت مزاحیہ اورسطحی، اور افسوس ناک اور الجھائو دار ہے ۔سچ پوچھیں تو اس سے زیادہ کھوکھلا پن شاید ہی کہیں دکھائی دے۔ ہم نے ابھی تک بنیادی نکتے کی طرف نظر اٹھاکر بھی نہیں دیکھا کہ واشنگٹن سے تعلقات ختم ہونے کے بعد ہم یہاں سے کہاں جائیں گے؟

اس میں بہت سے ’’اگر، مگر‘‘ ہوسکتے ہیں۔ اگر واشنگٹن پاکستان کے اندر تیزرفتاری سے کوئی کارروائی کرگزرا تو کیا ہوگا؟ سرحدی علاقوں کے رپورٹرز ڈرون پروازوں میں بے حد اضافے کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔ ان کا ارتکاز زیریں اور بالائی کرم ایجنسی ، اورکزئی، شمالی وزیرستان اور ہنگو ضلع کے شہری علاقوں کی طرف ہے ۔ دو یا تین کی ٹکڑیوں میں ڈرون طیارے دن میں تین یا چار مرتبہ اڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ رپورٹرز گزشتہ ایک ماہ کے دوران کئی سو پروازوں کی اطلاع دیتے ہیں ، اور یہ وہ رپورٹس ہیں جو اُن کا اپنا مشاہدہ ہے ۔جس سرحدی علاقے میں مبینہ طور پرحقانی موجود ہیں، وہ بھی ڈرون حملوں کا نشانہ ہے ۔ پاکستانی افسران کا اصرار ہے کہ یہ تمام حملے افغانستان میں ہوئے ہیں۔ مقامی افراد کا مشاہدہ اس سے مختلف ہے۔

لیکن یہ برسبیل تذکرہ ہے ۔ اگر ٹرمپ اپنے سینے پر کوئی تمغہ سجانا چاہتے ہیں۔ اور وہ اس مقصد کے لئے پاکستان کو شرمندہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں تو پاکستان کو اطلاع دئیے بغیر جو چاہیں گے کر گزریں گے ۔ بالکل جس طرح اسامہ بن لادن کو مارنے کے لئے آپریشن کیا گیاتھا۔ وہ آپریشن اوباما کا تھا۔ ٹرمپ بھی اسی قسم کا کوئی ڈرامائی اور چونکا دینے والا کام کرنا چاہیں گے ۔ اس صورت میں ہم کیا کریں گے؟ اس پر ہمارے ہاں کوئی بحث نہیں ہورہی۔

اور اس پر تو بالکل کوئی بحث دکھائی نہیں دیتی کہ ہم اس نہج تک کس طرح پہنچے کہ آج ہم اپنی پوزیشن واضح کرنے کے لئے دنیا کے اہم دارالحکومتوں کی طرف بھاگے پھر رہے ہیں، اپنے دوستوں کو مخاطب کرنے کی کوشش میں ہیں، اُن سے مداخلت کے متمنی ہیں کہ کوئی ہمیں واشنگٹن کے ناگہانی عتاب سے بچا لے ؟لفظ ’’ناگہانی‘‘ شاید یہاں درست نہ ہو۔ ہمارے سامنے بہت سی وارننگز موجود تھیں، بہت سے شواہد دکھائی دیتے تھے کہ یہ مصیبت ہماری جانب بڑھ رہی ہے ۔ تو ہم نے بے مقصد کھیل بند کیوں نہ کیے ؟ہم نے سیاسی انجینئرنگ کا شغل کیوں جاری رکھا ؟ اپنا ماحول اتنا مکدر کیوں کرلیا ؟مزید برآں، ہمارے پاس پورا ایک سال (بلکہ بن لادن آپریشن کے بعد کئی سال ) تھا کہ ہم اس دن کی تیاری کرلیتے جب واشنگٹن نے ہماری طرف براہ ِراست انگلی اٹھا کر دھمکی دینی تھی۔ جس طرح آج ٹرمپ کھلی دھمکی دے رہے ہیں۔ کیا بن لادن آپریشن کے بعدکسی پیش بندی کی ضرورت نہیں تھی ؟

ہمارے وسیع و عریض سیکورٹی، فارن اور سفارتی ڈھانچے کا مقصد یہ تھا کہ ایسی خطرناک سفارتی صورت ِحال میں الجھنے سے بچا جائے، یا اس سے نکلنے کا کوئی قابل ِعمل راستہ تلاش کیا جائے ۔ ہم سفارت کاری کے فن پر بیش بہا لیکچر سنتے ہیں۔ یہ بتاتے بتاتے ہمارا گلا رندھ جاتا ہے کہ ہم نے پاکستان کو بحرانوں کے گرداب سے نکالنے کا کتنا عظیم کارنامہ سرانجام دیا ہے ۔ پھر یہ بحران منہ پھاڑ کر ہمارے سامنے کیوں کھڑا ہوگیا ؟ عقل کیا کہتی ہے ؟ ہمارے دفتر خارجہ اور سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کے خود کو بقراط سمجھنے اور بے دریغ ریاستی وسائل استعمال کرنے والے افسران کہاں تھے ؟واشنگٹن کے جارحانہ اقدامات کی پیش بندی کے لئے لکھا جانے والا پالیسی پیر کہاںہے ؟ نہیں، ہمارے ہاں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اس کی بجائے تمام نظام یکے بعد دیگر ے اسٹیج ہونے والے سیاسی ڈراموں کی وجہ سے مفلوج رہا۔ ہم نے شاید سوچ رکھا تھا کہ باقی دنیا کا کوئی وجود ہی نہیں۔ حتیٰ کہ اب بھی بلوچستان میں کھیل جاری ہے ۔ جہاں تک دفتر ِخارجہ کا تعلق تو وہ مسلسل جمود کا شکار ہے ۔ اس کااختیار ایک ایسے سینئر کے ہاتھ میں ہے جو چاہتا ہے کہ غیر متاثر کن کیرئیر کے اختتام پر اس کے ہاتھ کوئی ہما لگ جائے۔ ریٹائرہونے کے بعد وہ بھی پاکستان میں حکومت کرنے کے فن پر لیکچر دے کر آنے والی نسل کی فکری آبیاری کریں۔

اس غفلت، سستی، ترجیحات کی عدم موجودگی اور پیش بینی کی صلاحیت کے ناپید ہونے کے بعد موجودہ صورت ِحال نوشتہ ٔ دیوار تھی۔ لیکن ہم ٹرمپ کی ٹویٹ کے بعد ہڑبڑا کر جاگے اور ایک بار پھر عقل کا بوجھ اتار پھینکتے ہوئے جذبات کے اسپ تازی پر سوار ہوگئے ۔ہمیں یکایک ’’قومی اتحاد، یک جہتی اور ہم آہنگی‘‘ کی ضرورت محسوس ہونے لگی۔ اس ملک کا کوئی کونہ ایسا نہیں جہاں سے داخلی ہم آہنگی کی ضرورت کی صدائیں بلند نہ ہورہی ہوں۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہ ناگہانی صورت ِحال سے نکلنے کا کوئی بٹن ہوجسے دباتے ہی ہم سنگین قومی بحران سے صاف بچ نکلیں گے ۔ کئی برسوں سے قومی اتحاد اور داخلی ہم آہنگی کا کباڑا کرنے کے بعد اب ہم چند دنوں ، بلکہ گھنٹوں میں اس کی تعمیر چاہتے ہیں۔ گویا کسی ایک تقریب میں اس کی رونمائی کرلی جائے تو یہ سب مسائل ختم۔ ٹرمپ کے امریکہ کی طرف سے درپیش صورت ِحال کا معروضی انداز میںجائزہ لینے اور اس سے نکلنے کی راہ تلاش کرنے کی بجائے ہم راتوں رات قومی ہم آہنگی کی چادر بننے میں مصروف ہوگئے ہیں۔

اس دوران ہم نے ایک اور طریقہ بھی سوچ لیا ہے ۔ یہ داخلی طور پر ہمارے ہاں آزمودہ اور موثر ہے ، لیکن دیکھنا پڑے گا کہ کیا یہ عالمی مسائل حل کرسکتا ہے ؟ ہم نے ٹرمپ کے خلاف نفرت کی فضا قائم کرلی ہے ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ٹرمپ کا بیانیہ قابل نفرت نہیں۔ یقیناََ ہے ، لیکن کیا نفرت کا بھونچال اُن کی پاکستان کے لئے بنائی گئی پالیسیوں کو ہلاسکتا ہے ؟عمران خان کے ترجمان ، نعیم الحق نے ٹرمپ کو احمق قرار دیا ۔ کیا اگلے روز ٹرمپ زخموں سے تلملاتے ہوئے بیدار ہوئے ؟

ٹی وی کے پروگراموں میں اُنہیں ایک پاگل، خبطی اور عجیب وغریب حرکتیں کرنے والے شخص کے طور پر پیش کیا جارہا ہے ۔ واٹس اپ پر اُن کی حماقتوں کی ویڈیوز شیئر کی جارہی ہیں۔ حتیٰ کہ تعلیم یافتہ افراد بھی اس مہم سے لطف لے رہے ہیں۔ ایسالگتا ہے کہ ہمارے ہاں ہرکسی کو یقین ہے کہ میڈیا پر ٹرمپ کی ناک زمین پر رگڑنا امریکہ کی جارحانہ پالیسیوں کا درست جواب ہے ۔
یہ بھی سوچ لیا گیا ہے کہ یہ تمام مصیبت ٹرمپ کی وجہ سے آئی ہے۔ چنانچہ اگر ہم اُنہیں تنقید سے نیچا دکھاتے رہے تو امریکی پالیسی بھی زمین بوس ہوجائے گی۔ اسی پیرائے میں ایک ضمنی سوچ یہ بھی ہے کہ واشنگٹن کی پاکستان پالیسی کا جارحانہ پن عارضی ہے ۔ اگر ہم بہت دیر تک اُسے یہ جتاتے رہیں کہ ہم ماضی میں کتنے اچھے دوست تھے اور ماضی میں ہمارے ساتھ کتنا منفی سلوک کیا گیا تو یہ جذ باتی بیانیہ ہمارے لئے واشنگٹن میں امکانات کی کوئی کھڑکی کھول دے گا۔ شاید ہم بھول گئے ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ کے پاکستان پر الزامات کو دونوں اہم جماعتوں، رپبلکن اور ڈیموکریٹس کی حمایت حاصل ہے ۔ ٹرمپ انتظامیہ اُس زبان میں بات کررہی ہے جس میں اوباما انتظامیہ کرتی تھی۔ نیز امریکہ کی طرف سے ملنے والی امداد کے حجم پر ہماری بیان بازی بے کار ہے ۔ اگر امریکہ فراہم کی گئی امداد کے بارے میں دروغ گوئی سے کام لے رہا ہے کہ اُس نے گزشتہ پندرہ برس کے دوران کتنی رقم فراہم کی تو بھی ہمارے پاس اس کا کوئی جواب نہیں۔ ہم اب اپنی فہرستیں تیار کررہے ہیں جبکہ امریکہ ہر سال اپنی دستاویزات شائع کرتا ہے ۔ چنانچہ اب ہمارے اعدادوشمار کی سچائی سفارتی اور سیکورٹی مسائل کا کتنا حل نکال لے گی؟اگر ہمیں امریکہ سے فوجی ،دفاعی اور معاشی امداد کی ضرورت نہیںتو ہم امریکہ کو دوٹوک انداز میں بتاسکتے ہیں کہ’’ ہمیں یکم جنوری 2018 ء سے تمہاری امداد کی ضرورت نہیں۔ اپنا بوریا بستر یہاں سے گول کرواور اپنی راہ لو۔ہم تمہیں اچھی طرح جانتے ہیں۔‘‘ لیکن ہم ایسا کچھ نہیں کریں گے۔ اس کی بجائے ہم بیان بازی سے کچھ وقت گزارنا چاہتے ہیں۔ اس دوران ہم جی بھر کر ٹرمپ پر اپنے دل کا غبا ر نکال لیں، اُنہیں دنیا کا احمق ترین انسان ثابت کرلیں، سوشل میڈیااور ٹی وی پروگراموں میں چیخ وپکار سے اپنا قومی فریضہ سرانجام دے لیں، لیکن اس سے سامنے کھڑی مصیبت دور نہیں ہوگی۔ ہم نے بن لادن آپریشن کے بعد سے یہی کچھ کیا ہے ۔ ہم اب بھی یہی کچھ کررہے ہیں۔اور یہی ہمارا سب سے بڑا قومی سانحہ ہے ۔ مسائل موجود، لیکن قومی بحث ندارد۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).