ڈر کے آگے جیت ہے


اس دنیا میں ہر انسان کامیاب ہونا چاہتا ہے۔ ہر ایک کی خواہش ہے کہ دنیا میں وہ سب سے کامیاب ترین بندہ ہو۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں بہت کم لوگ کامیابی کے اس اوج پہ پہنچ پاتے ہیں۔ باقی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کم کامیاب ہوتے ہیں اور ایسے بھی ہیں جو زندگی میں مسلسل ناکامی کا منہ دیکھتے دیکھتے مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں کھو جاتے ہیں۔ اور پھر انہی تاریکیوں میں اپنا وجود کھو دیتے ہیں۔ ہم اگر کامیاب لوگوں کی زندگی ان کی سوچ اور نظریات کو ایک نظر دیکھیں تو ہمیں سب لوگوں میں چند چیزیں مشترک نظر آئیں گی۔ ان میں سے ایک چیز ہمت اور لگن کے ساتھ اپنے ٹارگٹ پہ نظر رکھنا اور جہد مسلسل جاری رکھنا اور کبھی بھی مایوس نہ ہونا ہے۔ ایسے لوگوں کے راستے میں بے تحاشا diversions آتی ہیں۔ انہیں ان کا ناکام ماضی اور اس سے منسلک محرومیاں آواز دیتی ہیں لیکن وہ ٹک ایک نظر منزل پہ رکھے رواں دواں رہتے ہیں اور نتیجہ کار کامیاب ٹھہرتے ہیں۔ اس کا ایک دوسرا رخ ناکام انسان کا بھی ہے۔ بہت پہلے کہیں ایک کہانی نظر سے گزری تھی کہ ہرن کی رفتار تقریباً 90 کلومیٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے جبکہ ایک جوان ٹائیگر یعنی شیر کی رفتار لگ بھگ 60 کلومیٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے۔ رفتار کے اتنے فرق کے باوجود ہرن شیر کا شکار ہوجاتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ہرن جان بچانے کے لیے جب دوڑ رہا ہوتا ہے تو یہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ آج وہ نہیں بچے گا۔ وہ ڈر اور خوف سے شیر کو مڑ مڑ کے دیکھتا ہے جبکہ شیر ہمت اور طاقت کے زعم میں یہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ اس کا آج کا کھانا یہ ہرن ہی ہوگا اور نتیجہ یہ ہوتا ہے۔ کہ شیر ہرن کو جا لیتا ہے۔

ہیمنگوے نے کہا تھا کہ انسان ہار کے لیے بنا ہی نہیں ہے۔ بلکہ اس نے کہا کہ انسان تباہ تو ہوسکتا ہے ہار نہیں سکتا۔ تو پھر سوچنے کی بات ہے کہ کیا وجہ ہے کہ انسان مایوس ہوجاتا ہے ہمت توڑ کے اپنے پر نوچ لیتا ہے کوشش ترک کرکے شکست اور ناکامی کو خود پہ طاری کرلیتا ہے۔ اس کی وجہ وہی ہرن والی ہے کہ وہ مڑ مڑ کے ماضی کی ناکامیوں کی طرف دیکھ رہا ہوتا ہے۔ وہ اندر سے خوفزدہ ہوتا ہے۔ اس کا ماضی اسے ڈستا رہتا ہے وہ اس کی ہمتیں پست کرتا ہے وہ اس میں ڈر اور خوف پیدا کرتا ہے کہ کہیں وہ ہار نہ جائے۔ جو انسان شکست سے پہلے ہی ناکامی کے ڈر میں مبتلا ہوگیا وہ شکست کی بنیاد تو معرکے سے پہلے ہی رکھ گیا۔ ایسے میں جب وہ ناکام ہوتا ہے تو تمام ہتھیار پھینک کے مایوس ہوجاتا ہے۔ کتنی ہی ایسی اندرونی مایوسیاں ہیں جو ہم سے زندہ رہنے کا حوصلہ تک چھین لیتی ہیں۔ ہم کہیں ہلاک نہ ہوجائیں قسم کی سوچیں ہمیں ہمارے مقاصد کے حصول کے قابل نہیں بننے دیتیں۔ اور نتیجہ ہم اپنی صلاحیتوں پہ کبھی بھی اعتماد نہیں کر پاتے۔ اور زندگی میں ناکام و نامراد ٹھہرتے ہیں۔

اس لیے زندگی کی دوڑ میں ہمیں شیر بن کے ابھرنا چاہیے، اپنی ہمت اپنی صلاحیتوں کا ادراک کرتے ہوئے اپنی منزل کا تعین کرنا چاہیے۔ اور پھر عزم مصمم کے ساتھ اس راستے پہ گامزن رہتے ہوئے ہی ہم کامیاب ہوسکتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کامیابی اور ناکامی کا تعلق ہمارے ذات کے داخلی معاملات سے ہے۔ خارجی عوامل تو بس ایسی diversions ہیں جو وقتی ہوتی ہیں جن کو اندرونی طور پہ مضبوط انسان اپنے ارادے کی پختگی سے اپنے حق میں ڈھال لیتا ہے۔ لیکن اندرونی ڈر اور خوف کو آپ نے پہلے زیر کرنا ہے۔ اسی چیز کو ہی تو اقبال نے خودی کا نام دیا ہے۔ کہ اپنے آپ کو پہچانو، اپنی کمی کوتاہیوں کا تدارک کرتے ہوئے اپنی کرداری سازی اس نہج پہ کرو کہ انسان خود کو تسخیر کر لے اور تسخیر نفس کے بعد اپنی ذات کی مضبوطی کے بل بوتے پہ آپ دنیا کی تسخیر کیا آخرت میں اعلی مقام پاسکتے ہو۔

سمیع احمد کلیا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سمیع احمد کلیا

سمیع احمد کلیا پولیٹیکل سائنس میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، لاہور سے ماسٹرز، قائد اعظم لاء کالج، لاہور سے ایل ایل بی اور سابق لیکچرر پولیٹیکل سائنس۔ اب پنجاب پولیس میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

sami-ahmad-kalya has 40 posts and counting.See all posts by sami-ahmad-kalya