میں نے جنسی علم کیسے حاصل کیا؟


میں سکول میں تھا جب دوستوں سے سننے میں آتا کہ سیکس کوئی چیز ہے اور مرد و عورت کے مابین ہوتا ہے۔ ہم لڑکے شرارت میں ایک دوسرے سے کہتے تھے کہ اوئے تمہارے گھر چوہی چوہا لڑتے ہیں ؟ ایسی باتیں ہم سن کر اور باتیں کر کے زور زور سے قہقہے مارتے تھے۔

میری خوش قسمتی یا بدقسمتی کہ میں بچپن و لڑکپن میں بہت خوبصورت تھا جسے دیسی اصطلاح میں چکنا کہتے ہیں۔ ہر وقت سکول ، بازار اور مسجد میں نگاہیں تعاقب کرتی تھیں۔ سوائے گھر کے کسی اور جگہ تنہائی اذیت ناک ہوتی تھی۔ لوگ گود میں بٹھانے اور بوسہ لینے کی کوشش کرتے اور اچھی طرح سے سمجھ آتا تھا کہ کس انکل کا کیا مقصد ہے۔ ایسے بہت سارے واقعات ذہن میں محفوظ ہیں جو بتاتے ہیں کہ جنسی طور پر مجھے کیسے ہراساں کیا جاتا تھا اور اس کا میری نفسیات پر کیا اثر تھا۔ سب سے بڑا اثر یہ کہ خود اعتمادی نہیں رہی تھی اجنبی لوگوں کے آگے۔ بعد میں بات سمجھ آئی تھی کہ جب کوئی ہراساں کرے تو بڑے کزنز کو بتا دینا چاہئے۔ ایک بار ایسا ہوا کہ ایک تانگے والے نے مجھے ایک جگہ تنہا پا کر دبوچ لیا۔ میں نے خود کو چھڑایا اور ساری طاقت جمع کر کے غم و غصہ سے جا کر اپنے ایک بڑے کزن “خواجہ عبدالطیف” کو بتا دیا کیونکہ میں اس سے بہت فری تھا، اس نے جا کر اس بندے سے خوب دھلائی کی ، یوں کچھ عرصہ کے لئے اس بندے سے جان چھوٹ گئی۔

لڑکپن میں جنسی معاملات سے متعلق معلومات نہیں تھیں جس کا نتیجہ یہ تھا کہ مجھ سمیت میرے ہم عمر اکثر لڑکے اس الجھن میں ہوتے تھے کہ کہیں مردانہ صلاحیت میں کمزور تو نہیں۔ یوں حکیموں کے پاس جاتے تھے اور ان کے پاس ایک ہی تشخیص ہوتی تھی کہ معدے ، جگر یا مثانہ میں گرمی ہے۔ پیسے دیتے تھے اور الجھن بڑھتی جاتی تھی۔

ایک بار جرات کرکے اپنے ایک چاچو سے میں نے پوچھ لیا تھا کہ مجھے پیشاپ کے بعد سفید رنگ کے قطرے آتے ہیں، آپ بتائیں میں کیا کروں ؟ انہوں نے کہا کہ تم گندی فلمیں دیکھتے ہو گے اور سموسے کھاتے ہو گے یہ چھوڑ دو۔ دونوں معاملات ایسے نہیں تھے مگر مجھ سے وہ انسلٹ برداشت نہ ہو سکی اس لئے صرف دوستوں سے مشورے کرتا رہا جو کہ پہلے ہی میری طرح نفسیاتی الجھن کا شکار تھے۔ ہر ایک کے پاس ایک نسخہ ضرور تھا جیسے رات کو اسبغول بھگو کر رکھیں۔ صبح کھائیں تو سب گرمیاں ختم ہو جاتی ہیں۔ فلاں چیز اگر رات کو بھگو کر رکھی جائے تو اس کا یہ فائدہ ہے وغیرہ وغیرہ۔

پھر جب میں ایف ایسی سی میں آیا تب ایک دانا آدمی ملا۔ اس نے کہا بھائی تو جوان ہے اور فل مرد ہے۔ پریشان نہ ہو۔ سب ٹھیک ہے۔ وہم کا کوئی علاج نہیں۔ جو چیزیں تم بتا رہے ہو یہ سب نارمل ہے۔ ایزی ہو جا۔ اس دوست کی کونسلنگ کام آئی اور میں نے ان معاملات میں فکر مند ہونا چھوڑ دیا۔

میں اکثر دوستوں سے کہتا ہوں کہ ناک بیمار ہو سکتا ہے، کان کا مرض ہو سکتا ہے، گلے کا، ٹانگوں کا، بازو کا نیز جسم کے ہر عضو کا کسی بھی صحت مند کو کوئی مسئلہ ہو سکتا ہے اور ان سب اعضا کے ڈاکٹر موجود ہیں اور ان اعضاء کے علاج میں کسی کو کوئی دقت نہیں۔ مگر صرف ایک عضو ایسا ہے جس کے امراض کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے ، اس کے ڈاکٹرز ہماری سوسائٹی میں موجود نہیں۔ اس عضو کا استعمال سب کرتے ہیں اور تمام انسانی سرگرمیوں میں سب سے زیادہ جس کی مداخلت ہے۔ پھر کیوں نہ ہر طرف حکیموں کے اشتہار نظر نہ آئیں اور مسئلہ پھر بھی حل نہ ہو ؟

میں نے جب بھی اپنے دوستوں سے اس ضمن میں بات کی ہے سب اس عمر میں بھی اس بارے میں الجھن کا شکار ہیں۔ انہیں دو چیزوں کی اشد ضرورت ہے۔

– ایک بہتر کاؤنسلنگ

– دوم بہتر ٹریٹمنٹ

وگرنہ معاملہ بگڑ رہا ہے۔ حکیموں سے اس ضمن میں بھی علاج کے وہی نقصانات ہیں جیسے ہم طب کے باقی معاملات میں دیکھتے ہیں

آپ اگر سیکس اور تشدد کے موضوع پر تھوڑا سا بھی تحقیقی علم رکھتے ہیں آپ جانتے ہوں گے کہ جب لڑکے جنسی طور پر ناکام ہوتے ہیں تو اپنی فرسٹریشن کی تسکین کے لئے وہ بیوی پر تشدد کرتے ہیں۔ وہ سیکس ورکرز کے پاس جاتے ہیں جو توجہ محبت اور کانفیڈنس فروخت کرتی ہیں کہ تم سب سے اچھے اور پرفیکٹ ہو۔ جسے یہ سہولت میسر نہیں ہوتی وہ لڑکوں کی طرف جاتے ہیں۔ یہ سب مسائل ہماری سوسائٹی میں موجود ہیں۔ لڑکیوں اور بچیوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کرنے والوں کی اکثریت بھی جنسی طور پر ناکام افراد افراد کی ہوتی ہے جو صحت مند سیکس کے قابل نہیں ہوتے۔

سیکس کیا ہے اور اس کی بیالوجی اور نفسیات کے مطالعہ کی طرف میرے رجحان کے دو اسباب ہیں۔  ایک جب میں نے خود پر غور کیا۔ مختلف غذاؤں اور مہینے کے مختلف دنوں ، موسموں اور دن کے اوقات کا اپنی جنسی زندگی پر اثر نوٹ کیا۔ پھر جستجو پیدا ہوئی کہ دیکھوں کہ یہ کیا چکر ہے۔  دوم، جب سیکس اور تشدد کے موضوع کو پڑھا تب ان ریسرچ جرنلز کو پڑھنے لگا جن میں اس ضمن میں تحقیقات شائع ہوتی ہیں۔ اس موضوع کو Andrology کہتے ہیں جس میں ہم مردانہ جنسی عضو کے فنکشنز اور بیماریوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔

ہم نےسیکس کے موضوع کو انتہائی برا بنا دیا ہے باوجود اس کے کہ سب اسی کی پیداوار ہیں۔ سب کرتے ہیں، سب کو مسائل کا سامنا ہے۔ سب دیسی حکیموں کے اشتہار پڑھتے ہیں اور معدودے چند کے سب نے کبوتر کی طرح آنکھیں موند رکھی ہیں۔ اس موضوع کو تہذیب اور شائستگی کے ساتھ مکالمہ کا موضوع بنایئے- یہ لازم ہے وگرنہ تکلیف اٹھائیں گے اور مسائل پھر بھی ختم نہیں ہوں گے۔

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan