اسلام آباد میں ایک نیا سونامی


\"usman

سنیوں کا طوفان اٹھا ہے

اب گستاخوں کی خیر نہیں

اور لبیک یا رسول اللہ کے نعروں کے ساتھ خود کو عاشقان رسول کہلانے والے ہر رکاوٹ عبور کرتے ہوئے پارلیمنٹ ہاؤس کی دہلیز پر پہنچ گئے۔ بلامبالغہ ان گنت خلقت ہے، لاکھوں انسان مولویوں کے اشاروں پر روبوٹس کی طرح عمل کررہے ہیں، سب کو ممتاز قادری بننا ہے۔ ممتاز قادری بننے کے لئے شہر شہر گستاخ تلاش کئے جارہے ہیں، چوکوں پہ، شاہراہوں پہ، ائیرپورٹوں پر بس گستاخوں کی ڈھونڈ مچی ہوئی ہے، اوپر نیچے، دائیں بائیں.

کہیں امیر جماعت اسلامی سراج الحق نظر نہیں آرہے، مجھے ان سے پوچھنا ہے کہ فیصلہ تو جنازوں نے کردیا تھا، اب یہ کیا ہورہا ہے؟ رحمت اللعالمین کے ماننے والے غیظ و غضب کا شکار ہیں، بھنویں تنی ہوئی ہیں، پیشانی پر بل ہیں، زبان سے گالیاں نکل رہی ہیں، عاشقوں کی آستینیں چڑھی ہوئی ہیں، پولیس کو کفار مکہ سمجھ کے مُکّے لہرائے جارہے ہیں۔ امن پسند بریلویوں کا یہ رنگ و روپ دیکھ کر دیوبندی بھی حیران ہیں کہ یہ تو ہم سے بھی دو ہاتھ آگے نکلے! دیوبندی صرف جنازے میں شریک ہوئے تھے، چہلم پر اتحاد شاید اس لئے پارہ پارہ ہوگیا کہ دیوبندی چہلم کو نہیں مانتے۔ سنیوں کا طوفان 2014 میں سونامی کے طوفان کو ملنے والی کوریج کی طرز پر میڈیا کی توجہ کا متقاضی ہے مگر اس بار میڈیا کا موڈ نہیں ہے. سونامی کی طرح سنیوں کا طوفان بھی پارلیمنٹ ہاؤس کو فتح کرنا چاہتا ہے. سمجھ نہیں آتا کہ ہر بار نزلہ جمہوریت کی علامت پارلیمان پر کیوں گرتا ہے.

دلّی اتنی بار نہیں لٹا ہوگا، جتنی بار پاکستان میں پارلیمنٹ کا تقدس لٹ چکا ہے پارلیمنٹ نہ ہوئی غریب کی جورو ہوگئی خیر ہمیں کیا. سب مل کر بولو گستاخ رسول کی ایک ہی سزا سر تن سے جدا، سر تن سے جدا. ہاں، اس نعرے کو لگانے کے بعد اپنے اپنے سر جھکادیں، ہم میں کون گستاخ ہے اور کون نہیں، یہ فیصلہ اب جنازے والے کریں گے ممتاز قادری کو ہیرو بنانے والو!

\"bomb2\"

اب گلی گلی ممتاز قادری پیدا ہوں گے جنہیں کسی کو بھی گستاخ قرار دے کر جان سے ماردینے کی جلدی ہوگی. جب ہیرو ہوتا ہے تو اس کے فالورز بھی ہوتے ہیں اور فالورز کا کام تو اپنے ہیرو کی نقل کرنا ہے. جنید جمشید پر حملہ کرنے والا کراچی کا اختر منشی ایک عام سا تاجر ہے. دائیں بازو کی تحریک انصاف کا شیدائی اور ممتاز قادری کی پھانسی پر رنجیدہ ایک عام مذہبی انسان اختر منشی کے جذبات بھی اتنے برانگیختہ ہوگئے کہ وہ حملہ آور بن گیا.

مجرم اختر منشی نہیں ہے، مجرم یہ معاشرہ ہے، جس نے ممتاز قادری کو ایک روشن مثال بنایا. اب بھی اپنی اصلاح کرلیں، انتہاپسندی سے باز آجائیں ورنہ خوف ناک صورت حال آپ کی منتظر ہے. اس طرز کے حملے بڑھ جائیں گے اور ان کو روکنا کسی کے اختیار میں نہیں ہوگا.

ریاستی قانون کی موجودگی میں خود ہی کسی کو گستاخ قرار دے کر فیصلہ سنادینے کی روایت اسلام کی نہیں ہے. اختر منشی کے عمل کو مسلکی تعصب کا نتیجہ قرار دے کر اس کی سنگینی کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا. معاملہ مسلک اور عقیدے سے بہت آگے نکل چکا ہے انتہاپسندی کو ایک ہیرو مل چکا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
5 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments