لاہور لہولہان۔ ضبط کے عالم میں ایک بے ربط تحریر


 \"raziآج بھی لاشوں کی گنتی کا دن ہے۔ کتنے افراد لقمہ اجل بنے، کتنے زخمی ہوئے، کافی دیر سے یہی لہورنگ مناظر دیکھ رہا ہوں۔ مرنے والوں کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ہسپتالوں میں زخمیوں کے لئے جگہ کم پڑ چکی ہے۔ چینلز پر چیخ وپکار سنائی دے رہی ہے۔ نشانہ ایک بار پھر ہنستے کھیلتے لوگوں کو بنایا گیا۔ نشانہ ایک بار پھر عورتوں اوربچوں کو بنایا گیا۔ نشانہ لاہور کو بنایا گیا۔ نشانہ پاکستان کو بنایا گیا۔ خودکش بمبار اتوار کی شام اس وقت گلشن اقبال پارک پہنچا جب لوگوں کی بڑی تعداد تفریح کے لئے وہاں موجودتھی۔ یہ لوگ چھٹی کے دن گھر سے نکلے تھے ۔ ہنسنے کے لئے، چھٹی کا لطف اٹھانے کے لئے لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ اس معاشرے میں سب سے بڑی تفریح موت ہی بن چکی ہے۔ سو موت نے وہاں قہقہہ لگایا، جنت کا ایک متلاشی اپنے جسم پر بارود باندھ کر وہاں پہنچا اور سینکڑوں افراد کو لہو رنگ کر گیا۔ دھماکا ایک ایسے ماحول میں ہوا جب ہم نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نام نہاد کامیابی کے دعوے کررہے ہیں۔ ہر دھماکے کی طرح اور دہشت گردی کی ہر واردات کی طرح اس سانحے کے بعد بھی بہت سے سوالات زیربحث آئیں گے۔ بہت سی کڑیاں ملائی جائیں گی، بہت سے مفروضوں پر بات ہوگی لیکن حقائق سے نظریں چرانے کا عمل جاری رہے گا۔

بہت آسان ہوگا کہ ہم یہ کہہ دیں کہ یہ دھماکہ بلوچستان سے بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے حاضر سروس افسر کی گرفتاری کا ردعمل ہے جسے بعض اخبارات ’را کا ایجنٹ‘ بھی نہیں لکھ سکے تھے ۔ تفتیشی ادارے اس کی کڑیاں سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کی پھانسی سے بھی جوڑ سکتے ہیں کہ دھماکہ عین اس روز ہوا جب راولپنڈی میں ممتاز قادری کے چاہنے والے اس کا چہلم منا رہے تھے۔ آپ یہ نہ سمجھیں کہ ہم تفتیشی اداروں یا ایجنسیوں کی تفتیش پر اثراندازہونے کی کوشش کررہے ہیں ہم تو صرف آپ کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہمارے ہاں غیرمعمولی واقعات اورحادثات کو بھی معمول کی کارروائیوں کی نذر کر دیا جاتا ہے۔ کچھ بیانات اب قوم کا حوصلہ بڑھانے کے لئے جاری کیے جائیں گے۔ قوم کو بتایا جائے گا کہ ہم دشمن کی بزدلانہ کارروائیوں سے خوفزدہ نہیں ہوں گے۔ ہمیں حوصلہ دیا جائے گا کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔ دشمن اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے ۔ ہماری قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی اور دہشت گرد اب بچ نہیں سکیں گے۔ اب سرچ آپریشن ہوں گے ۔ بریفنگز ہوں گی۔ اوراس کے بعد کسی روز معلوم ہوگا کہ گلشن اقبال لاہور میں ہونے والے دھماکے کا ماسٹر مائنڈ فلاں جگہ سے گرفتار کر لیا گیا اور پھر کسی روز وہ جیل جاتے یا آتے ہوئے اپنے ساتھیوں سمیت کسی ویران جگہ پر پولیس مقابلے میں مارا جائے گا۔ قاتل اپنے انجام کو پہنچے گا لیکن ہمارا انجام کیا ہونا ہے ہم نے موت کا کھیل کب تک دیکھنا ہے اس سوال کا جواب ہم میں سے کسی کے پاس نہیں۔

سکرین پر خوفزدہ عورتیں، چیخیں مارتی مائیں، زخمی بچے بار بار دکھائے جا رہے ہیں۔ موت اس وقت پوری توانائی کے ساتھ اپنے تمام رنگ دکھا رہی ہے اور خوشی کی بات یہ ہے کہ آئی ایس پی آر نے اطلاع دی ہے کہ مسلح افواج کے ڈاکٹرصاحبان بھی زخمیوں کی جان بچانے کے لئے ہنگامی طورپر ہسپتالوں میں پہنچ گئے ہیں۔ یہ کیا ہوا؟ میں دکھ کے لمحوں میں آپ کو خوشی کی بات سنانے بیٹھ گیا۔ آپ میری ذہنی حالت کا بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں ۔ ٹی وی بند کرنے کے باوجود لہورنگ مناظر میری آنکھوں کے سامنے ہیں۔ ضبط کی انتہا ہوگئی۔ ضبط کے اس عالم میں ربط کہاں سے لاﺅں۔ یہی چند بے ربط جملے پرسہ سمجھ کر قبول کر لیجئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments