خان صاحب کا ہاتھ ستاروں کے گریبان میں


آج نہ جانے کیا دیکھ لیا ، کیا پڑھ لیا جو وہ شخص یاد آگیا جو ستاروں پر کمند ڈالنے کے بہانے ستاروں کا گریبان پکڑ لیا کرتا تھا ۔ بے تکلف دوست تھا ۔ ایک بار ملا تو بتایا کہ نفسیات کا مطالعہ کر رہا ہے دوسری بار ملا تو ہاتھ میں مبادیاتِ نفسیات نامی درسی کتاب تھی۔ نفسیات پر بات چل نکلی تو پوچھا کہ شعور اور لاشعور میں کیا فرق ہے ۔ ان کی اپنی نفسیات سے ہر ایک دوست واقف تھا ۔ لہٰذا جواب دینے سے قبل سوچنا پڑا کہ محض سوال پوچھنے کے لئے سوال پوچھ رہے ہیں یا پھر کوئی جواب بھی چاہیے ۔

 بلا کے ضدی ہیں۔ جس بات پر اڑ جاتے اس سے ہٹنا خود ان کے لئے مشکل ہوجاتا ۔ جو منہ سے نکل جاتی اسی کو سچ منوانے پر تل جاتے ۔ دو منزلہ عمارت کو چار منزلہ کہہ بیٹھتے تو ماننا پڑتا کہ باقی دو منزلوں نے ضرور سلمانی ٹوپی پہن رکھی ہوگی۔ ان سے مغز ماری کسی ذی شعور کا شیوہ نہ تھا اس لئے سوال سن کر ہمیں اپنے آپ سے سوال پوچھنا پڑا کہ انہیں جواب دیا جائے یا پھر بات ٹال دی جائے ۔

 سوچا دوبارہ پوچھیں گے تو بتا دیں گے اور انہوں نے فورا پوچھ لیا ۔

شعور اور لاشعور میں کیا فرق ہے ۔

چونکہ اس دور میں انٹرنیٹ اس قدر عام نہیں تھا اس لئے خود سے جواب دینے کی بجائے کمپیوٹر پر انکارٹا انسائیکلو پیڈیا کھولا اور ان کا سوال اس کے سرچ بکس میں ڈال دیا ۔ جواب میں فرائیڈ کی برفانی تودے والی مثال کی تصویر آئی تو سکون کا سانس لیا کہ مستند حوالہ مل گیا  اس لئے موصوف کوئی زیادہ چوں چراں نہیں کریں گے ۔ مثال دے کر سمجھانے لگے تو پہلے خوشگوار سا شائبہ ہوا کہ سمجھ رہے ہیں پھر حوصلہ مزید بڑھا ۔ اچھی طرح سمجھانے کی کوشش کی ، جب سمجھا چکے تو موصوف بدک گئے ۔

بکواس کرتا ہے فرائیڈ۔ لاشعور شعور سے کیسے بڑا ہوسکتا ہے؟ جب اس کا علم شعور کو ہوتا ہے کہ لاشعور بڑا ہے تو پھر بڑا تو وہ ہوا جسے پتہ چلتا ہے ناکہ وہ جو اسے بڑا محسوس ہو!

اس سے پہلے کہ میں جان چھڑانے کا کوئی طریقہ نکالتا شہر سے ایک پڑھے لکھے دوست آن پہنچے اور میں یہ مسئلہ ان کے گلے ڈال کر خود ان کے لئے چائے بنانے باورچی خانے میں جاگھسا ۔ باورچی خانہ اس بیٹھک کے عقب میں تھا جس میں نووارد دوست کو ان کے رحم و کرم پر چھوڑا آیا تھا جیسے کوئی روتے ہوئے محبوب کو پتن پر چھوڑ آتا ہے ۔

 چائے بنانے لگا تو کچھ دیر تک کوئی خاص آواز سنائی نہ دی لیکن پھر یوں لگا جیسے بیٹھک اُس ڈرم میں بدل گئی ہو جس میں مرغیاں بیچنے والے کئی مرغیاں ذبح کرکے بیک وقت پھینک دیتے ہیں ۔ ایسا شور اٹھا جیسے ذبح شدہ مرغیاں بلکہ شتر مرغ کبھی اس دیوار سے ٹکرا رہے ہیں تو کبھی اُس دیوار سے ۔

چائے کپوں میں ڈال کر جب بیٹھک میں دوباردہ داخل ہوا تو موصوف نووارد دوست کے سینے پر سوار ، مکہ ہوا میں لہرا تے ہوئے فرائیڈ کو ننگی گالی دینے کی فرمائش کررہے تھے ۔ انہیں سینے سے اتار کر گرم چائے پلا کر ٹھنڈا کیا گیا اور پھر ایسے ٹھنڈے ہوئے کہ کئی دن بعد تشریف لائے جب سر پہ نفسیات کے بھوت کی جگہ ٹی وی کا جادو چڑھ کر بول رہا تھا ۔ اُس روز جلدی میں تھے اور یہ بتا کر نکل گئے کہ شوٹ کے لئے جانا ہے ۔

یہ وہ دور تھا جب ملتان میں کسی نے مشہور اداکار توقیر ناصر کے نام پر ایک ٹی وی چینل کا ڈھونگ رچا رکھا تھا ۔ ہمارے دوست اس غائبانہ ٹی وی کے پروڈیوسر، شاعر، ڈرامہ نگار ، اداکار اور صدا کار ، کار ڈرائیور اور کیمرہ مین کی خدمات سر انجام دے رہے تھے اور اب ان کے ہاتھ میں کتاب نہیں ہمیشہ کیمرے اور سٹینڈ دیکھنے کو ملتے تھے ۔

ایک شام تشریف لائے تو ہم کمپیوٹر پر جیمز کیمرون کی فلم ٹائٹانک دیکھ رہے تھے ۔ خاموشی سے کیمرہ دیوار سے لگایا اور اچھے بچو ں کی طرح فلم دیکھنے لگے۔ کچھ دیر ساکن رہے ، پھر یوں لگا جیسے خارش کا شکار ہوں اور پھر اچانک چلا اٹھے ۔

فلم روکیے اور گذشتہ سین ایک بار پھر چلائیے ۔

حکم کی تکمیل ہوئی تو کہنے لگے روک دیجئے ۔ روک دی گئی تو موصوف نے بقدم خود لائٹ آن کی ۔ فلم کے ڈائیریکٹر کا نام پوچھ کر گرج دار لہجے میں اُ س کے خاندان کی چھوٹی بڑی عورتوں سے خفیہ مراسم کی خواہش کا اظہار کرنے گے ۔ یہ طوفان تھما تو گرج چمک کی وجہ یہ بتائی کہ فریم پر فریم غلط لگا رہا تھا ۔ کسی نے جرات کرکے کیمرون کو ان سے زیادہ تجربہ کار کہہ دیا تو کیمرون کا سار ا غصہ اس دوست پر نکالا اور خود بھی نکل گئے ۔ کچھ روز بعد پتہ چلا کہ ٹی وی چینل بند ہوچکا ہے اور موصوف کہیں ہارمونیم سیکھنے جاتے ہیں ۔ یہ سوچ کر دل بیٹھ سا گیا ۔ نفسیات اور کیمرہ ورک کی تو خیر تھی اب موسیقی کے ساتھ کیا ہوگا ؟

 اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا ۔ ایک دن تشریف لائے تو ہم مہدی حسن خان کی آواز میں پروین شاکر کی غزل کو بکو پھیل گئی بات شناسائی کی سن رہے تھے ۔

کرسی کی بجائے زمین پر بیٹھ گئے تو ہمیں یہ خوشگوار شائبہ لاحق ہوا کہ موسیقی نے سدھار دیا ہے ۔ وہ تو کیا صدیوں کے بگڑے ہووں کو ایک دو سچے سُر لگ جائیں تو سُدھر جائیں ۔ ابھی ہم یہ سوچ کر دل ہی دل میں خوش ہورہے تھے کہ انہوں نے وہی کچھ کیا جو کچھ فلم کے ساتھ کرچکے تھے ۔ ’خان صاحب راگ سے نکل رہے ہیں ۔ فلیٹ جا رہے ہیں ۔ طلبہ نواز کسی کام کا نہیں ‘ ۔

یہ بس چند مثالیں ہیں ۔ زندگی بھر انہوں نے جو بھی سیکھنے کی کوشش کی اس لئے نہ سیکھ پائے کہ چند دنوں میں نوری سالوں کے فاصلے طے کرنے کا دعویٰ کردیا ۔ ستاروں پر کمند نہیں ان کے گریبان میں ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی ۔ جب ہم قصبہ چھوڑ کر اسلام آباد منتقل ہوئے تو پتہ چلا کسی رُوحانی سلسلے کے ساتھ منسلک ہوگئے ہیں اور ہم اس خوف سے چند روز پہلے ہی ہجرت کر آئے کہ چند روز بعد جانے کیا ہونے دعویٰ کر بیٹھیں ۔

لیکن آج بیٹھے بٹھائے وہ کیوں یاد آگئے ہیں ۔ شاید یہ خبر پڑھنے کے بعد کہ خان صاحب نے کسی کو معرفت کے مسائل میں مولائے روم اور محی الدین ابن العربی سے بھی آگے پایا ہے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).