ڈرپوک لوگ اپنے بچوں کو ظلم کا شکار ہونے دیتے ہیں


تقریباً آدھے سے زیادہ ہال خالی تھا گنتی کے چند ہی والدین موجود تھے، یہ شہر کے ایک پرائیویٹ سکول میں بچوں کے جنسی اور جسمانی تحفظ پر ہونے والی کانفرنس کا آنکھوں دیکھا حال۔ پہچان فاونڈیشن کے تحت میں نے بحثیت استاد، سماجی کارکن اور ریسرچر کے بیسیوں کانفرنسیں کروائں، والدین، استاد اور سکول مالکان بمشکل تمام ہی دلچسپی ظاہر کرتے۔ بچوں کے جسمانی تحفظی اقدامات پر پہلا اعتراض بھی والدین کی طرف سے آتا ہے، ”آپ کیسے بچوں کو گود میں بیٹھنے سے منع کر سکتی ہیں“، ”جی نہیں ہمارا ملازم بہت پرانا ہے“، ”بچی کو چچا بہت زیادہ پیار کرتے ہیں“، ”مولوی صاحب کی ہر بات مانو“۔ ہم رشتوں کے تحفظ کے خوف سے بچے کا تحفظ داو پر لگا دیتے ہیں۔ سیکس ایجوکیشن کا نام سن کر ہی اعتراضات کی بوچھاڑ۔ دوسری جانب ہمارے اساتذہ ہیں جن کو کورس ختم کروانے، ٹیوشن سینٹر اور سکول مالکان کے پرشیر نے ایک مشین بنا دیا ہے۔ ایک بچہ کلاس میں کیوں خآموش بیٹھا ہے اس کا پڑھائی سے دل کیوں اچاٹ ہے، ان کو احساس نہیں۔ رہ گئے سکول مالکان تو ان کے نزدیک بچہ صرف ایک چیک ہے جو ہر مہینے کیش ہوتا ہے۔

جہاں تک حکومت کا تعلق ہے تو ہمارے ایک حکومتی ایم پی اے نے قصور پورنوگرافی کے تمام ملزمان کی پشت پناہی کی۔ تین سال قبل اس واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیا گیا، اس میں کمیشن ممبر ڈاکٹر نعیم ظفر ( صدر پہچان فاؤنڑیشن ) نے تجویز پیش کی کہ ایک بین الاقوامی کمیشن بنایئں، آزاد تحقیق ہو اور ہنگامی بنیادوں پر اقدامات ہوں، جس کو ہمارے صوبائی وزیر قانون نے صرف بدنامی ہو جانے کے ڈر سے مسترد کر دیا۔ قصور میں ایک سال میں آٹھ بچیوں کے ساتھ زیادتی اور قتل، مدرسوں میں جنسی زیادتی کا شکار بچے، کھیتوں، نالوں سے ملنے والی بچوں کی لاشیں، سڑک پر رکشہ ڈرائیور کی گود میں بیٹھے سکول جانے والے چھوٹے بچے، وین میں ہراساں بیٹھی بچیاں، رشتوں کے ہاتھوں پامال بچے کیونکہ ہم انسیسٹ ریپ کی بات کو حرام سمجھتے ہیں، مولوی صاحب کا شکار بچے، گھریلو ملازمین کے ہاتھوں چھیڑ خانی سہتے اور ڈرے ہوئے بچے اور مالِ مفت نما کمسن گھریلو ملازمائیں۔ یہ سب ہماری اجتماعی بے حسی کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ یہ کوڑے پر موجود لاش میری، آپ کی اور حکمرانوں کی ہے، بدبودار، بےحس اور مردہ۔

بیرونِ ممالک ٹیچنگ لائسنس کے لیے بچوں کے بنیادی حقوق کی ٹریننگ لازمی ہے، کسی بھی شبہ کی صورت میں استاد فوری رپورٹ کرتا ہے۔ بچوں کو بتایا جاتا ہے کہ ان کا جسم ان کی ملکیت ہے، ”نہ“ کہنا، بھاگ جانا اور پھر والدین/ٹیچر/ پولیس کو آ گاہ کرنے کی خود اعتمادی دی جاتی ہے۔ ہم اپنے بچے کی بات پر یقین ہی نہیں کرتے اور نہ کرنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ ہم صرف ڈرپوک ہیں، ڈرتے ہیں اپنی پسند کے خلاف ہونے والی ہر بات سے، ہر وہ بات جہاں ہمیں فرسودہ ذہنی خول اتارنے کی زحمت ہو، جہاں ہمیں رسم و رواج اور شعور کے بیچ میں فیصلہ کرنا ہو۔ جوائنٹ فیملی، پرانا دوست، گھریلو ملازم، قاری صاحب اور ٹافی دیتے انکل، ان سب سے زیادہ اہم آپ کا بچہ ہے۔

خدارا ہمارے بچوں کےلیے جنسی اور جسمانی تحفظ کی تعلیم کو لازمی قرار دیں، اساتذہ اور والدین کی ٹریننگ کے لیے ملک گیر پروگرام ہو۔ ایک چائلڈ ہیلپ لائن قائم ہو تاکہ ایسی تمام شکایات پر کوئی ایکشن ہو۔ ہماری کوتاہی، بے انصافی اور کوتاہیاں عذاب بن کر ہمارے بچوں پر نازل ہیں۔ جرم کو نہ روکنا ہی جرم کو بڑھا دیتا ہے، بچے سب کے سانجھے ہوتے ہیں، ہر بچے کا خیال کریں۔ اب نہیں تو کب کریں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).