قصور کا کیا قصور؟


قصور بابا بلھے شاہ کا شہر، ہماری مایہ ناز گلوکارہ ملکہ ترنم نورجہاں کا شہر وہی نورجہاں جس کے نغمے سن کر ہم بڑے ہوئے جب ذرا بڑے ہوئے تو امی سے کچن میں قصوری میتھی کا ذکر سنا، ایک سبزی نما ساگ جو خوشبو سے پہچانا جاتا ہے، اسکول کے زمانے میں ملک معراج خالد پاکستان کی قومی اسمبلی کے پہلے اسپیکر اور سابق وزیر اعظم جن کی سادگی اور شرافت کی مثالیں دی جاتیں جاتیں تھیں ان کا تعلق بھی قصور سے تھا، ایک دور ایسا آیا جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی قصور کے نواب محمد احمد خان مرڈر کیس میں ہوئی تو بہت افسوس ہوا تھا۔ قصور سے متعلق یہی یادیں تھیں لیکن گزشتہ دوسال سے قصور سے افسوسناک خبریں آرہی تھیں، دو سو سے زائد بچوں کے ساتھ غلط کام کرکے گندی فلمیں بنائی جاتیں تھیں وہ کیس پکڑا گیا بہت واویلا مچایا گیا، پورا شہر احتجاج کی تصویر بن گیا، کمیٹی بنی، کچھ دن شور شرابا رہا اور پھر یہ کیس بھی دبا گیا یا دبا گیا۔ اس بات کو زیادہ عرصہ نہ گزرا کہ بچیوں کے اغواء اور زیادتی کے واقعات کی خبریں شہر قصور سے ملنا شروع ہوگئیں، ایسے واقعات پورے ملک میں ہورہے تھے لیکن زیادہ تعداد یہاں اور کم عرصے میں تھی، زیادتی کے واقعات کے بعد ستم بالائے ستم یہ کہ قتل بھی کردیا جاتا تھا گزشتہ دنوں تقریباً بارہ کیس سننے میں آئے معصوم بچوں کے ساتھ زیادتی اس کے بعد قتل۔

ایک اور بھیانک واقعہ قصور میں ہوا جس نے انسانیت کی دیوار گرادی اور اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا جی ہاں حالیہ واقعہ زینب کے اغوا جو چار جنوری کو ہوا اور اس کی لاش جو دس جنوری کو ملی اس حالت میں کہ ہر درد مند دل کانپ اٹھا، بچی کے ساتھ زیادتی کی تمام حدود عبور کردی گئیں اور آخر میں گلا دبا کر مار دیا گیا، پورا قصور شہر سراپا احتجاج بن گیا، اس احتجاج کا دائرہ پورے ملک میں پھیل گیا، سیاستدان آپس کے اختلاف بھلا کر زینب کو انصاف دلانے کے لیے ہم آواز ہوگئے۔ سوشل میڈیا پہ جسٹس فار زینب ٹرینڈ بن گیا، فنکار بھی اس احتجاج میں شامل ہوگئے۔ ہر طرف انصاف کی صدائیں ہیں۔

قصور کی بے قصور بیٹی ہم شرمندہ ہیں تیری حفاظت نہ کرسکے، پہلی ذمہ داری گھر والوں کی تھی ان سے غفلت ہوئی، دوسری ذمہ داری چار جنوری کو تیرے اغواء کے بعد ایف آئی آر کٹنے کے باوجود پولیس نے کوئی بھاگ دوڑ نہ کی اور آخر ان درندوں نے تیری عزت عصمت لوٹنے کے بعد زندگی کی قید سے آزاد کردیا اور ایک کچرا سمجھ کر کچرا کنڈی میں پھینک گئے۔ ابھی بھی قوم غفلت کی نیند سے نہیں جاگی تو ایسی کئی اور بچیاں ان کی ہوس کا نشانہ بنیں گی اور اسی طرح شکار ہوتی رہیں گی۔ اس تحریک کو ختم نہ ہونے دینا اس کو اور شد ومد سے چلاؤ تاکہ اس جڑ کو ہی ختم کردیا جائے جس کی وجہ سے بار بار یہ واقعات ہورہے ہیں۔

سارے مسائل ایک طرف ڈال کر پہلے عزت سے جینے کا مسئلہ حل کرلو پھر چین سے بیٹھنا کیونکہ تمھارے احتجاج اورجذبہ کی بدولت ہی سب ایک آواز ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ اس وقت تک سکون کا سانس نہ لینا جب تک اس معصوم کے قاتل نہ پکڑ لو۔ آج یہ تحریک چلی ہے تو کامیابی سے ہمکنار کرنا بھی ہمارا کام ہے۔ کاش میرے وطن کی ہر کلی ہر پھول سلامت رہے آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).