الف سے اردو، جیم سے جاپانی


ایسے ہر معاملے میں مغرب کی طرف دیکھنا ہماری ذہنی عادت بن چکا ہے یہاں تک کہ اردو کا ذکر ہو تب بھی ہم یہی کرتے ہیں۔ جب بھی اردو کے بین الاقوامی تناظر کا ذکر آتا ہے یا پھر وہ ’’نئی بستیاں‘’ جن کا نام اردو والے بڑے فخر کے ساتھ لیتے ہیں۔ ہم یوروپ اور شمالی امریکا کے اہل علم کے بارے میں پہلے سوچتے ہیں۔ ایسی کسی تیار شدہ فہرست میں جاپان کا نام نہیں آتا لیکن اردو کے حوالے سے درسیات اور تحقیق کے زُمرے میں جو کام وہاں ہورہا ہے، وہ اپنی مقدار اور اعلیٰ درجے کے معیار کی وجہ سے اس قابل ہے کہ اس کے بارے میں پاکستان کے علمی و ادبی حلقوں میں واقفیت اس سے زیادہ ہو۔

جاپان کے ایک سفر کے ذریعے سے مجھے جاپان کی چند ایک نمایاں یونیورسٹیوں میں اردو کی درس و تدریس کو قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ موقع یہ تھا کہ ٹوکیو یونیورسٹی آف فارن اسٹڈیز نے مجھے ایک کانفرنس میں شرکت کرنے اور مقالہ پڑھنے کے لیے مدعو کیا۔ اپنی جگہ یہ کانفرنس بھی خوب تھی، ہر مقالے کے بعد گفتگو بڑی فکر انگیز تھی۔ خاص طور پر ہندوستان میں دلت ادب نے جس طرح مکالمے کا رُخ موڑ دیا ہے، اس حوالے سے بہت معلومات ہوئیں۔ اس کانفرنس کے اجلاس کے علاوہ جو چیز میرے لیے انکشاف کا درجہ رکھتی تھی وہ اردو کے حوالے سے تھی۔ اس یونیورسٹی کا نام ’’ٹوکیو جامعہ برائے خارجی مطالعات‘‘ ہے۔ میری توجّہ یونیورسٹی کے ایوان میں دیوار پر نصب تختی کی جانب مبذول کرائی گئی جہاں کئی زبانوں میں ادارے کا نام درج تھا اور یہ عین فطری معلوم ہو رہا تھا کہ اس لمبے چوڑے اونچے ایوان میں اردو کا نام بھی درج ہو۔ اس یونیورسٹی کے کئی اساتذہ سے گفتگو کا موقع ملا۔ خاص طور پر پروفیسر ہاگیتا ہیروشی اور کوماکی مامیا کین ساکو کئی برس سے یہ بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں۔ بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس عمل میں انھوں نے اپنے بال سفید کر لیے ہیں۔ ورنہ جب میں نے انھیں اس سے پہلے دیکھا تھا تو ان پر اتنی بُزرگی نہیں آئی تھی۔

مامیا صاحب نے بتایا کہ مشفق خواجہ مرحوم نے ان سے ازراہ مذاق کہا تھا کہ میں آپ کو ’’امامیہ‘‘ کہوں گا تاکہ آپ کا نام یاد رکھنے میں آسانی ہو۔ یہی مشورہ انھوں نے مجھے بھی دیا مگر میری اور ان کی اتنی ملاقاتیں ہوئیں کہ مجھے ان کا نام یاد ہوگیا۔ ان کی دل چسپی کا موضوع لسانیات ہے۔ وہ سندھ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں اور ڈاکٹر نجم الاسلام کے شاگرد۔ انھوں نے سندھی زبان بھی سیکھی اور سندھی، اردو کے لسانی روابط پر مقالہ لکھا۔ انھوں نے یاد کیا کہ کسی امتحان کے سلسلے میں وہ میرے والد سے بھی ملے تھے۔ میرے والد کی زیادہ ملاقات ہاگیتا ہیروشی سے رہی جو اس شعبے کے سینئر استاد ہیں اور خاص طور پر ترجمےکے حوالے سے معروف ہیں۔ انھوں نے احمد علی کے ’دلّی کی شام‘‘ اور شوکت صدیقی کے ’’خدا کی بستی‘‘ کا جاپانی میں ترجمہ کیا ہے۔ غلام عباس سے لے کر حسن منظر کے ’’رہائی‘‘ تک سینکڑوں افسانے اردو سے جاپانی میں منتقل کر چکے ہیں۔

پروفیسر ہاگیتا ہیروشی

وہ بڑی دیر تک اپنی پسند کے افسانہ نگاروں کے بارے میں باتیں کرتے رہے۔ ہم ان کے دفتر میں بیٹھے کافی پی رہے تھے جہاں دیواروں کے ساتھ ہر طرف اردو کی کتابوں، رسالوں کا اچھا ذخیرہ موجود تھا۔ کافی کے ساتھ ایک جاپانی مٹھائی کی ٹکیہ سی میرے سامنے رکھتے ہوئے وہ اٹھے اور جاپانی زبان کی ایک کتاب میرے سامنے رکھ دی کہ یہ دیکھیے۔ میں نے الٹ پلٹ کر دیکھا تو کتاب کے اندر اردو کا ذیلی عنوان اور بہت مانوس تصویر دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔ یہ انتظار حسین کے منتخب افسانوں کا جاپانی زبان میں ترجمہ تھا۔ جہاں اردو میں نام لکھے تھے، میں نے دیکھا کہ انتظار حسین کے اہم افسانے شامل تھے، ایسے بھی افسانے جن کے بارے میں حیرت ہوتی ہے کہ جاپانی زبان میں کیسے منتقل ہوئے۔ انھوں نے یہ بھی ذکر کیا کہ جدید جاپانی ناول کے اہم نام کو بے کے ساتھ ایک طرح کی ذہنی مماثلت کا احساس ہوتا ہے کہ دونوں ادیب اپنی اپنی جگہ واقعیت نگاری کو چوکٹھے سے باہر نکلنے کے لیے بے قرار ہیں۔

ہاگیتا صاحب نے یاد دلایا کہ پاکستان سے اردو کے کئی نامی گرامی اساتذہ جاپان کی مختلف یونیورسٹیوں میں آتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر ابوالخیر کشفی، سہیل احمد خاں، ڈاکٹر معین الدین عقیل، تبسم کاشمیری اور ڈاکٹر انوار احمد کے نام ذہن میں آنے لگے۔ مجھے یاد آیا کہ ڈاکٹر کشفی، جن کو میں کشفی چچا کہا کرتا تھا، وہ پہلے شخص تھے جن کے بارے میں سنا کہ اردو پڑھانے جاپان گئے ہیں اور یہ بات نئی سی لگی تھی۔ کشفی چچا واپس آئے تو ایک شام انھوں نے سرخ رنگ کی ایک کتاب مجھے تھمائی اور کہا کہ اس کو پڑھ کر دیکھو اور جو سمجھ میں آئےوہ بتانا۔ میں نے کتاب پڑھ ڈالی، کچھ سمجھ میں آئی اور زیادہ تر سر کے اوپر سے گزر گئی۔ یہ ممتاز ادیب یوکیو مشیما کے ڈراموں کا مجموعہ تھا۔ جاپان کے قدیم تھئیٹر کا علم تھا اور نہ مشیما کی جدّت طرازی کا اندازہ، اس کے باوجود اس کتاب میں ایسی کشش تھی کہ میں اسے لیے ہوئے گھومتا رہتا۔ یہ کتاب میرے پاس آج بھی موجود ہے۔ مشیما کا سحر مجھ پر آج تک قائم ہے۔ پہلی بار اندازہ ہوا کہ جاپان کے ادب کا انداز ہی نرالا ہے، حیرت اور طرفگی کا ایک جہانِ دیگر ہے۔

اساتذہ کے اسی سلسلے میں آج کل وہاں ڈاکٹر سہیل عباس مقیم ہیں۔ ان سے پہلی ملاقات ملتان میں ہوئی تھی اور انھوں نے باغ و بہار کے متن میں موشگافیوں پر گفتگو کی تھی۔ اس مرتبہ انھوں نے بتایا کہ نول کشور کی شائع شدہ کتابوں کی ایک بڑی تعداد یہاں کے کتب خانوں میں موجود ہے۔ وہ ناسخ کے بعض شاگردوں کے دیوان بھی مرتب کر رہے ہیں اور ان کتابوں کو طالب علم ڈجیٹل صورت میں منتقل کر رہے ہیں۔ جو نصاب انہوں نے ترتیب دیا ہے، وہ بھی اس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ انھوں نے اپنی کلاس میں آنے کی دعوت دی تو مجھے شعبے کے مختلف طالب علموں سے ملنے، بات چیت کرنے کا موقع ملا۔ تیسرے سال کی طالبہ یوری کانو نے بڑے اعتماد کے ساتھ اور نپلے تُلے لہجے میں بتایا کہ وہ بنارس اور دہلی میں رہ چکی ہیں، دہلی میں شمیم حنفی صاحب سے ملاقات بھی رہی ہے۔ وہ ’’لندن کی ایک رات‘‘ بڑے ذوق و شوق سے پڑھ رہی تھیں۔ بس یہی بات مجھے اچھی لگی۔ اس ناول کا میں ایک عرصے سے قائل چلا آرہا ہوں لیکن یہ زبان کی تدریس کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے، یہ میں نے پہلے سوچا بھی نہیں تھا۔

یہ طالب علم مختلف درجوں کے تھے اس لیے زبان سے شناسائی کے مرحلے بھی مختلف تھے۔ کسی نے پاپ موسیقی کا ذکر کیا تو کسی نے ٹی وی کے مقبول عام ڈراموں کا۔ ظاہر ہے کہ ادب کے علاوہ یہ ساری چیزیں بھی زبان کی ترویج کا حصہ ہیں جن سے صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا۔ بلکہ یہ ہماری زبان کی وسیع تر ثقافت کا حصّہ اور کلچرل پروڈکشن ہے جو بجائے خود مطالعے کی مستحق ہے۔

ظاہر ہے کہ ان غیرملکی طالب علموں کو زبان کے اس پہلو سے دل چسپی تھی۔ ان میں سے کئی طالب علموں نے ذکر کیا کہ اردو پڑھنے کے لیے وہ ہندوستان کی کسی یونیورسٹی جا چکے ہیں یا جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ مجھے یاد آیا کہ ایک زمانے میں ایسے طالب علم کراچی یونیورسٹی میں باقاعدگی سے آیا کرتے تھے۔ شعبۂ اردو سے وابستگی کے سبب ان میں سے کئی طالب علم میرے والد کے پاس بھی آیا کرتے تھے۔ مگر اب یہ قصّہ پارینہ ہوچکا۔ ان میں سے کسی طالب علم کے پروگرام میں پاکستان شامل نہیں تھا۔ ایک طالب علم نے صاف کہہ دیا کہ ان کے والدین شاید ان کا پاکستان آنا پسند نہ کریں اور نہ یونیورسٹی کے حکام سے ان کو اجازت ملے گی۔ افسوس کی بات ہے کہ دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کی بہت رسوائی ہو چکی ہے، ہماری حکومت نے زبانی جمع خرچ سے بڑھ کر اس بارے میں ایسے اقدامات نہیں کیے کہ طالب علم اس ملک کی طرف دیکھ سکیں۔

بہت عرصہ پہلے کراچی آنے والے جاپانی طالب علموں میں سویا مانے بھی شامل تھے جن سے ملاقات مجھے یاد آتی ہے۔ سویامانے اوسا کا یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔ میں تو اوساکا نہ جاسکا مگر وہ مجھ سے ملنے چلے آئے۔ پھر ہم جاپان کی شہرہ آفاق بلٹ ٹرین میں سفر کرتے ہوئے ٹوکیو سے کیوٹو روانہ ہوئے اور قدیم عمارتوں، معبدوں کے اس شہر میں گھومتے پھرتے ہوئے اردو ادب اور تحقیق کے بارے میں باتیں کرتے رہے۔ یامانے پنجاب یونیورسٹی کے اورینٹل کالج کے طالب علم رہے ہیں اور دیر تک لاہور کی گلیاں، لاہور کا علمی، ادبی ماحول یاد کرتے رہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بہت زمانے پہلے میری ان کی ملاقات مشفق خواجہ صاحب کے توسط سے ہوئی تھی۔ خواجہ صاحب بلاوجہ کسی کی تعریف نہیں کرتے تھے، خاص طور پر تحقیق کے معاملے میں بالکل نہیں۔ سویامانے غلام عباس پر تحقیق کرنے کے لیے آئے تھے اور خواجہ صاحب نے نہ صرف ان کو اپنے گھر کی نچلی منزل پر ٹھہرالیا، اپنے کتابی ذخیرے سے استفادے کی اجازت دی بلکہ تحقیق میں مددگار ثابت ہونے والے لوگوں سے متعارف بھی کروایا۔ غلام عباس سے مجھے بھی قربت رہی ہے، اس لیے اس فہرست میں میرا نام بھی شامل ہوگیا۔ یامانے بتانے لگے کہ خواجہ صاحب نے ان کو ضروری حوالے فوٹو کاپی کرنے کے بجائے نقل کرنے کی اجازت دی تھی تاکہ یہ بات یقینی ہو جائے کہ انھوں نے سارا مواد پڑھ لیا ہے۔ وہ مہینہ بھر یہ کام کرتے رہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ یہ کتاب نہ صرف یہ کہ سوانح اور تنقیدی جائزے کے طور پر اہم ہے بلکہ اپنے موضوع پر سند کا درجہ اختیار کرگئی ہے اس نے ادب و فن کے حوالے سے تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے ایک مثال قائم کر دی ہے۔ ہمارے ہاں مختلف یونیورسٹیوں میں تحقیقی مقالے لکھنے والے طلبا کی بہتات ہے مگر ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جن سے یہ کہنے کو جی چاہا کہ تحقیق کی الف بے پڑھنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے طالب علم سویامانے کے مقالے سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ عرصہ ہوا یہ کتاب لاہور سے شائع ہوئی تھی مگر اب ناپید ہے۔ اس کتاب کو دوبارہ شائع کرنے کی ضرورت ہے۔ غلام عباس کے کام پر بات چلتی رہی ہے تو اچھا ہے، جاپان کے راستے سے سہی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).