قربانی کے بکروں کے نشے کی عادی قوم


پاکستانی قوم دیگر نشوں کے علاوہ اسکنڈل کے نشے کی بھی عادی ہے۔ پہلے پہلے اسکا بڑا نشہ کرکٹ اور ہاکی کے میچ ہوتے تھے ساری قوم ہمہ تن ہو کر ان میچوں میں ڈوب جاتی تھی۔ ان کا کھانا پینا اوڑھنا میچ بن جاتے تھے بلکہ کْچھ مومنیں کے لئے تویہ میچ جہاد کے برابر ہوتے تھے۔

 لیکن اس نشے کی سپلائی ایک مسئلہ تھی۔ یہ میچ روز روز نہیں کھیلے جا سکتے تھے لیکن قوم کو اس نشے کی ضرورت روزانہ ہوتی تھی اس کا حل پاکستانی میڈیا نے یہ نکالا کہ ان میچوں کی جگہ سیاسی اور سماجی اسکنڈلز سپلائی کرنے لگ پڑا۔ آج یہ نشہ سپلائی کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ سوشل میڈیا ہے۔ ایک اسکنڈل بمشکل ٹھنڈا پڑتا ہے تو ایک اور تازہ تازہ، گرم گرم نیا اسکنڈل سامنے آ جاتا ہے۔ قوم اس اسکنڈل کے ذمے دار افراد کو قربانی کے بکرے کے طور پر تلاش کرنے لگ پڑتی ہے سیاستدان، سپریم کورٹ کے جج ،فوج کے اعلی افسر اور مولوی حرکت میں آ جاتے ہیں۔ ایک دوسرے پر الزام لگائے جاتے ہیں حکومت کی لاپروائی کی مذمت کی جاتی ہے معاملہ اسمبلیوں تک پہنچ جاتا ہے جس کے نتیجے میں کمیٹیاں اور کمیشن کھڑے کر دئیے جاتے ہیں میٹنگیں اور پریس کانفرنسیں ہوتی ہیں۔ وزیر بیان دیتے ہیں تحقیق اور تفتیش پر لمبے چوڑے پیسے خرچ ہوتے ہیں پھر رپورٹ کا انتظار شروع ہو جاتا ہے۔ رپورٹ آتی ہے تو ایک نئی بحث شروع ہو جاتی ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ رپورٹ غلط ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ کمیٹی کے ممبر بک گئے ہیں۔ کئی بار معاملہ عدالت میں پہنچ جاتا ہے۔ پھر ہر روز اس کی کارروائی میڈیا پر دکھائی جاتی ہے کبھی ملزموں کے سر فٹبال کی طرح ٹھوکروں کا نشانہ بنتے ہیں کبھی بارسوخ ملزمان مل ملا کر چھوٹ جاتے ہیں تو کچھ دن انصاف کے بک جانے پر شور برپا ہوتا ہے پھر سب کچھ ٹھنڈا پڑ جاتا ہے۔ قوم کا قربانی کے بکرے ڈھونڈنے کا نشہ پورا ہو جاتا ہے۔ جب نشہ ٹوٹنے لگتا ہے تو میڈیا نئے اسکنڈل کی تیاری میں مشغول ہو جاتا ہے۔

یہ میچ کوئی نئی بات نہیں۔ پاکستان کی ہر حکومت ان میچوں کا باقاعدہ بندوبست کرتی رہی ہے۔ کبھی ایوب کے زمانے کا نسیم یعقوب کا اسکنڈل، کبھی ضیاالحق کے زمانے میں پپو کا قتل۔

 قربانی کے بکروں کا باقاعدہ شو لگایا جاتا ہے۔ ہزاروں لوگ تماشائی بن کر آتے ہیں۔ کئی منزل اونچا پھانسی کا تختہ تعمیر کیا جاتا ہے۔ جس کے اور چڑھ کر جلاد پھانسی دیتا ہے۔ مجرم تڑپتا ہے۔ کسی میدان میں ٹکٹکی پر باندھ کر کوڑے مارے جاتے ہیں۔ مجرم کی چیخیں سنانے کے لئے لاؤڈ اسپیکر کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ جب اْسے کوڑا پڑ تا ہے اور وہ درد سے چیختا اور بلبلاتا ہے تو تماشائی مزے لے کر تالی بجاتے ہیں۔ ٹی وی چینل ی کارروائی لائیو دکھاتے ہیں۔

آج کا تازہ اسکنڈل قصور کی آٹھ سالہ زینب ہے۔ قوم پھر قربانی کے بکرے کو تلاش کر رہی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ پہلی زینب ہے؟ اس جیسی لاکھوں زینب اور پپو روزانہ جبر زنا یا ریپ کا نشانہ بنتے اور قتل ہوتے ہیں۔ کبھی ان کے ساتھ ریپ کرنے والا مدرسے یا مسجد کا مولوی کبھی سکول کا ماسٹر، کبھی کوئی رشتےدار، کبھی کسی “چھوٹے یا چھوٹو” کا مالک۔ ہمیں نا تو یہ نظر آتے ہیں اور نا ہی ہم بولتے ہیں۔ کسے نہیں پتا کہ اس ملک میں لاکھوں چھوٹے عملی طور اور علامتی طور پر ریپ کا نشانہ بنتے۔ لاکھوں زینب اور پپو روزانہ بھوک افلاس اور بیماری کے ہاتھوں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے ہیں۔ جب کوئی زینب میڈیا کی طرف سے اسکنڈلز کے ذریعے قربانی کے بکرے مہیا کرنے کے لئے سامنے لائی جاتی ہے تو پھر پورا سماج حرکت میں آ جاتا ہے۔ مولوی مسجد کے اسپیکر کا پورا والیم کھول کر چیخ چیخ کر اس ظلم کے خلاف وعظ کرتا ہے۔ ٹی وی چینل پر بڑا بڑا دانش ور اور ماہر آ کر بڑے غصے میں آ کر بحث کرتا ہے۔ سیاستدان حکومت کے وزیروں کا استعفیٰ مانگتے ہیں اور ذمےدار افسروں کو نوکریوں سے نکالنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ فوج کے بڑے افسر اس واقعہ کو قومی سلامتی کے لئے خطرہ کہتے ہیں۔ سپریم کورٹ کا چیف جسٹس نوٹس لیتا ہے۔ اکھاڑا دہکنے لگتا ہے۔ صرف کچھ دنوں کے لئے۔ پھر ہم سب یہ ریپ اور قتل بھول جاتے ہیں ۔ میڈیا شکار کی تلاش میں گھات لگا کر بیٹھ جاتا ہے۔ نئے قربانی کے بکرے کا شکار۔

یہ قاتل اور ریپ کرنے والے کون ہیں؟ کیا یہ کسی دشمن ملک کے بھیجے ایجینٹ ہیں؟ یا کسی اور سیارے کی مخلوق ہیں؟ ہم خود ہیں ۔ شریف، حاجی نمازی، پرہیزگار۔ قانون کے محافظ ، دانشور ۔ فنکار۔ ملک اور قوم کے خیر خواہ ۔

کیا ہم واقعی چاہتے ہیں کہ پاکستان سے قصور کی زینب اور لاہور کے پپو کے ساتھ ریپ اور قتل ختم ہو جائیں؟

ایمانداری کے ساتھ اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھو کیا تم چاہتے ہو؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).