جدید ٹیکنالوجی اور بلوچستان


اکیسوی صدی میں ترقی یافتہ ممالک نے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے زندگی کے بہت سے شعبوں میں آسانیاں پیدا کی اور ٹیکنالوجی کی ہی وجہ سے پیچیدہ مسائل کو حل کیا۔ اور اب یہ ٹیکنالوجی پاکستان جیسے ترقی پزیر ممالک تک پہنچ گئی ہے، اس کی ایک مثال پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ ہے۔ جو اس وقت پنجاب کے مختلف شعبوں میں کامیابی سے کام کررہا ہے، خاص کر تعلیم اور صحت کے شعبوں میں۔ یہ ایک خودمختار ادارہ ہے جو وزیراعلی پنجاب کے انڈر کام کرتا ہے۔ اس سے پہلے پنجاب میں گھوسٹ سکولوں کی تعداد بہت زیادہ تھی، اعدادوشمار کے مطابق تقریباً 2500 کے قریب گھوسٹ سکول معلوم کیے گئے، اور ایسے سکول بھی جہاں ٹیچرز کا غیرحاضر ہونا، بچوں کا فیک رجسٹرڈ ہونا، سہولیات کا نہ ہونا عام تھا۔ اس سنگین مسئلے کو حل کرنے کے لئے پی آئی ٹی بی کی مدد سے ایک موثر نظام بنایا گیا، جس سے سکولوں کی تعداد اور ان میں ٹیچرز اور سٹوڈنٹس کی تعداد، ٹیچرز کی حاضری، سکول کی حالت زار اور صفائی کو مانیٹر کیا جاتا ہے اور ساتھ ساتھ عام آدمی اپنے علاقے کے سکول کے حوالے سے شکایت بھی کر سکتا ہے اور اس پھر ایکشن ہوتا ہے، اور اگر وہ شخص چاہیے تو اس کو ہر مہینے کے آخر میں میسج کے ذریعے انفارمیشن بھی بھیجتا ہے تاکہ پتہ چلے کہ واقعی یہی ہورہا ہے۔

اور یہی نظام صحت کے شعبے میں بھی استعمال ہورہا ہے جس میں پولیو کی مانیٹرنگ، ڈاکٹروں کی حاضری، میڈیکل سٹور میں فارماسسٹ کا لازمی ہونا، غیر رجسٹرڈ میڈیکل سٹور کو بند کرنا اور نقلی دوائیوں کی روک تھام۔ اس طرح کے ٹیکنالوجی سے سسٹم میں بہت بہتری آئی ہے۔

اب آتے ہیں بلوچستان کی طرف رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا اور قدرتی معدنیات سےسے مالامال، لیکن بد قسمتی سے زندگی کے ہر شعبے می اسے نظرانداز کیا گیا ہے۔ اس میں کچھ غلطی ہمارے حکمرانوں کی ہے اور باقی کسر وفاق، سول ادارے اور بیروکریسی پوری کر رہے ہیں۔ اسی لیے شاعر کہتا ہے
ہمیں اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہا دم تھا
ہماری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی کم تھا

ایک قوم کے ترقی کے لیے دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ تعلیم اور صحت کے شعبے اہم مانے جاتے ہے کیونکہ ایک تعلیم یافتہ اور صحتمند معاشرہ ہی ترقی کر سکتا ہے۔ لیکن بلوچستان اس میں بھی سب سے پیچھے ہے۔ سب سے پہلے تعلیم کی بات کرتے ہیں۔ بلوچستان میں کسی بھی گورنمنٹ نے تعلیم کے لیے کوئی خاطرخواہ کام نہیں کیا، لیکن نیشنلسٹ گورنمنٹ کے آنے سے ایک امید پیدا ہوئی جب اس نے تعلیم کے بجٹ میں اضافہ کیا اور صوبے میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کی لیکن سب دعوے کے دعوے ہی رہے گے اور نچلے سطح پر کام ہی نہ ہو سکا۔ موثراقدام کا نہ ہونا، اقرباء پروری، نا اہل انتظامیہ اور کرپشن کی وجہ سے آج بھی سکولوں کی وہی حالات ہے۔ تعلیمی بجٹ 45 ارب ہونے کے باوجود سکولوں کے حالات وہی ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق 15 لاکھ کے قریب بچے سکول جانے سے محروم ہے اور جو جا رہے ہیں وہ بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔

وزیرتعلیم کے مطابق صوبے میں 900 گھوسٹ سکول، تقریباً 15000 گھوسٹ ٹیچرز ہے اور اس کے ساتھ 300000 بچوں کا نقلی اندراج ہے۔ لیکن اس کو ڈیٹیکٹ کرنے کے لیے حکومت کے پاس کوئی موثراقدام نہیں ہے اور اس مد میں حکومت کو ماہانہ کروڑوں کا نقصان ہو رہاہے۔ اور یہی مسئلہ ہیلتھ ڈپارٹمنٹ میں ہے جس میں ڈاکٹروں کی غیرحاضری، میرٹ کا نہ ہونا، ڈاکٹروں کا پرائیویٹ کلینک کی طرف زیادہ دھیان دینا جس سے لوگوں کا پرائیویٹ ہسپتالوں کی طرف جانا، ڈاکٹروں کا مختلف کمپنیوں سے معاہدہ کرنا جس کی وجہ سے ڈاکٹر حضرات زیادہ دوائیں دیتے ہے اور ساتھ ساتھ غیر رجسٹرڈ میڈیکل سٹورز اور نقلی دوائیوں کی وجہ سے لوگوں کو مختلف مشکلات درپیش ہے۔

اب آتے ہیں ان مسائل کے حل کی طرف۔ سب سے پہلے میرٹ سسٹم کو بحال کرنا، ٹیچرز کا کوالیفائیڈ ہونا۔ سلیبس کو ریوائز کرنا اور اس کے ساتھ پی آئی ٹی بی سے مدد لے لیں کیونکہ یہ ادارہ حکومت کے کہنے پر مختلف شعبوں میں مدد فراہم کرتا ہے، جس سے ہم بہت فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔ خاص کر غیرحاضری پر قابو پانا، غیر ضروری خرچ کی بچت مثلاً گھوسٹ سکولوں اور گھوسٹ ٹیچرز کا خاتمہ، کرپشن کا خاتمہ، سکولوں کی حالت زارصحیح بنانا اور علاقائی لوگوں کو شامل کرنا تاکہ وہ اپنے علاقے کے سکول سے مطمئن ہوں۔ اور صحت میں خاص کر ڈاکٹروں کی حاضری یقینی بنانا، ہسپتالوں میں سہولیات فراہم کرنا، نقلی ادوایات اور غیر رجسٹرڈ میڈیکل سٹورز کے خلاف کارروائی کرنا اور پولیو کے ٹیموں کو مانیٹر کرنا۔ اس نظام کو اپنانے سے ہم بہت حد تک اس مسئلے پر قابو پا سکتے ہے اور متوسط طبقے کو بھی معیاری تعلیم اور صحت کے مواقع فراہم کرسکتے ہیں۔ تنقید سے صرف نفرتیں بڑھ جاتی ہیں مسائل حل نہیں ہوتے اس کے بجائے اصلاحی تنقید ہونی چاہیں اور اس طرح ہم اپنی مشکلات میں کمی لا سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).