پیراڈائم شفٹ کی ضرورت


میں آپ لوگوں کے سامنے ملکی صورتحال کو سامنے رکھ رہا ہوں۔ پھر آپ لوگ خود فیصلہ کریں کہ پاکستان کو ایک نئے پیراڈائم کی ضرورت ہے یا نہیں؟ اور کیا اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی راستہ ہے؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اس سال کے پہلے دن کی پہلی ٹویٹ جس نے ہر پاکسنانی کو تشویش میں مبتلا کیا ہے اور جس کی وجہ سے حالات بہت تیزی سے خراب ہو رہے ہیں اور آئندہ مزید خراب ہونے کی طرف جا رہے ہیں۔ اور کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ کل کیا ہوگا اور دس دن بعد کیا ہوگا؟ ملک کی اندورنی صورت حال میں حافظ سعید کے مریدکے سنٹر کو حکومت نے اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے۔ اور اسے بے دخل کردیا ہے اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ یہ سرجیکل سٹرائیک کی وجہ سے کیا ہے یا پالیسی کی تبدیلی کی وجہ سے ہے۔ بہرحال اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ سرجیکل سٹرائیک کی وجہ سے ہے جو کہ انڈیا کی طرف سے بھی ممکن ہے اور امریکہ کی طرف سے بھی ممکن ہے۔ لیکن اگر اس طرح سرجیکل سٹرائیک ہوئی ایسٹرن بارڈر کی طرف سے ہوئی یا افغانستان کی طرف سے ہوئی تو ہم ایک نئی صورت حال کا سامنا کریں گے۔ اس طرح اقتصادی پابندیاں لگائی جارہی ہیں امریکہ کی طرف سے، یہ کس سٹیج کی ہوں گی اور اس کے نتائج کیا ہوں گے؟ دو سال سے ہم آئسولیشن کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہم ایک طرف ہیں اور پوری دنیا دوسری طرف ہے اور ہمارا جو موقف ہے ہم دنیا کو مطئن کرنے میں ناکام ہیں۔ اور دنیا کہہ رہی ہے کہ آپ غلط راستے پر چل رہے ہیں اور ایسا نہیں ہے، جس طرح آپ کہہ رہے ہیں۔ 70 سال سے ہم نے کوئی دوست پیدا نہیں کیا اور ہماری بات سننے اور ماننے کو کوئی بھی تیار نہیں۔ اس وجہ سے ہم ایک اور تضاد میں چلے گئے ہیں جو مزید تشویشناک بات ہے۔

امرہکہ طاقت ور اور ظالم ہے، ہو گا مگر کیا ہم ایسی صورت حال کو برقرار کر سکتے ہیں کہ نہیں اور کہاں تک؟ ہمارے ساتھ جو ہو رہا ہے، ہمیں بھی بتایا جائے جو ہمیں بھی تقویت دے۔ ہمیں ایک بات بتائی جا رہی ہے کہ چین اور روس ہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔ کھڑے بھی ہیں یا نہیں اور کہاں تک کھڑے ہیں؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کے جوابات کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے ایک نیا سوچ اور ایک نیا انداز کی ضرورت ہے۔

ملک کی اندرونی سیاست میں تبدیلی اور نواز شریف کو نکالنا، حکومت کو ختم کرنے کے لئے کوشش کرنا بلوچستان کی صورت حال بھی انتہائی گھمبیر ہیں۔ ملک کے اندر فرقہ واریت دہشت گردی اور انتہا پسندی، یہ سب اس سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ ہماری فوج طاقتور ہے، ہر قسم کی جنگ لڑ سکتی ہے۔ ہمیں اتفاق ہے مگر ملکی پالیسیاں بنانا سیاسی لوگوں کا کام ہے۔ ہمارے ملک میں 70 برس سے جو سیاست چل رہی ہے ہمارے پاس ایک پیراڈائم تھا۔ کہ ہمارے ہمسایہ ممالک کے ساتھ ایسا تعلق ہے جس کی وجہ سےoffense for defense پالیسی ہم نے اپنائی۔ اس پالیسی نے ہمارا تحفظ تو نہیں کیا لیکن حالات مزید خراب ہو گئے۔

40 سال ہم مشرقی بارڈر پر افغانستان میں لڑے اور انڈیا کے ساتھ بھی جنگیں لڑی  offence for defenseکے لئے۔ یہ ہمارا ایک پیراڈائم تھا کہ انڈیا ہمارا دشمن ہے اور یہ ہمارے ارد گرد گھیرا ڈالے ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ سے ہم نے بہت زیادہ نقصانات اٹھائے ہوئے ہیں۔ ہمارے پاس افغانستان ایک مارکیٹ تھی، ہماری پالیسیوں کی وجہ سے ہم نے اسے بھی کھو دیا۔ افغانستان میں ہم ایک بھی دوست نہ بنا سکے۔ جو طالبان ہم ابھی تک سپورٹ کر رہے تھے، وہ بھی اب ہمارے خلاف ہو گئے ہیں۔ گلبدین حکمت یار اور ربانی جیسے لوگ بھی ہمارے مخالف ہو گئے ہیں۔

افغانستان تو ہمارا بہت قریبی ملک ہے، لوگ آتے جاتے ہیں وہاں اب عوام بھی پاکستان سے بہت زیادہ نفرت کرتے ہیں۔ یہ صرف اور صرف ہماری پالیسیوں کے نتیجے میں ہوا۔ ملتان اور پنجاب میں جتنے کارخانے اور فلور ملز تھے ان کو بھی کافی نقصان پہنچا ہے۔ سنٹرل ایشیا تک رسائی کے لئے ایک نیا باب کھل گیا تھا اور ٹاپی جیسا منصوبہ بھی تھا، اس کو بھی نقصان پہنچا ہے یہ صرف اور صرف اپنی اس ھندوستان دشمنی کی سوچ کی وجہ سے۔ اس خطے میں ہمارے جتنے ہمسایہ ہیں اس کے ساتھ ہم نے رہنا ہے، ہمسایوں کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے چاہیے یہ کہ ہم دنیا میں مختلف ممالک کو اس ایشو ہر بٹھا کر ایک مستقل اور پرامن حل نکالیں۔ اس کے بغیر ہمارے پاس آگے جانے کے لئے اور کوئی راستہ نہیں ہے۔

یہ نہیں کہ ہم شکست کھا گئے مگر اس مسئلے کا دیرپا حل نکالنا ضروری ہے۔ بدقسمتی سے ہماری تمام سیاسی پارٹیاں اس مسئلے پو مکمل خاموش ہیں۔ اس لئے ہم تین پارٹیوں کے اتحاد پراگریسو ڈیموکریٹک الائنس نے یہ سوچا کہ ہمیں ایک paradigm shift  کی ضرورت ہے۔ اس لئے کہ اس پرانے paradigm نے بہت تباہی اور بربادی پیدا کردی ہے۔ اور ہزاروں پشتون اور فوجی مارے گئے۔ اور لاکھوں بے گھر ہوگئے۔ اور ہر بندہ خوفزدہ ہے کہ انے والا دور اس سے بھی خطرناک ہوگا۔ اور کوئی یہ بات نہیں سمجھتا کہ اس کے لئے کون سا راستہ اختیار کیا جائے۔ یہ باتیں کی جا رہی تھی کہ انڈیا ہمارا دشمن ہے اور اس نے ہمارے ارد گرد گھیرا ڈال دیا ہے اس وجہ سے ہم نے یہ پالیسی اختیار کیا ہے۔ ٹھیک ہے مگر اس کے لئے طریقہ کار کیا ہونا چاہیے ایک باہمی پرامن زندگی یا جنگ۔ اور کیا یہ جنگ تمام دنیا سے جنگ بن جائے گی۔ اور کیا ہم تمام دنیا سے جنگ کی طاقت رکھتے ہیں۔ فرض کریں کہ افغانستان کا ایشو ہم لیں اور چین اور روس کو اپنے ساتھ سپورٹ میں لیں اور اس مسئلے کا حل نکالیں مگر ہر ملک کے اپنے ذاتی مفادات بھی ہوتے ہیں اور کیا روس اور چین اپنے مفادات ہمارے لئے قربان کرسکتے ہیں؟ چین اور روس کبھی بھی اپنے معاشی مفادات کو نہیں چھوڑ سکتے۔ یہ دونوں ممالک ایک حد تک ہمیں سپورٹ کر سکتے ہیں اس سے اگے نہیں جا سکتے۔ اس لئے یہ ممکن نہیں کہ پاکستان یہ سوچے کہ یہ مسئلہ ہم نے اکھٹا شروع کیا تھا اور اکھٹا اسے ختم کریں گے۔ یہ وقت ہے کہ پاکستان خود اپنے مسئلوں سے نکلنے کے لئے اپنے paradigm کو تبدیل کرے اور پرامن بقائے باہمی کے لئے خود کو دنیا کے ساتھ ایڈجسٹ کریں۔ اور اگر ہم اس خوف میں ہیں کہ انڈیا طاقتور ہے اور وہ ہمیں ختم کردے گا تو یہ درست نہیں ہے کیونکہ جدید دنیا میں پاکستان سے چھوٹے چھوٹے ممالک بھی وجود رکھتے ہیں۔ ایک پرامن بقائے باہمی تمام ممالک اور پاکستان کے مفاد میں ہے۔ اس کے بغیر کوئی راستہ نہیں ہے۔ اب ضرورت ہے کہ تمام سیاسی پارٹیوں، دانشوروں اور صحافییوں کو چاہیے کہ اس بات کو اگے بڑھائیں کہ کیا ہمیں پیراڈئم شفٹ کی ضرورت ہے یا اس کے علاوہ دوسرا بھی کوئی سا راستہ ہے؟

مختار باچا
Latest posts by مختار باچا (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).