مجھے اپنی بہن کے برقعے سے پیار ہے


پشاور کی ایک بظاہر ثقافتی تقریب، جو کہ اصل میں تو لچر پن ہی تھا، میں شٹل کاک برقعوں کی توہین کی گئی ہے۔ اس سے ہماری دل آزاری ہوئی ہے۔ شٹل کاک برقعوں میں ملبوس چند اوباش نوجوان مردوں نے سٹیج پر رقص کیا تو ہماری دوہری دل آزاری ہوئی۔ جب یہ پتا چلا کہ اس تقریب میں پشاور کے میئر بھی تشریف فرما تھے اور وہ اس لچر پن کو روکنے کی بجائے اس پر محظوظ ہوتے رہے اور ٹھٹھے لگاتے رہے تو ہماری دل آزاری تین گنا ہو گئی۔ ”ہم سب“ پر مضمون پڑھ کر جب یہ پتا چلا کہ شٹل کاک برقعے کا مذاق اڑانا پختون ولی کی بھد اڑانے کے برابر ہے تو ہماری دل آزاری بھی چار گنا ہو گئی۔

مضمون نگار بہت رنجیدہ تھے کہ اس لچر پن اور جعلی ثقافتی تقریب کے ذریعے یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ جیسے شٹل کاک برقع رقص کرنے میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔ ہم یہ زبردست سوال اٹھانے پر مضمون نگار کو داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ہم مضمون نگار کا دکھ سمجھتے ہیں۔

ہمیں احساس ہوا کہ صرف مضمون پڑھ کر ہماری اتنی دل آزاری ہوئی ہے تو مضمون نگار تو بہت ہی زیادہ دکھی ہوں گے۔ دوسری جانب شٹل کاک برقعے کے ساتھ ان کا اتنا پیار دیکھ کر ہمارا دکھ کچھ کم ہوا اور اطمینان بھی ہوا کہ پشتون روایات کا تحفظ کرنے والا عمران خان اور مولانا فضل الرحمن کے علاوہ بھی کوئی ہے۔

مضمون نگار کا شٹل کاک برقعے کے ساتھ اتنا پیار اور عقیدت دیکھ کر ہمیں لگا کہ مضمون نگار تو یقینا شٹل کاک برقع زیب تن کرتے ہوں گے۔ بہت گہری تحقیق کے بعد پتا چلا کہ مضمون نگار تو مرد ہے اور ساتھ ہی یہ بھی یاد آیا کہ مرد تو شٹل کاک برقع نہیں پہنتے۔ ہم ذرہ بھی کنفیوز یا پریشان نہیں ہوئے۔ ہمیں فورا پتا چل گیا کہ اگر وہ خود شٹل کاک برقع نہیں پہنتے تو پھر انہیں کسی اور کے شٹل کاک برقعے سے پیار ہو گا۔

مضمون نگار کا فوٹو دیکھ کر مزید یہ معلوم ہوا کہ وہ تو گول گلے والی ٹی شرٹ پہن کر بیٹھے ہیں اور ان کا سر بھی ننگا ہے تو پھر ہمیں اس معاملے میں کچھ کنفیوژن ہو گئی۔ لگتا ہے کہ موصوف کا پیار پشتون روایات سے اتنا نہیں ہے جتنا شٹل کاک برقعے سے ہے۔ یہ برقعے نے بھی بہت لوگوں کو بہت کنفیوز کیا ہوا ہے اور برقع لور مردوں کے کئی گروپ بن گئے ہیں۔ ان میں دو گروہ بہت کامن ہیں۔

ایک تو وہ سچے لوگ ہیں جو واضح طور پر کہتے ہیں کہ عورت برابر کی انسان نہیں ہے۔ اسے ایک آزاد انسان کی طرح زندگی گزارنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اسے گھر میں رہنا چاہیے اور اپنے شوہر اور گھر میں رہنے والے باقی افراد کی خدمت کرنی چاہیے۔ عورت کو گھر سے باہر نکلنے یا نوکری کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اور اگر کسی مجبوری کی وجہ سے خاوند، والد، بھائی یا گھر کے کسی بھی با اختیار مرد کی اجازت سے گھر سے نکل ہی پڑی ہے تو اسے برقع پہننا چاہیے۔ جب برقع لازمی ہو گیا تو پھر سیروتفریح اور کھیل کود کا سوال تو خود ہی ختم ہو جاتا ہے۔ بہت سارے فنون لطیفہ بھی آؤٹ ہو جاتے ہیں۔

یہ بہت ہی بھیانک سوچ ہے اور اس کی وجہ سے کروڑوں عورتوں کی زندگی عذاب بنی رہتی ہے۔ لیکن یہ لوگ اپنے بیان میں تو دیانت داری سے کام لیتے ہیں۔ وہ اس سلسلے میں جو ٹھیک سمجھتے ہیں وہی بیان کرتے ہیں۔ اپنی عورتوں اور بچیوں پر جہاں تک بس چلتا ہے یہی لاگو کرتے ہیں۔ کروڑوں عورتیں مذہب یا روایات کی خود ساختہ تشریح کے نام پر اس عذاب کا شکار رہتی ہیں۔

دوسرے وہ لوگ ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ عورت برابری کی انسان ہے۔ اس کا بڑا مقام ہے۔ اس کو بہت حقوق دیے گئے ہیں اسے ترقی کرنے کا حق ہے۔ اسے تعلیم اور صحت کا حق ہے۔ عورت نوکری بھی کر سکتی ہے۔ سفر بھی کر سکتی ہے۔ ہاں البتہ جو عورت اپنی ”مرضی“ سے برقع پہنتی ہے تو یہ اچھی بات ہے۔ برقع پہننے والی عورت برقع نہ پہننے والی عورت سے بہتر ہے۔ برقع پہننے سے مذہبی روایات کی پاسداری کے ساتھ ساتھ جنسی ہراسانی سے بچاؤ بھی ہو جاتا ہے۔ عام لوگ بھی اسے ”عزت دار“ گھر کی عورت سمجھتے ہیں اور اس کی اپنی عزت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ اور برقعہ عورت کی ترقی کی راہ میں کوئی رکاوٹ بھی تو نہیں ڈالتا۔

جن لوگوں کا خیال ہے کہ برقع عورت کی ترقی کو بالکل نہیں روکتا۔ وہ سارے کام جس آسانی (یا مشکل) سے برقعے کے بغیر کر سکتی ہے وہ بالکل ویسے ہی برقعے کے ساتھ بھی کر سکتی ہے۔ تو ان لوگوں کے لیے میرا ایک مشورہ ہے۔ وہ ایک ہفتہ برقع پہن کر وہ سارے کام کریں جو وہ برقعے کے بغیر ہر روز کرتے ہیں۔ تبھی وہ اس بات کو بہتر طریقے سے سمجھ سکیں گے کہ برقع کسی رکاوٹ کا باعث ہے یا نہیں۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik