پاکستانی معاشرے نے سیکولرازم کے حق میں فیصلہ دے دیا: علی معین نوازش


علی معین نوازش نے عالمی سطح پر اُس وقت شہرت حاصل کی جب انہوں نے 2009 میں​​ اے لیول کے امتحان میں عالمی ریکارڈ بنایا۔ علی معین نوازش کی صلاحیتوں کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے انہیں پرائڈ آف پرفارمنس کے ایوارڈ سے نوازا۔ علی معین نوازش نے کیمبرج یونیورسٹی سے گریجویشن مکمل کرنے کے بعد کولمبیا یونیورسٹی سے صحافت میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ پاکستان واپس آ کر ایک پرائیویٹ میڈیا ہاؤس سے اپنے صحافتی سفر کا آغاز کیا ۔آج کل مختلف ٹی وی پروگرامز میں بطور تجزیہ کار کام کر رہے ہیں اور قومی اخبارات میں ہفتہ وار کالمز بھی لکھتے ہیں۔ گزشتہ دنوں علی معین نوازش کے ساتھ ایک طویل ملاقات ہوئی جس کے چیدہ چیدہ نکات آپ کی نذر ہیں۔

س: آپ کے نزدیک کیا وجہ ہے کہ آزادی کے ستر سال گزر جانے کے باوجود  ہم دنیا سے سترسال پیچھے ہیں؟

ج: ہمارے ملک میں سب سے بڑا مسئلہ تعلیم ہے، کیونکہ تعلیم ایک ایسا شعبہ ہے جس کے معیارکو ہم نے بہتر کرنے کی بجائے مزید بدتر کیا ہے۔ خاص طور پر گزشتہ چند دہائیوں میں دیکھا جائے تو ہر حکومت نے تعلیم کو نظر انداز کیا ہے خواہ وہ عسکری حکومت ہو یا پھر سول حکومت ہم تعلیم کو روزِ اول سے نظر اندازکرتے آئے ہیں۔ تعلیم کا تعلق صرف نوجوانوں سے نہیں بلکہ پورے معاشرے سے ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں تعلیم کے ساتھ بہت سے تجربات ہوئے ہیں۔ آپ تاریخ اور دوسرے تدریسی نصاب کا جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ہم نے وقت کے ساتھ تاریخ اور تدریسی نصاب میں بہت سی غیر ضروری تبدیلیاں کی ہیں۔ دوسرااہم مسئلہ معاشی بحران ہے۔ ہم آزادی کے آغاز سے ہی خود کو معاشی طورپر مستحکم نہیں کر پائے اور پاکستان میں سب سے بڑا معاشی بحران ایوب خان کے دورِ حکومت میں آیا جب لوگوں کی تنحواہیں کم کر دی گئیں اور دولت کو چند مخصوص خاندانوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا جس کی وجہ سے ہم سنگین بحران کی لپیٹ میں آگئے۔ جب ہم معاشی استحکام کی بات کرتے ہیں تو ہم دنیا کے سامنے اپنا معاشی کردار واضح کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے۔ اگر ہم زرعی ملک ہیں تو بظاہر ہم اس میں بھی دنیا میں کوئی خاص مقام نہیں رکھتے۔ ہمارے ہاں گریجوایٹ افراد کی سب سے کم شرح شعبہ زراعت میں ہے، حلانکہ ہماری سب سے زیادہ برآمدات زراعت سے ہوتی ہے۔

تیسرا بڑا مسئلہ ہم دنیا میں اپنا کوئی کردار واضح نہیں کر سکے کہ ریاستِ پاکستان کا مقصد کیا ہے؟ ہم نے پاکستان کو انگریزوں سے تو آزاد کروا لیا لیکن ہم آج تک عالمی سطح پر اپنا نصب العین واضح نہ کر سکے۔ دنیا میں جتنے بھی ممالک نے ترقی کی انہوں نے اپنا کردار عالمی سطح پرواضح کیا ہے۔ آپ چین کی بات کریں تو انہوں نے مینو فیکچرنگ ریاست کا کردار ادا کیا کہ ہم دنیا کے لئے تمام اشیا تیار کریں گے اور ان کو ایکسپورٹ کریں گے۔ آپ سنگاپور کو دیکھیں تو انہوں نے دنیا میں اپنا جدید پورٹ سسٹم متعارف کروایا کہ ہم دنیا کے لئے پورٹ سٹی بنیں گے اور پوری دنیا کی بحری نقل و حرکت ہماری پورٹس کے ذریعے ہو گی۔ آپ سعودی عرب کی مثال لے لیں تو انہوں نے بھی اپنا ایک کردار طے کیا کہ ہم پوری دنیا کو تیل بیچیں گے۔  اب آکر سعودی عرب نے تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کی وجہ سے اپنا کردار تبدیل کیا ہے لیکن لمبے عرصے تک سعودی عرب نے دنیا کو تیل ایکسپورٹ کیا ہے۔ اگر ہمسایہ ملک کی طرف دیکھیں تو انہوں نے بھی عالمی سطح پر اپنا ایک واضح کردار ادا کیا ہے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں بھارت کا غلبہ ہے ۔ آپ دنیا کی تمام بڑی ٹیکنیکل کمپنیز دیکھ لیں، سب کے سی۔ای۔اوز (CEO) بھارتی شہری ہیں۔ دنیا کہاں سے کہاں چلی گئی لیکن ہم آج بھی اپنے ذاتی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔

س: ہمارے مسائل کی نشاندہی آپ نے بخوبی کر دی لیکن ان مسائل کا حل کیا ہے؟

ج: ان مسائل کی بنیادی وجہ طاقت کے لئے تمام ریاستی اداروں کے درمیان لڑی جانے والی جنگ ہے اور اس طاقت کی جنگ میں نقصان ہمیشہ ملک کا ہوا ہے۔ آپ آج بھی اگر سیاسی منظر کا جائزہ لیں تو ہمارے ہاں ہر فریق طاقت کے لئے ایک دوسرے سے دست گریباں ہے، خواہ وہ اسٹیبلشمنٹ،عدلیہ یا سیاسی جماعتیں تمام فریق اپنے ذاتی مفاد کے لئے لڑ رہے ہیں لیکن طاقت کی اس جنگ میں ہوتا یہ ہے کہ ہم اپنی قومی ترجیحات پس مشت ڈال دیتے ہیں اور ترقی کا سفر رک جاتا ہے۔ ہمارے ہاں منصوبہ بندی محض پانچ سال کے لئے ہوتی ہے کیونکہ ہمارے حکمران لمبے دورانیے کی حکمتِ عملی تشکیل نہیں دیتے۔ بس اپنے اقتدار کے لئے عوام کا استحصال کرتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ ہم اپنے خطے میں وہ واحد ملک ہیں جو تعلیم پر اپنے GDP کا سب سے کم حصہ مختص کرتے ہیں لیکن ظلم کی انتہا یہ ہے کہ جو GDP تعلیم کے لئے مختص کیا جاتا ہے وہ بھی مکمل طور پر تعلیم پر خرچ نہیں ہوتا۔ ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں اور تو کوئی پالیسی بنائی نہیں جاتی اور اگر غلطی سے کوئی پالیسی بنائے تو اُس پر عمل درامد نہیں ہوتا۔ ہمیں اس وقت مثبت حکمتِ عملی کی ضرورت ہے جو ہماری اکانومی کو سہارا دے اور تعلیم عام کرے، یہ ستر سال کے مسائل چند روز میں حل نہیں ہوں گے، وقت لگے گا۔ ہمارے تمام اداروں کو ہم آہنگی سے ملک اور قوم کے مفاد میں فیصلے کرنے ہوں گے۔

س: ہمارے ہاں محب وطن ہونے کے لئے مسلمان ہونا کیوں ضروری ہے؟

ج: میرے نزدیک تو کوئی بھی محب وطن ہو سکتا ہے بھلے وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو۔ دیکھیں کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ محب وطن اور غداری کی سرٹیفیکیٹ بانٹے لیکن ہم اپنی پوری تاریخ میں کسی کو غدار، کسی کو محب وطن، کسی کو  اچھا مسلمان اور کسی کو برا مسلمان کہتے آئے ہیں۔ میرے نزدیک ایک محب وطن پاکستانی وہ ہے جو معاشرے میں اپنا مثبت کردار ادا کرے، میرے نزدیک ایک محب وطن پاکستانی وہ ہے جو لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرتا ہے، میرے نزدیک ایک محب وطن پاکستانی وہ ہے جو لوگوں کو پڑھاتا ہے، میرے نزدیک ایک محب وطن پاکستانی وہ ہے جو ایمانداری سے اپنا روزگار کماتا ہے اور معاشرے میں امن و خوشحالی کی خاطر اپنا مثبت کردار ادا کرتا ہے۔

دوسرا نکتہ یہ کہ ہم اچھے اور برے پاکستانی کی تفریق سیاسی بنیادوں پر کرتے ہیں۔ جیسے وہ فلاں پارٹی کو سپورٹ کرتا ہے وہ تو محبِ وطن ہے۔ اور وہ شخص اور فلاں پارٹی کو سپورٹ کرتا ہے وہ تو یہودی ایجنٹ ہے۔ یہ سیاست میں عدم برداشت کا نتیجہ ہے۔ آپ اگر 80 کی دہائی کا جائزہ لیں تو ضیاالحق نے کس طرح مذہب کو استعمال کیا، یہ سب کو بخوبی معلوم ہے۔ ہم نے ایک محب وطن پاکستانی کی تعریف اس کے اعمال کی بجائے اس کے نظریات پر مرکوز کر دی۔ مثلاَ ایک شخص جس نے ہزاروں لوگوں کو قتل کیا ہوگا لیکن اگر وہ شخص سلمان تاثیر کو گالیاں دیتا ہے تو وہ ایک اچھا مسلمان ہے۔ اسی طرح اگر ایک شخص بھارت کو گالیاں دیتا ہے تو وہ محب وطن پاکستانی ہوگا، باقی وہ چوری کرتا ہے، ٹیکس نہیں دیتا، اس سے ہمیں فرق نہیں پڑتا ہم نے سوچ  کی آزادی پر پابندی لگا دی ہے۔ ہم محب وطن پاکستانی کے سرٹیفیکیٹ سوچ اور باتوں پر دیتے ہیں لیکن ہمیں اس شخص کے کردار سے فرق نہیں پڑتا۔

س: مذہب اور سیاست کو الگ الگ ہونا چاہیے یا پھر مذہب اور سیاست کو ایک ہی ہونا چاہیے؟

ج: ہر معاشرے کو یہ فیصلہ خود کرنا پڑتا ہے کہ اُس کے لئے کون سی چیز زیادہ بہتر ہے۔ ہمارے ہاں مسلمانوں کی زیادہ اکثریت ہے اور عمومی طور پر اسلامی قانون نافذ ہیں لیکن مسئلہ مذہب یا مذہبی جماعتوں کا سیاست میں ہونا نہیں۔ اصل مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب ہمارے ہاں مذہبی جذبات کو سیاست کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جو بہت غلط ہے خاص طور پر ایک ایسے ملک میں جہاں پر آبادی کی اکثریت ناخواندہ ہے، جہاں دنیاوی تعلیم کا اتنا رجحان نہیں اور جہاں بے روزگاری عروج پر ہے۔ ان عوامل کے پیش نظر مذہبی جذبات مجروح کرنا یا انہیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا بہت آسان ہے۔ دوسری طرف اگر انتخابات کا جائزہ لیا جائے تو پاکستانی عوام نے کبھی بھی کسی مذہبی جماعت کو ووٹ نہیں دیا سوائے اس کے جب مذہبی جماعت کواسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہو۔ جماعت اسلامی پاکستان کی سب سے بڑی مذہبی جماعت ہے، وہ کتنے انتخابات جیتی ہے؟ کتنی سیٹیں جیتی ہے؟ ماسوائے چند مخصوص نشستوں کے لیکن کبھی پاکستان کی تاریخ میں کسی مذہبی جماعت نے انتخاب نہیں جیتا۔ اگر آپ آئی جے آئی کی بات کریں تو اس میں نواز شریف صاحب تھے اور اسٹیبلشمنٹ کا بھی کلیدی کردار تھا۔ ہمارے معاشرے نے خود مذہب اور سیاست کو الگ کر دیا ہے کیونکہ ہم مذہبی جماعتوں کو انتخابات میں ووٹ ہی نہیں دیتے۔ تو یہ بہت واضح ہے کہ ہمارے معاشرے نے خود مذہب اور سیاست کو الگ کر دیا ہے۔

س: آپ کے نزدیک ایسی کونسی سیاسی جماعت ہے جو نوجوانوں کی حقیقی ترجمان ہے؟

ج: ہمارے ہاں تین ہی بڑی سیاسی جماعتیں ہیں جن میں پی ٹی آئی پر پہلے یہ ٹیگ تھا کہ وہ نوجوانوں کی جماعت ہے اور نوجوانوں کے حقوق کے لئے سرگرم ہے لیکن اب وہ بھی بڈھوں کی جماعت بن گئی ہے۔ مسلم لیگ (نواز) نے تو مکمل طور پر نوجوانوں کو نظر انداز کیا ہے۔ لیپ ٹاپ اور یوتھ لون سکیمز جیسے لولی پوپ نوجوانوں کو دیتے رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی میں قابلیت ہے کہ وہ نوجوانوں کی ترجمانی کرے لیکن پیپلز پارٹی کا مسئلہ بلاول اور زرداری صاحب کی باہمی کشمکش ہے جس کی وجہ سے وہ مشکلات کا شکار ہیں۔ اس وقت پیپلز پارٹی تنظیمی طور پر بھی غیر مستحکم ہے۔ اس ساری صورت حال کو دیکھتے ہوئے نوجوانوں کے لئے حالات ناساز گار ہیں۔

س: عوامی حلقوں میں آپ کے بارے ایک سوال عام طور پر کیا جاتا ہے کہ کیا علی معین نوازش سیاست کے میدان میں اتریں گے؟

ج: پہلے ایک زمانے میں بالکل تھا ارادہ سیاست میں آنے کا لیکن اب نہیں۔ میرا خیال ہے کہ اب سیاست بہت گندی ہوگئی ہے۔ گالی گلوچ کا رواج عام ہو گیا ہے اور اب سیاست میں کوئی اخلاقی حد نہیں ہے۔ جو شخص کرپٹ ترین ، گندا اور چور ہے، وہ اگر ایک ٹوپی اتار کر دوسری ٹوپی پہنتا ہے تو سب برائیوں سے پاک ہو جاتا ہے۔ ہم لوگوں کو اُن کے اعمال کی بجائے سوچ پر جج کرتے ہیں جو بہت بڑا مسئلہ ہے۔  سیاست میں آج کل سوشل میڈیا کے ذریعے گندگی پھیلائی جارہی ہے ، خدا پناہ دے۔ مخالفین انتہائی گندگی پر اُتر آئے ہیں تو کونسا باشعور شخص سیاست میں آئے گا۔

س:آئندہ چند برسوں میں پاکستان کا کیا مستقبل دیکھ رہے ہیں؟

ج: میں جب انگلستان میں گریجوایشن کر رہا تھا تو میں نے ایک دن اپنے پروفیسر سے پوچھا کہ میرا بہتر مستقبل پاکستان میں ممکن ہے یا میں بیرون ملک سکونت اختیار کروں؟ اُنہوں نے بہت خوبصورت جواب دیا کہ ’’تمہارا مستقبل وہ ہوگا جو تم خود بناؤ گے‘‘۔ پاکستان میں وقت کے ساتھ ساتھ مثبت تبدیلیاں بھی آرہی ہیں۔ سی پیک کا منصوبہ ہے۔ عنقریب لوڈ شیڈنگ کا اختتام ہونے والا ہے تو اُمید تو بہتری کی ہے لیکن ہم دنیا میں شاید وہ واحد قوم ہیں جہاں اگر کسی روڈ پر دھماکہ ہوتا ہے تو اگلے دن اُسی روڈ پر پھر سے رش ہوتا ہے یہ شاید ہماری سب سے بڑی خوبی بھی ہے اور سب سے بڑا مسئلہ بھی کیونکہ ایک طرف ہم اتنے لچکدار اور دوسری طرف اتنے ڈھیٹ کہ ہمیں فرق ہی نہیں پڑتا۔ لیکن اگر کوئی بڑا تجربہ نہیں ہوتا جیسے 70 اور 80 کی دہائی میں ہوا تھا اور تمام ریاستی ادارے آپس میں ہم آہنگی کے ساتھ ملکی مفاد کے لئے کام کرتے ہیں تو انشاء اللہ آنے والے سال پاکستان کے بہتر مستقبل کی ضمانت ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).