نیوز روم سے چنگ چی ڈرائیور تک


خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑے نہ پکڑے مگر ’ہم سب‘ پر جو ’رنگینیء نو بہار‘ چل رہی ہے اس میں سبھی رنگے جا رہے ہیں۔ مبشر اکرم کا مضمون ’میڈیا کے بازار میں بکنے آیا ہوں‘ پڑھا تو سوچا صحافتی کتھا لکھ بھیجوں۔ داستان عبرت، مبشر اکرم ایسوں کے لیے، اگر‘پیراشوٹ‘ نہیں اور عزت نفس ہے تو پرانے کام پر گزارہ کریں یا پھر جیسے فلموں میں فلیش بیک سے پہلے کہا جاتا ہے ’سُن سکتے ہو تو سُنو‘ تو سُنیں۔

یہ منظر ہے چند سال قبل کے لاہور کا، ایم اے کے آغاز میں ہی صحافت کے جراثیم دُم پر کھڑے ہونا شروع ہوئے تو ہم جا پہچنے معروف اخبار کے دفتر، ایک شناسا سب ایڈیٹر مل گئے جو شاعر بھی تھے۔ چائے پیتے ان کے اشعار پر ہماری واہ واہ نیوز روم تک لے گئی اور ٹرینی سب ایڈیٹری بھی دلوا دی۔ سی این ای شفقت سے ملے اور خبر بڑھائی، مگر جانے کیوں ایم اے کے الفاظ سنتے ہی جیسے ان پر گرم چائے گرم گئی ہو۔ دہن بے دنداں سے حقارت بھری ’ہونہہ‘ برآمد ہوئی اور خبر ایک طرف رکھتے ہوئے ’سلگ‘ تھما دیا۔ اگلے روز انہوں نے فوٹو گرافر سے ایک بورڈ کی تصویر بنوائی، جو کسی کریم کی مشہوری کی تھی۔ کیپشن لکھواتے ہوئے کہا ’شہر کے وسط میں فحش سائن بورڈز لگے ہیں‘ میں پوچھ بیٹھا، سر اس میں تو کوئی ایسی بات نہیں، گویا ہوئے، غور سے دیکھو، خاتون نے فحش انداز میں گال پر ہاتھ رکھا ہوا ہے۔

ابھی کہنے کی کوشش ہی کی تھی کہ چونکہ کریم کا اشتہار ہے تو۔ گرجدار آواز آئی، یہ مشرقی اقدار کے خلاف ہے۔ بس۔ او کے کہہ کے کیپشن لکھا اور ڈرتے ڈرتے پوچھا اگر یہ فحاشی ہے تو ہم چھاپ کے اسے گھر گھر نہیں پہنچا رہے؟ اور خوفناک گُھوری برداشت کی۔ چند روز بعد فوٹو گرافر کسی جگہ لگے خفیہ کیمرے کی تصویر لایا اور میرے منہ سے نکل گیا کہ اگر یہ خفیہ کیمرہ ہے تو چھپنے کے بعد خفیہ رہے گا؟ اگلے روز اوپر نہیں جانے دیا گیا، ساری صحافت نکل گئی۔ بعدازاں ایک پنج ستارہ ہوٹل میں ویٹری کر لی، ماحول نیوز روم سے اچھا تھا لیکن انہیں جانے کیسے پتہ چل گیا کہ میں صحافی رہا ہوں اور شاید اندرونی سٹوریز لینے آیا ہوں۔ اس پر شاعر سب ایڈیٹر نے تبصرہ کیا جو ایک بار صحافی بن جائے کچھ اور نہیں بن سکتا، پوچھا بندہ بھی نہیں؟ تو فون بند کر دیا۔

انہی دنوں والد ریٹائرڈ ہوئے اور ہم چارسدہ شفٹ ہو گئے، پھر پشاور کی اخباری مارکیٹ میں نکل پڑا تاہم ایک قلندر صفت ایڈیٹر ملنے سے کچھ سلسلہ بن گیا۔ ماحول کافی بہتر تھا۔ اداریہ لکھنے پر مامور ہوا۔ قلندر صاحب کے انتقال کے بعد اسلام آباد کے ایک اخبار سے پیشکش ہوئی، یہاں بھی سب ٹھیک تھا لیکن چونکہ فارسی شاعر انور کی طرح ہر بلا ڈھونڈ ہی لیتی تھی، لہٰذا انتظامیہ بدل گئی اور ماضی کے کسی مشہور بریگیڈیر کے صاحبزادے بطور ایڈیٹر وارد ہوئے۔ آتے ہی خواتین پیج پر اعتراض کیا اور کہا بند کرو یہ حقوق حقوق کی رٹ، اور کیا چاہیے ان کو۔ ؟ انٹرنیٹ ایکسس بھی ستر فیصد کم کر دی غیر اخلاقی سائٹس سے بچنے کے لیے۔ پھر سیاسی کزن ڈزن ڈزن کرنے لاؤ لشکر کے ساتھ اسلام آباد پہنچے تو مدیر بڑے پرجوش تھے، میری ڈیوٹی لگائی گئی کہ روز رنگین ایڈیشن بناؤں ساتھ ہی اداریہ بھی ایسا لکھا جائے کہ پورا ’ماحول‘ بن جائے۔

میں ٹھہرا سدا کا جمہوریت پسند، اپنی طرف سے کوشش کے باوجود انہیں لگا کہ میں ’ڈنڈی‘ مار رہا ہوں، ایک روز بلایا تو اتنا کہا بیلنس کر کے لکھتا ہوں، چیخے، بیلنس۔ مائی فٹ، اس وقت ان کی فٹ کی طرف دیکھا تو فوجی قسم کے جوتے پہنے ہوئے تھے۔ اگلے روز دفتر نکالا دے دیا، صد شکر بغیر لات کے، جوتوں کے بارے میں پہلے ہی بتا چکا ہوں۔ پھر ایک سیاسی شخصیت کے ساتھ جڑ گیا، پریس ریلیز بناتا، ان کے لیے کالم لکھتا، چھپواتا، اخبار خریدتا، کٹنگ کر کے فائل میں لگاتا۔ ان دنوں اے پی ایس کا واقعہ ہوا۔ اس پر بیان لکھوایا یہ سب بھارت کروا رہا ہے۔ میں نے کہا سر طالبان نے ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ بھارت کو الزام دے کے ہم طالبان کو سپیس دے اور اپنے اداروں کی کارکردگی پر سوال نہیں اٹھا رہے؟ اس پر غور سے دیکھا پر بولے کچھ نہیں۔ پھر تحفظ حقوق نسواں بل آیا تو اس کے خلاف سخت بیان اخبارات کو بھیجنے کا کہا جس پر بل کے کچھ مثبت نکات سمجھانے کی کوشش کی تو سر تا پا دیکھ کے بولے، تم تو کوئی لبرل قسم کی شے لگے ہو۔ ہمیں نہ مروا دینا کہیں۔ اگلے چند روز میں میرے بارے میں ان کا لبرل ہونے کا خدشہ مزید پختہ ہو گیا اور میں پھر سڑک پر آ گیا۔

پریس کلب میں دوستوں کے پلّے سے کھانے کھا کھا کر بدمزہ ہوا تو پھر پشاور کا رخ کیا ایک اخبار کے مدیر جو کافی بزرگ تھے پروفائل دیکھ کر متاثر ہوئے اور نیوز ایڈیٹری عنایت کر دی۔ ساتھ نماز پڑھنے کی تاکید بھی کی۔ ان دنوں مشال خان کا قتل ہوا۔ چند روز بعد مردان میں قاتلوں کی حمایت میں مظاہرہ ہوا جسے چھاپنے کی ہدایت پر مسئلہ شروع ہوا۔ خبر چھاپ دی گئی۔ پھر احسان اللہ احسان کے انٹرویو کی جھلکیاں سامنے آنے اور بحث چھڑنے پر اس کی حمایت میں لکھنے کا کہا گیا اور ساتھ بتایا گیا کہ مرتضیٰ بھٹو نے بھی تو جہاز اغوا کیا تھا اس کے بعد الیکشن لڑا اور ممبر اسمبلی بھی بنا، اس لیے غلطی کسی سے بھی ہو سکتی ہے۔ ابھی یہ معاملہ بیچ میں ہی تھا کہ فوج نے ڈان لیکس والی ٹویٹ واپس لے لی۔ اس پر مدیر میرے ایک زبانی جملے پر ہتھے سے اکھڑ گئے۔ بولے ’غائب ’ ہونے کا بہت شوق ہے تمہیں، کرواتا ہوں بندوبست، اور تم نے نماز شروع کیوں نہیں کی ابھی تک۔ بِیپ۔ بِیپ۔ بِیپ۔ قبل اس کے کہ غائب ہوتا خود وہاں سے غائب ہو لیا۔

واپسی پر چنگ چی والے دوست نے ڈرائیوری کا مشورہ دیا، دن ساتھ گزارا، لیکن آواز لگاتے جھجھک سی تھی جس پر اس نے کہا ’ جب گھنگرو باندھ لیے تو ناچنے میں شرم کیسی‘ شام کو دعا مانگی یا اللہ ڈرائیوری سے بچا، اگلے روز اسلام آباد سے ایک بڑے چینل سے انٹرویو کال آ گئی۔ قبل ازیں کامیاب صحافی دوست کی نصیحت پلے باندھ چکا تھا کہ انٹرویوور کے حلیے کے مطابق دائیں یا بائیں نقطہ نظر کا چناؤ کروں۔ پینل پر نظر ڈالی تو تین صاحبان کلین شیو پنٹ شرٹس میں تھے یعنی لبرل سے، پھر ایک خاتون حجاب اوڑھے شامل ہوئیں تو کچھ پریشانی ہو گئی۔ خیر انٹرویو شروع ہوا، کافی محتاط رہا، ایک نے پوچھا، آخری کونسی کتاب پڑھی، کہا شیکسپئر کا ڈرامہ ہیملٹ۔ بولے چھوڑو گوروں کو، نسیم حجازی کو کبھی پڑھا، کہا نہیں بلکہ ان کے بارے میں کافی پڑھا ہے۔ مثلاً کیا پڑھا؟ پوچھا، جواب دیا، یہی کہ نوجوانوں کوجذبہ جہاد سے سرشار اور دنیا پر چڑھ دوڑنے کے لیے تیار کرنے میں ان کا بہت کردار ہے۔ میری دانست میں یہ ایسا جملہ تھا جسے رسپانس کی مناسبت سے طنز یا تعریف میں ڈھالا جا سکتا تھا لیکن چہرہ سپاٹ رہا۔ پوچھا اور کوئی کتاب؟ کہا، آئی ایم ملالہ، پوچھا، وہ کیوں؟ کہا اس بچی کی جدوجہد۔ یہ سنتے ہی لگا جیسے ان کے بال کھڑے ہونے لگے ہیں۔ بولے، کون سی جدوجہد، کمال کرتے ہو، ہماری ناک کٹوا دی اس نے اور تم۔ (جملے کو کپڑے پہنا کر نقل کیا ہے)۔ پھر دفعان کے سے انداز میں بولے، فون پر بتا دیا جائے گا۔

سیڑھیاں اترتے چنگ چی والے دوست کے الفاظ کانوں میں گونج رہے تھے ”جب گھنگرو باندھ لیے تو۔ “ وہیں سے کال ملا کے رکشے کا انتظام کرنے کا کہہ دیا۔
دوسروں کی سوچ کے کواڑوں پر بھاری ’تشریف‘ ٹکائے، زعمِ تقویٰ میں ڈوبے حوالدار مدیروں کی مریدی اور اشارہ ابرو پر چلنے سے بہتر ہے، ٹریفک اشاروں کے مطابق چنگ چی چلا لی جائے، اسیرانِ عظمت رفتہ کے فرمودات پر ’یس سر، یس سر‘ کہنے سے اچھا ہے کہ آزاد فضا میں آواز لگا لی جائے۔ لاری اڈہ، لاری اڈہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).