کوہ مردار اور کوہ چِلتن کے بیچ (پہلا حصہ )


یہ سلام خان کاسی کی محبت تھی جس نے لرزا دینے والی سردی میں کوئٹہ کے لیے تسمے کسنے پرمجبور کیا۔ اس مشکل کو آسان بنانے میں ایک کردار میری دلی خواہش کا بھی تھا۔ میری زندگی کے خوبصورت وقتوں میں ایک وقت وہ ہے جو کوہ مردار ،کوہِ چلتن اور کوہِ تکتو کے بیچ گزرا۔

دوہزار بارہ کے اوائل میں ایک پیشہ ورانہ کوتاہی کی پاداش میں میرا ٹرانسفر کوئٹہ کردیا گیا تھا۔ ایسی خوشگوار سزا سن کر میں نے بظاہر ناگواری کا تاثر دیا، مگر منصف کے لیے دل سے دعا نکلی۔ تیری کتن والی جیوے نالے وٹن والی جیوے۔ خوشی خوشی کوئٹہ پہنچا، مگر پہنچ کر احساس ہوا کہ یہ سفر اتنا بھی سہل نہیں ہوگا۔ کوئٹہ میں سردیوں اور اغوا کے موسم کا ایک ساتھ آغاز ہو چکا تھا۔ مرسی کور کے چھ ملازم لاپتہ تھے اور بی آر ایس پی کے تقریبا گیارہ ملازم بہت سہولت سے وزیرستان پہنچا دیے گئے تھے۔ کوئٹہ کی نامور سیاسی شخصیت اور تاجر لیاقت آغا کی بازیابی کے لیے کوششیں جاری تھیں۔ اقوام متحدہ کے ملازم جان سولنگی بازیاب ہوئے ہی تھے کہ بین الاقوامی ریڈکراس کمیٹی کے ڈاکٹر ڈینیل اسجد اغوا ہوگئے۔ ڈاکٹر ڈینیل نومسلم برطانوی شہری تھے۔ ریڈکراس میں صحت کے شعبے سے وابستہ تھے۔ عراق، افغانستان، فلسطین اور سوڈان میں ذمہ داریاں انجام دینے کے بعد پاکستان کے سب سے محروم و لاوارث صوبے بلوچستان پہنچے تھے۔ ان کے اغوا کے نتیجے میں سوائے ایک فرانسیسی خاتون کے تمام غیرملکی عملہ اسلام آباد جا چکا تھا۔ رہائش کے لیے مجھے جس بنگلے میں کمرہ دیا گیا، وہ بنگلہ آٹھ کمروں پر مشتمل تھا۔ وہاں صرف میں اور میرے ساتھ میری خاموشی قیام پذیر تھی۔ اس خاموشی کو یا تو فون کی گھنٹی اور موسیقی توڑتی تھی یا پھر ملحقہ مسجد کی اذان۔ مسجد کے پیش امام اور انتظام کار قطر میں طالبان حکومت کے سفارتی نمائندے رہ چکے تھے۔ آگے چل کر ان سے بھی خوب مراسم ہوئے۔

غیرمقامی ملازم اس وقت تک صرف میں تھا۔ حالات کے مطابق حکام نے جو احکامات جاری کیے ہوئے تھے اس کے پیش نظر مجھے کوہلو کا بیل بنا دیا گیا تھا۔ مجھے ایک ہدایت نامہ تھما دیا گیا جیسے تحریکِ آزادی کے کسی سرکش کارکن کو اسیری کا پروانہ تھما دیا گیا ہو۔ سامنے دفتر جاتا، لوٹ کے انہی قدموں واپس رہائش گاہ آ جاتا۔ دائیں بائیں بھی اس خوف سے نہ دیکھوں کہ صبح جرمانہ نہ ہوجائے۔ خدا سلامت رکھے ہماری ایک رفیقہ کار ماہ جبین کو، جو بن کہے میری مشکل سمجھ گئی تھی۔ اس پر یہ بات منکشف ہوگئی تھی کہ کاہلی کا ایک معقول حصہ قدرتِ خداوندی نے اس شخص کی ذات والا صفات میں رکھ دیا ہے۔ دفتر میں خود اٹھ کے پانی لاتا تو یہ کبھی دیکھا نہیں گیا، اس ویران عمارت میں کیا کرتا ہوگا۔ دیسی انڈوں کا ہفتہ وار اسٹاک اس نے دفتر میں رکھنا شروع کر دیا۔ جیسے میں دفتر پہنچتا ، چلبلی لڑکی گھنٹی بجاتی، باورچی خانے کا عملہ متحرک ہوجاتا۔ گرماگرم ایکسٹرا لارج نان، دیسی انڈے اورکڑک خاندانی چائے۔ یعنی کہ سبحان اللہ! میں کوشش کرتا کہ اتنا رج کے کھاوں کہ بعد میں خود کے لیے کھانے کا انتطام نہ کرنا پڑے۔ چھٹی کے اوقات میں بھی گاہے بگاہے وہ فون کر کے پوچھ لیتی کہ کسی چیز کی ضرورت تو نہیں؟ ایک دن رہائش گاہ کا فرج کھولا تو گزر بسر کا خاصا سامان ٹھسا ہوا تھا۔ دربان نے بتایا کہ ماہ جبین کے بڑے بھائی آئے تھے، آپ کے واسطے رکھ کر گئے ہیں۔ کوئٹہ حال احوال کی اسی روایت کے سبب ہی توکوئٹہ ہے۔ کوئٹہ میں آپ زیادہ کھانے کی وجہ سے تو گزر سکتے ہیں، بھوکے کبھی نہیں مر سکتے۔ ستمگروں کے ستم جب کوئٹہ بلوچستان میں سب کچھ تباہ کر ڈالیں گے، تب بھی “حال احوال” کی روایت زندہ رہے گی۔ ماہ جبین خدا جانے کہاں ہو گی، اس کا حال احوال آج بھی سلامت ہے۔ وہ بتا کر گئی کہ سیکیورٹی ہائی الرٹ اپنی جگہ، مگر تم جانتے نہیں کہ دراصل کس جہانِ خوش رنگ کی طرف نکل آئے ہو۔ سوچتا ہوں میری کاہلی کا راز اگر رہائش گاہ کے بروہی سیکورٹی گارڈ پر بھی کھل جاتا تو اس میں کیا برا تھا۔ میری زندگی آسان ہوجاتی اس کی عاقبت سنور جاتی۔ سچ یہ ہے کہ گھر سے لائی ہوئی سبزی کا لقمہ لینے سے پہلے وہ پوچھتا ضرور تھا۔ اسے کاہلی کا اندازہ ہوجاتا تو یقینا باورچی خانے کو آباد کر دیتا۔

ویرانے میں آپ تنہا ہوں تو آپ وہ سب کچھ کرسکتے ہیں جو عام حالات میں آپ نہیں کرتے۔ ایک دن مجھے ہری ہری سوجھی اور سارے کمروں کا جائزہ لینے کا فیصلہ کرلیا۔ دیکھوں کہ فرنگی کیا کچھ پیچھے چھوڑکر گئے ہیں۔ ایک کمرے میں داخل ہوا تو کیرم بورڈ رکھا ہوا تھا۔ دیکھتے ہی لگا جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آگئی ہو۔ کیرم کی ساری گوٹیں سدھاریں، اسٹرائکر پر انگلی رکھ کر نشانہ باندھا اور سیدھا کراچی میں ناظم آباد کے ڈبو کلب میں پہنچ گیا۔ کبھی فہد سے مقابلہ چل رہا ہے کبھی راحیل بٹ سے “بیمانٹی” چل رہی ہے۔ کبھی ریحان پان کی پیک دیوار پہ مار کے “ہٹا بے میں نہیں کھیل رہا ویل رہا” کی دھمکی دے تو کبھی اسد مرچی سے کہوں “بیٹا سیانا مت بن سٹرائیکر ٹھیک جگہ پہ رکھ”۔ میں مسلسل جیت رہا ہوں، سب ہار رہے ہیں۔ اسی لیے مجھے یہ فکر دامن گیر ہی نہیں ہو رہی کہ ڈبو کھیلنے کے بعد مسعود بھائی کو پیسے کون دے گا۔ پیسے تو وہی دیں گے جو ہار رہے ہیں۔ ساری گوٹیں پار لگ گئیں تو بنگلے کی خاموشی اور بھی گہری ہوگئی۔ خاموشی نے یادِ ایام کا نشہ توڑنا شروع کیا ، دھیرے دھیرے میں واپس کوئٹہ چمن ہاوسنگ اسکیم کے پرآسیب بنگلے میں آ گیا۔ نشہ ٹھیک سے اترا تو احساس ہوا کہ یہ تو میں ہی تھا، جس کو میں شکست دیے جا رہا تھا۔ کیرم وہیں چھوڑا کہ یہ بھی یہاں ہے میں بھی یہاں ہوں۔ جب تک یہاں ہوں، بچپن کے دوستوں سے ملنے یہاں آتا رہوں گا۔ ابھی تومیں فرنگیوں کے متروکہ کمروں کے ہنگامی دورے پر ہوں، ذرا دیکھوں کہ مال غنیمت میں کیا کچھ رکھا ہے۔

بازیچہِ لہو ولعب سے نکل کر دوسرے کمرے میں داخل ہوا۔ کمرہ کسی ادیبِ نامراد کے کمرے کی طرح بکھرا ہوا تھا۔ سوائے ایک ایرانی کمبل کے جو بہت سلیقے سے لپیٹا سمٹا رکھا ہوا تھا۔ کمبل پر ایک سرخ رنگ پاسپورٹ رکھا ہوا تھا جس میں اے فور سائز کا ورق اٹکا ہوا تھا۔ میں دروازہ بند کر کے واپس باہر آ گیا۔ مجھے یقین تھا کہ یہاں میرے سوا اور کوئی نہیں ہے، اور کوئی غیرملکی رفیق کار تو بالکل بھی نہیں ہے۔ ایک فرانسیسی خاتون ہیں، وہ تو کچھ فاصلے پر اپنے بچوں کے ساتھ رہائش پذیر ہیں۔ پھر یہ کمرہ ایسا منظر کیوں پیش کررہا ہے کہ جیسے کوئی بھولی ہوئی چیز یاد آنے پر ابھی کوئی یہاں سے یونہی نکلا ہو،واپس آتا ہی ہو۔ سیکیورٹی گارڈ نے پوچھنے پر یقین دلایا کہ اس سحرکدے میں سوائے تمہارے اور کوئی نہیں ہے۔ ایک دن کے وقفے کے بعد دوبارہ اسی کمرے میں گیا۔ سب چیزیں ویسی ہی رکھی تھیں۔ اب طبعیت میں قدرے اطمینان تھا اس لیے ہر چیز واضح دکھائی دے رہی تھی۔ حمام کے باہر کرسی پر تولیہ بکھرا پڑا تھا۔ فرش پر بیگ رکھا تھا، جس میں کپڑے تہہ کئے رکھے تھے، مگر لگتا تھا کچھ کپڑے ابھی مزید رکھنے کے ہیں۔ سرہانے قرآن مجید رکھا ہوا تھا، جس میں بورڈنگ پاس کا ٹکڑا کچھ اس طرح سے اٹکا ہوا تھا جیسے ابھی زیرمطالعہ ہو۔ میں نے پاسپورٹ اٹھایا، پتہ چلا یہ تو ڈاکٹر ڈینیل اسجد کا پاسپورٹ ہے۔ پاسپورٹ میں اٹکا ہوا کاغذ کھول کر دیکھا تو دل بیٹھ گیا۔ حیران و بے بس بستر پہ میں بیٹھ گیا۔ ڈاکٹر ڈینیل اگر اس شام اغوا نہ ہوئے ہوتے تو اگلی صبح وہ لندن میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہوتے۔ پاسپورٹ جیسا رکھا تھا، ویسے ہی رکھ دیا۔ قرآن مجید کھولا۔ بھیگی نگاہیں تمام آیات پر سے پھسلتی ہوئی ایک آیت پر جا اٹکی” ومن احیاھا فکانما احیاالناس جمیعا”۔ جس نے ایک انسان کو بچایا، گویا پوری انسانیت کو بچالیا۔

 میں نے فون کرکے فرانسیسی رفیقہ کار سیلیا سے پوچھا، ڈینیل اسجد کا پاسپورٹ اور سامان یہاں یوں کھلا کیوں رکھا ہے؟ کہنے لگیں ، ڈینیل یہ چیزیں اسی طرح چھوڑ کر قندھار سے آئے ہوئے ایک زخمی بزرگ کی تیمارداری کے لیے ہنگامی طور پر ہسپتال گئے تھے،ہسپتال سے واپس نہیں پہنچے، میں چاہتی ہوں کہ جب وہ پہنچیں تو انہیں اپنی چیزیں ویسے ہی منتظر ملیں جیسے وہ چھوڑ کر گئے تھے۔ نگاہیں آج تک ڈینئیل کی منتظر ہی ہیں۔ باوجود اس کے کہ ہم جانتے ہیں کہ اب وہ کبھی نہیں آئیں گے۔ کچھ لوگوں کو ہم کھو دینے کے بعد جان پاتے ہیں، ڈاکٹر ڈینئیل انہی لوگوں میں سے ایک ہیں۔ جگرمراد آبادی کی خیر ہو

جان کر منجملہ خاصانِ مے خانہ مجھے

مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے

کوئٹہ میں ہم نے ڈاکٹر ڈینئیل کو اس طرح دریافت کیا تھا کہ وہ دونوں ٹانگوں سے محروم ہوجانے والے افغان شہری کے خون آلود سرہانے کھڑے تھے۔ کوئٹہ میں ہی پھر ہم نے انہیں یوں کھویا کہ ہم ان کے خون آلود سرہانے کھڑے تھے۔ آج کوئٹہ میں ہی تھا جب کراچی میں موت کے فرشتے نے بہت ہنرمندی سے پروفیسر حسن ظفر عارف کی جان لے لی۔ پروفیسر صاحب کی لاش دیکھی تو ڈاکٹر بہت یاد آئے۔ ہست وبود کے اسی قصے کے سنگ کوئٹہ سے میرا براہ راست تعارف شروع ہوا۔

(جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).