اپنا کاروبار ایسے بھی ہو سکتا ہے


حسنین جمال

جب سے پاکستان کے بڑے شہروں میں پرائیویٹ ٹیکسی والوں کی اجارہ داری ختم ہوئی ہے تب سے عام آدمی کی بڑی موج ہو گئی ہے۔ جہاں مرضی جانے کا دل کرے، موبائل سافٹ وئیر کی مدد سے گاڑی بلا لی اور منزل پہ جا کر مناسب بل ادا کر دیا۔ اللہ اللہ خیرسلا۔ فرض کیجیے آدھے گھنٹے کے سفر کا شہر میں اگر آٹھ سو روپیہ کرایہ پرائیویٹ ٹیکسی والے لیتے تھے تو وہی کرایہ اب ڈھائی تین سو روپے کی ایوریج پہ آ گیا ہے۔ پھر گاڑی ٹریکنگ پہ ہوتی ہے۔ مسافر کی سکیورٹی کافی حد تک بہتر ہو جاتی ہے۔ بہت سے دوست ایسے ہیں جن کے گھروں میں پہلے چار چار گاڑیاں ہوتی تھیں اور سب لوگ اپنے اپنے ڈرائیوروں کے محتاج تھے۔ ان کمپنیوں کے بعد اس وقت صورت حال یہ ہو چکی ہے کہ یا تو وہ ڈرائیور انہی گاڑیوں کو کمپنی کے لیے چلا رہے ہیں یا پھر گھر والے ایک گاڑی ایمرجنسی کے لیے رکھ کے باقی ساری گاڑیاں فروخت کر چکے ہیں۔ لوگ آسان اور سستے سفر کے عادی ہو چکے ہیں۔ کل ماڈل ٹاؤن کی طرف جانا تھا، شہر میں رش کافی تھا تو وہی سافٹ وئیر پہ بٹن دبایا اور پانچ منٹ بعد کپتان حاضر تھا۔
وہ ایک پڑھا لکھا لڑکا تھا۔ بہت مہذب انداز میں پوچھا کہ کدھر جائیے گا اور چپ کر کے گاڑی چلانے لگا۔ مجھے تھوڑی حیرت ہوئی تو میں نے کریدنے کے سے انداز میں پوچھا کہ بیٹا آپ تو اچھے خاصے سلجھے ہوئے انسان لگتے ہیں، کیا یہ کیب چلانا آپ کا شوق ہے یا پاکٹ منی وغیرہ بنانے کے لیے کام کرتے ہیں؟ اس نے جو کچھ بتایا وہ حیران کن تھا۔ وہ نوجوان ایم اے پاس تھا۔ ایک ڈیڑھ برس نوکری کے لیے خوار ہوا۔ جو بھی نوکری ملتی بارہ پندرہ ہزار سے زیادہ کی نہ ہوتی۔ اس کی گھریلو ضروریات والد کی وفات کے بعد بہت زیادہ ہو چکی تھیں۔ پانچ لوگوں کا کفیل تھا۔ اس نے سیلز کی نوکری شروع کر لی۔ سیلز میں ہوتا یہ ہے کہ جتنا کام کریں گے، جتنا مال بیچیں گے اس حساب سے بونس وغیرہ مل جائے گا تو تنخواہ اچھی خاصی بہتر ہو جائے گی۔ تین ماہ کام کرنے کے بعد اس نے حساب لگایا تو روز کے دس گھنٹے سڑکوں پہ مارا ماری کرنے کے بعد وہ اٹھائیس ہزار روپے مہینہ کما رہا تھا۔ اس سے زیادہ آمدنی کا چانس کوئی نہیں تھا۔ انہیں دنوں اس نے کہیں سے حکومت کی قرض سکیم برائے کاروبار کا سن لیا۔ خیالوں ہی خیالوں میں بہت سے کاروبار کیے لیکن جب تجربہ ہی نہ ہو تو انسان خیال سے آگے کتنا نکل سکتا ہے؟ بہت دماغ لڑانے کے بعد یہی آپشن بچتا تھا کہ کوئی چھوٹی موٹی دکانداری شروع کر لی جائے، لیکن اس پہ قرض ملنے کا امکان بہت کم تھا۔
ایک دن اسے باس نے اپنے ڈرائیور کے ساتھ کسی کام سے بھیجا تو اس سے گپ شپ کے دوران اسے معلوم ہوا کہ حکومت کی طرف سے شروع کی گئی نوجوانوں کے لیے قرض برائے کاروبار سکیم میں گاڑی بھی لی جا سکتی ہے اور اس گاڑی کو باقاعدہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے ساتھ معاہدے کے تحت چلایا بھی جا سکتا ہے۔ وہ دن اس کے مطابق اس کی زندگی کا پہلا کامیاب دن تھا۔ اگلے ایک ماہ اس نے دوڑ بھاگ کر کے سارے مراحل طے کیے اور نوکری پہ رہتے ہوئے گاڑی کا انتظار کرنے لگا۔ ڈھائی ماہ بعد شوروم سے نکلی نئی گاڑی اس کے دروازے پہ تھی اور اسی دن وہ اپنی نوکری چھوڑ چکا تھا۔
اس نے بتایا کہ جو ایک ماہ اسے یہ ساری کارروائی پوری کرنے میں لگا اس دوران اس نے بہت سے ایسے لوگوں کے پاس جا کر مشورہ لیا جو پہلے سے یہی کام کر رہے تھے۔ سب نے بڑا حوصلہ بڑھایا۔ مکمل یقین اسے پھر بھی نہیں آتا تھا جب تک گاڑی اس کے قبضے میں نہیں آ گئی۔ اب یوں ہے کہ ایم اے پاس وہ نوجوان سارے اخراجات نکال کر ایک ماہ کے ساٹھ سے ستر ہزار روپے کما رہا ہے اور دعائیں دیتا ہے سکیم بنانے والوں کو کہ جنہوں نے ایک سال کی مختصر مدت میں ایک پرائیویٹ بینک اور ایک ملٹی نیشنل کیب کمپنی کے ساتھ مل کر ایسا زبردست سپورٹ پروگرام بنایا کہ اب تک ایک ہزار سے زیادہ نوجوان اس سکیم سے فائدہ اٹھا چکے ہیں۔
نوجوانوں کے لیے پاکستانی حکومت کی طرف سے حالیہ دور میں شروع کی گئی یہ ایک سکیم تھی۔ ایسی لاکھوں مثالیں ہمارے آس پاس بکھری ہوئی ہیں۔ کتنے ہی لوگ ہیں جو اس طرح کے پروگراموں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ خود مختار ہیں۔ نہ کسی کی نوکری کرتے ہیں نہ کوئی محدود روزگار والا معاملہ ہے۔ حکومت کی طرف سے نوجوانوں کے لیے چھ مختلف پروگرام شروع ہوئے جن میں سے پرائم منسٹر بزنس لون سکیم کا یہ ایک چھوٹا سا سیگمنٹ تھا، ٹھیک سے کہیے تو یہ ایک ہزار لوگوں کی کہانی تھی جنہوں نے اس پروگرام کے تحت گاڑیاں لیں اور آن لائن ڈرائیور بن کے خود مختاری کو گلے لگانا پسند کیا۔ اس کے علاوہ پچاس مختلف کیٹیگریاں اور بزنس کے پلان اب بھی وہیں پرائم منسٹر یوتھ پروگرام کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ ڈھونڈنے والے کا ہاتھ خدا پکڑتا ہے بس موقع ملنے کی دیر ہوتی ہے۔ جس طرح اس نوجوان نے ہمت کی اور اپنا کام شروع کیا، کوئی بھی کر سکتا ہے۔ تھوڑی سی تحقیق، تھوڑی سی ہمت، تھوڑی سی جستجو اور تھوڑی سی لگن۔۔۔ اس کے بعد آسمان اپنا ہے! کچھ لوگ مگر بہت جلد ہمت ہار جاتے ہیں۔ وہ تھوڑی سی کوشش کر لیا کریں‘ ذرا اپنے اردگرد دیکھیں‘ کوئی نہ کوئی ایسا ضرور مل جائے گا جو آپ کو ایسا راستہ بتائے گا جو آپ کی مشکل کو آسان بنا سکتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ شاید ہمیں جو مشکل آئی ہے کوئی اور اس سے نہیں گزرا۔ ابتدائی طور پر ایسا ہی محسوس ہوتا ہے لیکن جب آپ اپنے ملنے جلنے والوں سے بات چیت کریں گے‘ انہیں کریدنے کی کوشش کریں گے تو آپ کو کہیں نہ کہیں سے ایسا کوئی لنک مل جائے گا جس سے آپ کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ صرف نوکری کو ہی ذہن میں نہیں رکھنا چاہیے بلکہ کاروبار کو بھی ضرور آزمائیے۔ اس میں کئی گنا آمدنی ہوتی ہے اور دل کا سکون بھی ملتا ہے۔ حکومت نے جو سکیمیں نوجوانوں کے لئے بنائی ہیں ان سے فائدہ اٹھا کر حالات بہتر بنائے جا سکتے ہیں۔
ہمارے جوان لوگ نیٹ پر ہمیشہ بری خبریں تلاش کرتے ہیں۔ ڈھونڈ ڈھونڈ کے اپنے آس پاس کی برائیاں اور پریشان کن خبریں پڑھتے ہیں اور خود ہی کڑھتے رہتے ہیں۔ وہی وقت اگر پروڈکٹو بنایا جائے اور حکومت یا پرائیویٹ اداروں کی طرف سے آنے والے مختلف سکالر شپس، لونز اور دیگر چیزوں پہ مستقل نظر رکھی جائے تو کہیں نہ کہیں بہترین آمدنی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ دنیا اتنی بری نہیں ہے، اپنا ملک اتنا برا نہیں ہے، شرط یہی ہے کہ وقت کا استعمال ٹھیک طریقے سے کریں، چوکنے رہیں، باقی مالک بہتری کرے گا۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain