ماتم یک شہر آرزو کیجئے؟


ننھی بچی نے بہت بڑا جرم کیا۔ وہ ایسے معاشرے میں لڑکی پیدا ہوئی جہاں وحشی اور جنسی جنونی کم سن لڑکوں بلکہ جانوروں کو بھی نہیں چھوڑتے۔ وہ ایک ایسے معاشرے میں پیدا ہوئی جہاں دوسروں کی بہنوں بیٹیوں کو تفریح کا سامان اور جنسی لذت فراہم کرنے والی مشین سمجھا جاتا ہے۔ پھر وہی ہُوا جو صرف رپورٹ شدہ واقعات کے حساب سے اس ملک میں روزانہ 14 بچوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ سات سال کی عمر میں جنسی بربریت کے بعد بہیمانہ قتل کر کے کچرے میں پھینک دیا گیا کیونکہ اس معاشرے کی روایت ہے کہ یہ کچرے کو ادھر اُدھر نہیں بلکہ کچرے کی مخصوص جگہ پر ہی پھینکتے ہیں پھر چاہے وہ کچرہ نوزائیدہ ہو یا سات آٹھ سال پرانا۔ پھر یہ خبر میڈیا کی برقی سکرینوں پر نمودار ہوئی اور ہر دل خون کے آنسو رونے لگا۔ ہر روح تلملا اٹھی۔ کچھ گھنٹوں کے لئے یوں لگا کہ جیسے ایسے واقعات کے عادی شہریوں میں یکلخت تبدیلی نے جنم لے لیا ہے۔ اب یہاں سب یکسو ہو کر پوری معاشرت بدل کر رکھ دیں گے۔ وہ مناظر بہت حوصلہ افزا تھے۔

لیکن چند گھنٹوں میں ہی معاملات اس طرح سے رنگ بدلنا شروع ہوئے کہ سمجھنا مشکل ہو گیا کہ اس ننھی پری کے ساتھ ہونے والی بربریت کا ماتم کرنا ہے یا پھر مزید مردہ ہوتے احساس کا جو اپنا اپنا سامان بیچنے کے چکر میں اُس بچی سے اُس سے بھی بڑی زیادتی کر رہا ہے جو اُ س جنسی جنونی اور قاتل نے کی ہے۔

یا پھر ہم اُن سیاستدانوں کا ماتم کریں جن کے کانوں پر ایسے واقعات سے کبھی جوں تک نہیں رینگی لیکن وہ اس ننھی پری کے خون سے اپنی سیاست کو رنگین بنانے جیسی گھناؤنی حرکت کر رہے ہیں۔ جو اُس کم سن بچی کے معصوم خون کو اپنے حریفوں پر ڈال کر اپنے اپنے مقاصد نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یا اُن کا ماتم کریں کہ جو اس صورت حال میں تدبیر اور اسباب فراہم کرنے کی بجائے معاشرے میں اشتعال انگیزی پھیلا کر انارکی کی طرف لے جانے کے در پے ہیں۔ یا اُن کا ماتم کریں کہ جو عمرہ پر گئے والدین کی اُس بچی کی میّت پر جو کہ گھر سے کلامِ پاک کا درس لینے نکلی تھی اپنا روایتی راگ الاپ رہے ہیں کہ ایسے واقعات مذہب سے دوری اور گمراہی کے باعث ہو رہے ہیں۔ یا اُن کا ماتم کریں کہ جو زمینی حقائق کی بات کرنے یا ان کی طرف توجہ دلانے والوں کو غدارِ وطن اور واجب القتل سمجھتے ہیں۔ یا اُن کا ماتم کریں جو تدبیر کو گناہ سمجھتے ہیں اور بڑے سے بڑے سانحے کو صرف اتنا کہہ کر تاریخ کی ٹوکری میں ڈال دیتے ہیں کہ مالک کی مرضی یوںہی تھی، بس پروردگار رحم کرے۔

یا اُن کا ماتم کریں کہ جو سب سے پہلے کی دوڑ میں حقائق تک کو توڑ مروڑ لینا بھی اپنا حق سمجھتے ہوں اور یک طرفہ آراءنشر کرکر کے معاشرے میں باہمی نفرت اور غیر یقینیت کو پھیلا نا خدمت سمجھتے ہیں۔ یا اُن کا ماتم کریں کہ جو نوٹس لینے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ میں کھڑے ہوں۔ اور نوٹس کے الفاظ اور اس کی اشاعت کا انداز ایسا ہو گویا تازہ تازہ محمد بن قاسم ارضِ پاک پر اترا ہے۔ اب نصابی تاریخ کی طرح امن و انصاف گلیوں میں رقص کریں گے۔  یا اُن کا ماتم کریں جن کے اپنے زیرِ انتظام علاقوں میں برہنہ لڑکی کو پورے گاؤں میں گھمایا جائے اور وہ ملزمان کے حق میں بیانات دیتے رہے ہوں مگر یہاں وہ انصاف کے سب سے بڑے متقاضی کے طور پر صفِ اوّل میں کھڑے ہوں۔ یا اُن کا ماتم کریں کہ جنہوں نے اسمبلیوں میں عورتوں پر تشدد کے خلاف مسودہ قانون کو مذہب پر حملہ قرار دیا لیکن یہاں وہ بچیوں کے حقوق اور اس بچی سے ہونے والی بربریت پر صلاح الدین ایوبی بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔

یا اُن کا ماتم کریں کہ جن کے لئے یہ سانحہ قیامتِ صغریٰ سے کم نہیں ہے وہ انصاف پانے کی بجائے متعین افسروں کے مذاہب و مسالک کے بارے زیادہ فکر مند ہو کر یہ بھول رہے ہوں کہ متعلقہ شخص یا اُس کا عقیدہ تحقیق نہیں کرے گا بلکہ وہ عہدہ تحقیق یا تفتیش کرے گا جس پر مذکورہ شخص متعین ہے۔ یا اُس کثیرآبادی کا ماتم کریں جو ایسے مقامی سانحات میں بھی یہود و ہنود کی سازش ڈھونڈنے کو ایمانی لازمہ سمجھتے ہیں۔

یا اُن کا ماتم کریں کہ جو روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے ایسے واقعات کے باوجود کوئی ٹھوس حکمتِ عملی تیار کرنے اور جرائم کا سدِ باب کرنے کے بجائے ڈنگ ٹپاؤ قسم کی پالیسیاں اور کام پر لگانے والی توانائی اپنے سیاسی اور محکمانہ دفاع پر صرف کرتے ہیں۔

یا اُن کا ماتم کریں کہ جو آج بے حد غمگین ہیں لیکن کل یا زیادہ سے زیادہ پرسوں سے وہ پھر گلیوں اور بازاروں میں لونڈے لپاڑوں کو راہ چلتی عورتوں کو چھیڑتے دیکھ کرمداخلت کرنے اور ان کی سر زنش کرنے کی بجائے زیرِ لب مسکرا رہے ہوں گے۔

یا اُن کا ماتم کریں کہ جو سارا دن دوسروں کی بہنوں بیٹیوں کو تاڑنے، چھیڑنے، آوازے کسنے اور حریص نظروں سے دیکھنے کے بعد اہلِ خانہ یا کسی محفل میں یہ دعا مانگتے پائے جاتے ہیں کہ اللہ سب کی عزتوں کو محفوظ رکھے۔ یا اُس تعلیم اور تربیت کا ماتم کریں کہ جو انتہائی بچپن میں ہی افراد کو بطور افراد پروان چڑھانے کے بجائے انہیں مرد اور عورت کے خانوں میں بانٹ کر حقوق و فرائض کی بندر بانٹ کرنے کو تہذیب اور تمدن قرار دے۔

یا اُس پورے معاشرے کا ماتم کریں کہ جو یہ نہیں سمجھ پا رہا کہ زیادتی، بربریت کے بعد قتل تو وہ معصوم بچی ہوئی ہے مگر کچرے پر جو لاش ملی ہے وہ پورے معاشرے کی لاش ہے۔ معلوم ہوتا ہے ہم ایک بار پھر ماتم یک شہر آرزو کے مقام پر پہنچ گئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).