میں زینب امین ہوں ، میڈیا مجھ سے بات کرے….


ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو کہ ہم کو تتلیوں کے خوشبووں کے دیس جانا ہے۔ بابا کی رانی ہوں، آنکھوں کا پانی ہوں، بہہ جانا ہے جسے, دو پل کی کہانی ہوں۔ یہ دو نغمے میڈیا نے قصور کی سات سالہ زینب کے لئے خوب استعمال کئے۔ وہ کپڑے جو اغواء کے روز اس نے پہن رکھے تھے، وہ ہوم ورک جو اس روز اس نے کر رکھا تھا، وہ تصویر جو ایک روز قبل اس کی بہن نے خاص طور سے اپنی بہن کی فرمائش پر بنائی تھی ایک دکھی رپورٹ کے لئے کافی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ کوڑے کے ڈھیر سے ملی لاش، درندہ صفت بھیڑئیے کے ساتھ بااعتماد انداز سے قدم اٹھاتی زینب کی سی سی ٹی وی فوٹیج ، جنازے کے شاٹس اور پھر مار دھاڑ پر تشدد مظاہرے بھی رپورٹس میں شامل ہوئے۔ وقت گزر گیا مظاہرے اور لوگوں کا غم و غصہ تھمنے لگا انھیں بھی جھوٹی تسلیوں کی عادت جو ہوچکی۔ ایک احمدی پولیس افسر کو ننھی زینب کے والد کے اعتراض کرنے پر ہٹا کر ایک انتہائی باکردار، خوش گفتار، نیک پرہیزگار شخص جسے دنیا رانا ثناءاللہ کے نام سے دنیا جانتی ہے اسے کمیٹی کا سربراہ بنا دیا گیا۔ قصور شہر کی بند دکانیں کھلنے لگیں، بچے ڈرے سہمے ماں باپ کا ہاتھ پکڑے اسکول بھی جانے لگے، گھر کے دروازے اب بند رہنے لگے، بزرگوں نے باہر گھروں کے سامنے بیٹھنے کو معمول بنانے کا فیصلہ بھی لے لیا۔ لیکن ایک دکان نے اس دوران اور تاحال خوب مال بیچا خوب کمایا اور وہ دکان تھی میڈیا کی۔

کچھ پروڈیوسرز نے اپنے لکھے اور بنائے گئے پیکجز کی تشہیر کی اور کہا کہ ہم نے جو اسکرپٹ لکھا اس نے کئی آنکھیں اشک بار کردیں۔ کسی نے کمنٹ کیا اس سے بہتر بھی ہوسکتا تھا۔ کسی نے میری طرح احتجاج کیا۔ اگلے روز کراچی کی ایک چار سالہ بچی کے ساتھ زیادتی کی کچی پکی خبر دکان کو ملی تو اس نے بناءتحقیق و تصدیق کے نیا مال سمجھ کر خوب آوازیں لگا لگا کر بیچا۔ کئی سوشل میڈیا کے سپاہیوں نے بچی کی تصویر بھی جاری کی جس میں وہ ابراہیم حیدری کے اسکول میں ہونے والی توڑ پھوڑ اور احتجاج میں ماں کے کندھے سے ڈری سہمی لگی ہے تصویر کے ساتھ بد بختوں نے لکھا کہ اس بچی کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ اللہ ہم سب کی بچیوں کو حفظ و امان میں رکھے اور اس کے نیچے شئیرنگ کی برمار شروع ہو گئی۔ مجھ ناچیز نے لکھا محترم اس بچی کے ساتھ زیادتی نہیں ہوئی اور خدارا اس بچی کی تصویر نہ لگائیں۔ یہ تصویر ٹی وی آرٹسٹ نے اپنے فیس بک پر پوسٹ کی تھی جو مختلف احتجاج میں بھی شریک رہے لیکن وہ بھی اخلاقیات کا دامن دوسروں کی طرح چھوڑ گئے گلہ کیا کیجئے سب ہی ایسا کر رہے ہیں۔ اس سے قبل لاہور کی معروف اداکارہ نے اپنے ٹوئیٹر آکاونٹ پر دو تصاویر جاری کیں ایک میں بلوائی نعرے بازی کرتے دکھائی دے رہے ہیں دوسری تصویر میں ایک آدمی ایک بچی کو گود میں لیکر بھاگ رہا ہے۔ محترمہ جن کا صحافت سے دور دور تک واسطہ نہیں لکھتی ہیں کہ گجرانوالہ میں احمدی خاندان کے گھر پر حملہ کرنے والے اس وقت خوشی مناتے ہوئے جب اس آٹھ سالہ بچی کو زندہ آگ میں ڈالا جارہا تھا۔ یہ ہماری بھی بیٹی تھی، یہ بھی تو زینب ہی تھی، میں شرمندہ ہوں، معافی مانگتی ہوں۔

میں نے انھیں ان ہی کی پوسٹ کردہ تصاویر دوبارہ پوسٹ کی اور بتایا محترمہ یہ 2014 کا واقعہ ہے جو ڈان اخبار میں شائع ہوا تھا۔ اور یہ آدمی بچی کو آگ میں جھونکنے نہیں، جلتے ہوئے مکان سے باحفاظت نکال کر محفوظ مقام کی جانب لے کر بھاگ رہا ہے۔ خدارا اس موقع پر مذہبی جذبات کا استحصال نہ کریں، جو آپ بتا رہی ہیں وہ حقیقت نہیں۔

جس روز زینب کا واقعہ ہوا اسی روز میری والدہ اور میں خبروں میں اس بچی سے متعلق رپورٹس دیکھ رہے تھے بیک وقت تین چینلز نے رپورٹس کے پس منظر میں یہ گانے لگا رکھے تھے۔ میری والدہ اپنا ضبط کھو بیٹھیں اور انھوں نے میرے ہاتھ سے ریمورٹ چھین کر نو بجے کے تمام بلیٹن مجھے ایک ایک کر کے دکھانے شروع کئے اور پھر مجھے عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کردیا۔ مجھ سے پوچھا گیا کہ کیا تم سب تربیت سے عاری ہو؟ کیا میڈیا میں نوکری دیتے وقت تم سب کو یہ سبق پڑھایا جاتا ہے کہ کسی کی عزت کچھ نہیں ہوتی بس خبر ہی سب ہوتی ہے؟ کیا تم سب کو نہیں معلوم کہ ایک گھرانہ جس کے ساتھ ظلم کی انتہا ہوگئی اس خاندان کے دیگر افراد پر کیا گزرے گی جب وہ یہ سب دیکھیں گے؟ کیا تم میڈیا والے لوگوں کی عفت اور انکے آنسو بیچ کر آرام سے سو جاتے ہو؟ کیا تم لوگوں کو رحم نہیں آتا کہ ایک معصوم بچی جو اس ظالم دنیا سے چلی گئی اس کے گھر کے سامنے ڈیرے جمانے اور لائیو آنے میں تم لوگوں کی تو ریٹنگ آجائے گی پر اس گھر میں محصور ہونے والوں پر کیا گزرتی ہوگی؟ کیا زینب کے باقی بہنوں نے کبھی بڑا نہیں ہونا؟ اگر وہ قصور چھوڑ کر کہیں اور بھی جابسے تو لوگ انھیں پہنچانیں نہیں تم لوگوں نے تو اتنی بھی گنجائش نہیں چھوڑی؟ کیا اس بچی کی ماں اور بہنوں کے سامنے مائیک رکھتے ہوئے تم لوگوں کو حیا نہیں آتی؟ کون ہو تم لوگ؟ مجھے لگتا ہے کہ تم سب میں اور اس حیوان میں کوئی فرق نہیں جس نے یہ ظلم کیا۔ وہ سوالات کئے جا رہی تھیں اور میں خاموشی سے سنے جارہی تھی۔ جب وہ اپنی بات مکمل کر چکیں اور ٹی وی بند کردیا تو میں نے ان سے کہا کہ مجھ سے جہاں تک ممکن ہورہا ہے ماں میں لڑ رہی ہوں۔ میں بول رہی ہوں لیکن خدا نہ کرے کہ ایسا کچھ ہو میں یہ سب نہیں کروں گی جو باقی سب کر رہے ہیں۔ لیکن وہ مطمئن نہ تھیں ۔ ان کی آنکھیں نم تھیں اور ان میں شدید غصہ تھا پہلی بار ایسا لگا کہ ان کی آنکھوں میں کراہت تھی۔ بحث ہو نہیں سکتی تھی سو وہاں سے اٹھنا ہی بہتر تھا۔ اندر کمرے میں گئی تو میری چھوٹی بہن نے مجھے مخاطب کیا باجی ویسے یہ سب جو میڈیا کر رہا ہے بہت افسوسناک ہے سانحہ، ظلم یا مقصد کو زندہ رکھنے کے سو طریقے ہوتے ہیں لیکن یہ سب تو سمجھ سے باہر ہے پھر بھی میڈیا روتا ہے کہ وہ آزاد نہیں بڑے لوگوں کی خبر دیتے یا ان کے خلاف بولتے ہوئے ان کے پر جلتے ہیں وہاں اشتہارات، مراعات، سیاسی تعلقات اور تحائف یاد آجاتے ہیں اور ایسے نازک موضوع اور معاملات کو یوں بے حسی اور بے رحمی سے ڈیل کیا جا رہا ہے اور پھر اس نے مجھے بی بی سی اور الجزیرہ کی رپورٹس دکھائیں جو ہمارے چینلز کی رپورٹس سے بہت مختلف تھی۔

”آپ جب حرم پاک میں تھے اور یہ خبر آپ کو ملی تو واپسی کا سفر کیسے گزرا”؟ ”اپنی بیٹی کے حوالے سے کچھ بتائیں؟ ” ”بیٹا آپ اپنی بہن کے حوالے سے کچھ بتائیں؟ ” ”بیٹا تم تو اس کے کزن ہو ناں اس روز کیا ہوا تھا وہ تو تمہارے ساتھ قرآن پاک پڑھنے جاتی تھی”۔۔۔ ناظرین میں اس وقت زینب کے گھر کے باہر موجود ہوں، جی میں اس وقت زینب کے گھر کے اندر موجود ہوں، جی میں اس وقت ان کی والدہ کے ساتھ موجود ہوں، جی ہم نے سب سے پہلے بچی کے کزن جو اسی کا ہم عمر ہے اس سے بات کی ہے۔ اس رات یہ آوازیں مجھے نیند آنے سے قبل کانوں میں بار بار سنائی دیں۔ پھر یہی سوچتے ہوئے آنکھ لگ گئی اور میں نے خواب میں دیکھا۔ دن بارہ بجے کا بلیٹن ہے ہم کوئی بارہ پندرہ رپورٹر ہیں۔ سینٹرل ڈیسک سے ہمیں کال موصول ہوچکی اور ہمارے کان میں لگی ہینڈز فری میں ہم بلیٹن سن رہے ہیں، پروڈیوسر کی آواز آئی سدرہ اس رپورٹ کے بعد آپ کا لائیو بیپر ہے۔ آپ اکیلی کھڑی ہیں کوشش کریں کہ ان کے گھر کے کسی فرد سے بات کریں آپ کے پاس پانچ منٹ ہیں۔ بہن سے بات ہوجائے تو بہت ہی اچھا ہے۔ سب رپورٹرز مایوسی سے کھڑے ہیں زینب کے گھر کا دروازہ بند ہے آج وہ کسی سے بات نہیں کرنا چاہ رہے۔ ساتھ کھڑا رپورٹر کہتا ہے کہ آج کیا کہیں؟ کچھ ہے ہی نہیں کہنے کو۔ معمولات زندگی بحال ہوگیا۔ کمیٹی بھی بن گئی، اب تو انکے گھر آنے والوں کا رش بھی نہیں ۔ میں نے گھڑی دیکھی تو تین منٹ باقی رہتے تھے ۔ پھر پروڈیو سر کی آواز آئی کچھ بات بنی؟ میں نے جواب دیا نہیں وہ لوگ بات نہیں کرنا چاہتے تو جواب آیا عجیب لوگ ہیں بات کریں گے تو بیٹی کو انصاف ملے گا ناں۔ کوشش کرو منت کرو سماجت کرو لیکن بات گھر کے فرد سے ہی ہونی چائیے۔

اسی اثناءمیں مجھے ایسا محسوس ہوا کہ کسی نے پیچھے سے میری قمیض کو کھینچا ہے میں نے مڑ کر دیکھا تو زینب کھڑی تھی میں حیران ہی تھی کہ اس نے کہا باجی مجھ سے بات کر لیں۔ میرے گھر والوں کو تنگ نہ کریں انھیں تکلیف ہوتی ہے۔ میں کبھی نہ آتی لیکن میری بہنیں امی بہت روتی ہیں جب آپ لوگ بات کر کے چلے جاتے ہو۔ آپ کو ایک بات بتاوں! میری بہن نے جس روز یہ کہا ناں کہ اسے میرے مرنے کی تکلیف سے زیادہ اس بات کا رنج ہے کہ میرے معصوم وجود کو کتنی اذیت دی گئی اور ظلم کیا گیا ۔ بس میں تب سے بے چین ہوں۔ میں جانے ہی والی تھی تتلیوں اور جگنووں کے دیس کہ پلٹ آئی بہت روکا مجھے لے جانے والوں نے لیکن میں نے اللہ پاک کو عرضی بھیجی کہ اب رہنا تو وہیں ہے پر میں یہ کام تو کر آوں شاید میری سن لی جائے۔ ان کے آنسو اور بے بسی مجھے روز اسی تکلیف سے گزارتی ہے جیسے اس روز میں گزری تھی۔ جو پوچھنا ہے مجھ سے پوچھ لیں پر آج کے بعد میرے گھر نہ آئے گا وہ ہاتھ جوڑے کھڑی تھی۔ ہم سب رپورٹرز کے ساتھ ایک نہیں کئی زینب کھڑی تھیں تاکہ کسی کو مسنگ کی ای میل موصول نہ ہو کسی کو اس بار ڈیسک سے جھڑکیاں نہ پڑیں کہ سدرہ سے زینب نے بات کرلی تو تم سے کیوں نہ کی اس نے ہم سب کی مشکل آسان کردی ۔ اتنے میں اینکر نے سوال کیا اور میں نے کہنا شروع کیا میں اس وقت بھلے شاہ کے قصور کی بے قصور زینب کے ساتھ موجود ہوں اس سے بہتر کون بتائے گا کہ اس کے ساتھ کیا ظلم ہوا کیسے ہوا؟ کس نے کیا اور کیوں کیا ؟ جی زینب 4 جنوری کو کیا ہوا تھا؟۔ سب رپورٹر یہی بول رہے تھے۔ کیمرا مین فریم سیٹ کرتے ہوئے رو رہے تھے۔ اور کان میں آواز آرہی تھی ہم اپنے رپورٹر سے ایک بار پھر سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ابھی وزیر اعلی شہباز شریف میڈیا سے بات کر رہے ہیں آپ کو براہ راست وہیں لئے چلتے ہیں۔ پروڈیوسر چیخ رہا تھا کیا بولے جارہی ہو؟ کیا پاگل ہو گئی ہو؟

صبح فجر کے وقت جب اس خوفناک خواب سے میں بیدار ہوئی تو پسینے سے شرابور تھی سامنے سائیڈ بورڈ پر رکھے ڈھیروں تصاویر کے فریم پر نظر پڑی تو لگا جیسے زینب کی تصویر ہر فریم میں ہو اور پوچھ رہی ہو کہ کیا ہوا؟ تکلیف ہوئی یہ تو کچھ بھی نہیں ۔ سوچو اس سے کہیں زیادہ میرے گھر والوں کو اذیت ہوتی ہے۔

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar