پیپلز پارٹی جمہوریت کا سبق ڈاکٹر قادری سے پڑھے گی



طاہر القادری کی سیاست ایک خاص فکر کے گرد گھومتی ہے۔ ان کے پاس عقیدت مندوں کی قابل ذکر تعداد موجود ہے۔ جو بیک وقت کسی محفل ، شب بیداری اور سیاسی یا احتجاجی پروگراموں میں کام آتے ہیں۔ اسی طرح ان کی اپنی ملٹی پل شخصیت ہے۔ دوہری شہریت کے حامل ہیں۔ جو بیک وقت، قائد انقلاب، عوامی سیاسی لیڈر، شیخ الاسلام، مذہبی رہنما، پیش امام اور خطیب سمیت کئی پہلو رکھتے ہیں۔ آج کل سیاسی میدان میں اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ جلوہ افروز ہیں۔ اپنے دعویٰ کے مطابق پاکستان کی دو بڑی سیاسی قوتوں کو ایک ساتھ ایک ہی ٹرک پر کھڑا کرنے فقیدالمثال خدمت انجام دینے جا رہے ہیں۔ بلاشبہ یہ کام طاہرالقادری ہی سرانجام دے سکتے ہیں۔ یہ خدمت کوئی کم بھی نہیں ہے کہ ایک دوسرے کیخلاف بر سرپیکار سیاسی شخصیات کو ساتھ بیٹھا دیا جائے۔ بابائے جمہوریت نوابزاہ نصراللہ خان اگرچہ یہ کام بخوبی انجام دیتے رہے ہیں لیکن کسی بھی طرح سے نوابزادہ نصراللہ خان کا موازنہ طاہرالقادری سے ہرگز نہیں کیا جا سکتا ہے۔

طاہرالقادری کا نعرہ تو سیاست نہیں، ریاست بچاؤ ہے جبکہ مرحوم نوابزادہ نصراللہ خان جمہوریت کے داعی تھے۔ طاہرالقادری کے ساتھ کھڑے ہونے والوں کو عام وخاص کسی اور نظر سے دیکھتے ہیں۔ کھڑے ہونے والے کئی روز وضاحتیں دیتے پائے جاتے ہیں کہ ہم کیوں اور کس مقصد کے تحت طاہر القادری کا ساتھ دے رہے ہیں۔ طرفہ تماشا یہ کہ ان کی تمام تر وضاحتیں تسلیم کرنے کے باوجود شک کا عنصر باقی رہتا ہے۔ اس امر سے پاکستان کے عام و خاص سب آگاہ ہیں کہ طاہرالقادری کا احتجاج سانحہ ماڈل ٹاون کیخلاف ہے اور حصول انصاف کے لئے عمران خان اور آصف زرداری احتجاج میں طاہرالقادری کے ساتھ ایک ہی ٹرک پر موجود ہوں گے اور بھر پور حمایت کریں گے۔ پھر بھی لوگ یہ کہنے سے باز نہیں آتے ہیں کہ سب کچھ آمدہ الیکشن کے لئے کیا جا رہا ہے۔

وہ پیپلزپارٹی جس کی تاریخ جمہوریت اور نظریات کے لئے قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔ پیپلزپارٹی نے بھی یوٹرن لیتے ہوئے ایک چھتری تلے پناہ لے لی ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ اب جمہوریت کی نئی تشریح کی جائے گی۔ جو کبھی جنرل پرویز مشرف شوکت عزیز کو وزیراعظم مقرر کرکے کیا کرتے تھے۔ پیپلزپارٹی اب جمہوریت کا سبق طاہرالقادری سے پڑھے گی۔ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔ پیپلزپارٹی پر بھی یہ وقت آنا تھا کہ اپنی سیاسی بقا کے لئے سہاروں کی تلاش میں اپنی حد ہی کراس کر جائے گی۔ نظریات کی جگہ جوڑ توڑ کی سیاست مقدم ٹھہرے گی۔ جوڑ توڑ بھی ایسا کہ جس میں سازش کی بوآتی ہو۔ کچھ طے ہونے کے اشارے ملتے ہوں۔ سانحہ ماڈل ٹاون کے زخم جب ہرے تھے اس وقت تو آصف علی زرداری طاہرالقادری کے دھرنے کیخلاف رائے ونڈ پہنچ گئے اور جمہوریت بچانے کا نعرہ بلند کر رہے تھے۔ اب پیپلزپارٹی کیا کیسی کھیل کا حصہ بن گئی ہے۔ کیسی کے حکم پر سر تسلیم خم کرلیا گیا ہے۔

کیوں کہ طاہرالقادری جمہوریت پسند نہیں ہیں۔ طاہرالقادری کو انتخابات سے بھی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ پھر وہ کون سی قوت ہے جس نے پیپلزپارٹی کو اس ددراہے پرلاکھڑا کیا ہے جوایک جانب جمہوریت کا راگ اور دوسری جانب ایک جمہوری منتخب حکومت گرانے کے لئے ایک غیرجمہوری اور غیرپارلیمانی عناصر کا ساتھ دینے پرکمربستہ ہے۔ دال میں کچھ کالا ہے یا ساری دال ہی کالی ہے۔ جو کچھ بھی ہے۔ سیاست، جمہوریت، عوام اور ملک کے لئے ایسی سیاسی موقع پرستی سے ہر دور میں نقصان ہوا ہے۔

سیاسی جماعتیں کمزور اور سیاسی فورسز میں کرپشن، بدعنوانی اور مفاد پرستی کے عنصر غالب آتے دیکھے گئے ہیں۔ جس سے حقیقی سیاسی کارکن بد دل اور مایوسی کا شکار ہوتے ہیں۔ جس کے نتائج پاکستان کے عوام پہلے ہی بھگت رہے ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاون کے متاثرین کو انصاف ضرور ملنا چاہیے۔ پاکستان کا ہر شہری اس امر سے اتفاق کرتا ہے کہ شہدائے ماڈل ٹاون کے ورثا کو انصاف دیا جائے۔ لیکن شہدائے کی لاشوں پر سیاست ہرگز ہرگز مناسب نہیں ہے۔ عمران خان اور آصف زرداری کی طاہرالقادری کی احتجاجی تحریک میں شرکت کا طریقہ سیاسی مقاصد کی کھلی چغلی کھا رہا ہے۔ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف گو کہ بار بار یہ وضاحت دے رہی ہیں کہ ان کی شرکت سانحہ ماڈل ٹاون کے ورثا کو انصاف کے لئے ہے بعد از شرکت مزید وضاحتیں درکار ہوں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).