آزاد ملک کی کمسن باندیاں اور غلام


ہر سال عالمی سطح پر بچوں کی مزدوری’’ چائلڈ لیبر‘‘ کے خلاف دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کا اعلان پہلی بار جون 2002 کو انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO) نے اپنے کنوینشن نمبر 182 تجویز کے تحت کیا کہ جس کو بشمول پاکستان دنیا کے ممالک نے قبول کیا۔

یہ واقعہ اسی یادگار مہینہ یعنی جون کی 6 تاریخ 2013 کا ہے۔ کہ جب دس سالہ معصوم بچے سے حنا گیلانی نے دودھ کا جگ لانے کو کہا۔ جمیل جو کہ حنا گیلانی اور اس کے شوہر فہیم شاہ بخاری کے گھر کا ملازم تھا۔ جو اپنے آٹھ سالہ بھائی جاوید اختر کے ساتھ اس متمول گھرانے کی خدمت پہ معمور تھا۔ یہ جمیل کی بدقسمتی کہ ننھے کمزور ہاتھ سے شیشے کا جگ گر کے ٹوٹ گیا۔ یہ خطا مالکن حنا کے لئے اس قدر طیش کا باعث بنی کہ اس نے ٹوٹے ہوئے جگ کے شیشے کو اٹھا کر جمیل پہ اس بری طرح مارا کہ وہ شدید زخمی ہو گیا۔ بجائے ہسپتال لے جانے کے اس مجبور اور غریب بچے کو جون کی سخت گرمی میں چھت پر ڈال دیا گیا۔ اس کی حالت دیکھ کر اس کے آٹھ سالہ بھائی جاوید نے گڑگڑا کر حنا سے خوشامد کی کہ جمیل کو ہسپتال لے جایا جائے تو اس کی بھی خوب پٹائی ہوئی۔ آخر اس بے بسی میں جمیل کی موت واقع ہو گئی۔ میت مرنے کے دو دن بعد بھی گرمی میں سڑتی رہی۔ بالآخر گھر والوں کو یہ کہہ کر میت واپس دے دی گئی کہ جمیل کسی بیماری میں مبتلا ہو کر مر گیا ہے۔ لیکن حقیقت کھلنے کے بعد جمیل کے والد نے پاکستان کے قانون آرٹیکل 302 اور 356 کے تحت ایف آئی آر درج کروائی۔ تاہم اس عرصے میں میاں بیوی روپوش ہو چکے تھے واضح ہو کہ ملتان کے زمیندار گھرانے کی حنا گیلانی سابق وزیر یوسف رضاگیلانی کی قریبی رشتہ دار ہے۔

یہ دلخراش واقعہ پاکستان جیسے ملک میں کہ جہاں کے طبقاتی نظام میں قانون کی بالادستی ایک دیوانے کا خواب بن چکی ہو، کوئی نیا نہیں۔ اس گھٹیا نظام سے جونک کی طرح چمٹی بہت سی برائیوں کے ساتھ ایک عذاب جو مسلسل ہزاروں کم سن اور معصوم بچوں پہ ٹوٹا ہوا ہے۔ وہ دوسروں کے گھروں میں ان کی خدمت پہ ماموری ہے۔ اکثر یہ بچے اپنے والدین سے کوسوں دور اور ایسے گھرانوں میں ملازمت کر رہے تھے جو ان کے لئے بیگار کیمپ کی حیثیت رکھتے ہیں۔

کہنے کو پاکستان اور اس کے علاوہ بھی دنیا کے ترقی پذیر ممالک آزاد تسلیم کیے جاتے ہیں مگر آزاد ملکوں میں یہ بچے عہدِ غلامی کی پابندیوں اور غلاموں کی طرح زندگیاں بسر کر رہے ہیں۔ اپنے بچپن سے منہ موڑے، ماؤں کی گودوں کی ٹھنڈک سے بچھڑے، تعلیم اور دوسرے بنیادی حقوق سے محروم ان بچوں کے کے مستقبل کا کوئی پرسان حال نہیں۔ دوسروں کے رحم و کرم پر پڑے ہوئے یہ ننھے منے بچے کم سنی میں دوسروں کے بچوں کو پال رہے ہوتے ہیں۔ اوروں کو آرام پہنچانے والے بچوں کی جھولی میں جہالت کے اندھیرے، غربت کی محرومیاں، تکلیف دہ بیماریاں، زیادتیاں اور عمر بھر کی عزیمت کا چکر ہے کہ جس سے نکلنے کا ایک ہی طریقہ ہے، وہ ہے سماج کی سوچ میں تبدیلی اور قانونا اس مکروہ جدید دور کی غلامی پر پابندی اور قانون پر سختی سے پابندی۔

آئی ایل او کے مطابق اس وقت دنیا میں 215 ملین بچے کسی نہ کسی قسم کی مزدوری سے وابستہ ہیں۔ جن میں سے ایک سو پندرہ ملین بچے ایسی مزدوری کر رہے ہیں جس سے ان کی صحت، تحفظ اور اخلاق کو خطرہ لاحق ہے۔

جدید دور کی غلامی کی شکل گھریلو ملازمین ہیں جو چائلڈ ڈومیسٹک ورکرز (CDW) کہلاتے ہیں اور ان کی ملازمت کو چائلڈ ڈومیسٹک لیبرز (CDL) کا نام دیا گیا ہے۔ ان بچوں کی تعداد دنیا میں ساڑھے دس ملین ہے۔ (ILO) جن میں سے ساڑھے چھ ملین بچوں کی عمریں پانچ سے چودہ سال کے درمیان ہیں۔ بچوں کی مزدوری کے ناطے پاکستان کا نمبر دنیا میں تیسرا ہے۔ (IL0۔ 2014) جن میں سے 264000 بچے گھریلو ملازم ہیں۔ اٹھارہ سال سے کم عمر والے یہ بچے گھروں کی صفائی، ستھرائی، استری، برتن اور کپڑے دھونے، چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال اور بوڑھوں کا خیال رکھنے کے علاوہ بھی مختلف امور کی انجام دہی پر مامور ہوتے ہیں۔ یہ بچے کبھی اجرت اور کبھی بغیر اجرت کے کھانا اور گھر میں رہنے کی مراعات کے حق دار ہوتے ہیں۔ لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ یہ بچے مسلسل حق تلفی کا شکار ہو رہے ہیں۔ ان کو بیچا جا رہا ہے۔ ان پر تشدد اور زیادتیاں (جسمانی، جنسی اور جذباتی)روا ہیں اور انتہائی صورت میں جان سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ بچوں کی مزدوری کے خلاف قوانین کے باوجود یہ بچے غذائیت، کپڑے، علاج، معالجہ کی سہولیات اور تعلیم کے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔

لاکھوں کی تعداد میں کام کرنے والے ان بچوں کی ملازمتوں کے کئی عوامل ہیں لیکن سب سے بڑی اور اہم وجہ غربت ہے جو بیروزگاری، بڑے خاندان اور پاکستان کے موجودہ حالات میں ہر سطح پر ہونے والی بدعنوانی، سیاسی ابتری، دہشت گردی اور لا قانونیت کے سبب ہے۔ مذہبی انتہاپسندی کے ہاتھوں تشدد کے واقعات نے اقلیتوں کو بے گھری پہ مجبور کر دیا۔ اس کے علاوہ قدرتی آفات مثلا سیلاب، زلزلہ، قحط، خشک سالی وغیرہ وہ حالات ہیں جس کی وجہ سے ملک کی ایک تہائی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے کی سطح پہ شمار کی جاتی ہے۔ ہماری پسماندگی کے باعث ملک کا ہیومین ڈویلپمنٹ انڈکس (HDI) کل 177ممالک کے مقابلے میں 135 نمبر پر ہے۔ یہ بات عیاں ہے کہ تعلیم سے محرومی، غربت اور انسانی غلامی کا گہرا سنجوگ ہے۔ گھریلو ملازمت کرنے والے یہ بچے جب تعلیم اور ہنر سے محروم ہوں گے تو مستقبل میں غربت کی چکی میں پستے رہنے کے امکانات قوی ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے پاکستان کی حیثیت ایجوکیشن ڈویلپمنٹ انڈکس کے اعتبار سے ایک سو بیس ممالک کے مقابلے میں 113 ویں نمبر پہ ہے۔ اس سے واضح ہے کہ تعلیم حکومت کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔ اس سلسلے میں عورتوں اور لڑکیوں کے خلاف جنسی تفریق کی وجہ سے تعلیم کی محرومی بھی کوئی چھپی بات نہیں۔

حالانکہ 1973 کے پاکستانی دستور نے جنسی تفریق کو روا نہیں رکھا۔ مگر جب قوانین صرف کتابوں میں بند ہوں اور سماج کی سوچ میں تبدیلی نہ ہو تو حقوق کا ذکر مذاق لگتا ہے۔ گھروں میں کام کرنے والے بچوں کے ساتھ جو تشدد چھپا ہے اس کا (اور دوسری معاشرتی خرابیوں کا) سرا ہماری سماجی روایات اور ثقافت سے جڑا ہوا ہے کہ جہاں کم عمر بچوں اور دوسروں کے گھروں کا کام اجرت پر کروانا اتنا برا نہیں سمجھا جاتا۔

کمسن بچوں کے ساتھ ہونے والے تشدد کے چند واقعات، جو جسمانی، جذباتی اور جنسی سطح پر پیش آئے۔
جسمانی اور جذباتی تشدد: یہ واقعہ گیارہ سالہ شان علی کے ساتھ (6 جون 2012 کو درج ہوا)پیش آیا۔ شان اسلام آباد کے متمول عطیہ حسنین اور مدثر عباس کے گھر ملازم تھا۔ یہ بچہ گھر میں مردہ پایا گیا۔ مالکان کا اصرار تھا کہ خود کشی ہے۔ کیونکہ اس کی گردن کے گرد پردہ بندھا ہوا تھا۔ بعد میں عطیہ نے بتایا کہ اس نے غصے میں گلا گھونٹ کے مارا کیونکہ وہ ان کے سات ماہ کے بچے کو چپ نہیں کرا پا رہا تھا۔ جبکہ وہ سونا چاہ رہی تھی۔ یہ جوڑا گرفتار ہوا مگر شان کے والدین کے پاس قانونی چارہ جوئی کے لئے رقم نہ تھی۔ وہ اس جوڑے کو معاف کرنے پر راضی ہو گئے۔

لاہور، پنجاب کی پانچ سالہ لائبہ ایک جوڑے آصف اور یاسمین کے گھر کام کرتی تھی۔ ایک دن بچی کا غلطی سے باورچی خانہ میں پیشاب نکل گیا۔ غصہ میں اس کو اتنا مارا گیا کہ بچی مر گئی۔ مجرموں نے اقبالِ جرم کر لیا۔ جس پر پولیس نے گرفتار کر لیا۔ واقعہ کی رپورٹ 26 اپریل 2011 کو درج ہوئی۔

جنسی تشدد: سولہ سالہ اقرا (گوجرانولہ، پنجاب)جنسی تشدد کے بعد قتل کر دی گئی۔ اس کا مالک بابو جاوید سیاسی عہدیدار تھا۔ اس نے اقرا کو بجلی کے شاک دے کر اور جنسی آبرو ریزی کے بعد قتل کر دیا گیا۔ اسی طرح لاہور کی اٹھارہ سالہ تانیہ جولائی 2010 میں اپنے مالک کے گھر کی چھت سے لٹک کر مر گئی۔ اسے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

اقلیتی فرقوں سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ زیادتی بہت عام ہو چکی ہے۔ چودہ سالہ سمیرا مسیح مارچ 2010 میں اسلام آباد کے گھر میں بری طرح تشدد کا نشانہ بنی۔ اس کے مالکان کو شک تھا کہ اس نے سونے کے زیور چرائے تھے۔ اس کی اور اس کے بھائی کی اتنی پٹائی ہوئی کہ اب وہ چلنے سے معذور ہے۔

یہ دلخراش واقعات حقائق پر مبنی ہیں۔ اس قسم کی صورتحال میں اس خام خیالی کو دل سے نکالنا ضروری ہے کہ گھریلو ملازمت نسبتا محفوظ ہوتی ہے۔ تو آخر کیا کیا جائے؟

1۔ سب سے پہلے ضروری ہے کہ واقعات سے متعلق اور کام کرنے والے بچوں کے بارے میں اعداد و شمار اور معلومات مہیا ہوں۔
2۔ آگہی کو بڑھایا جائے اور سماج کے رویے کو بدلنے کی کوششیں ہوں جو کمسن ملازموں کو ملازم رکھنے میں کسی قسم کا عار نہیں رکھتے۔
3۔ ریاستی پارٹیز مناسب قوانین اور پالیسی کو نافذ کریں اور سماجی اور تعلیمی اقدامات اٹھائیں جو اب بچوں کو تشدد سے محفوظ رکھیں۔
4۔ قانونی چارہ جوئی کی جائے۔

5۔ کم از کم عمر کا تعین ہو اور اس پر پابندی کو یقینی بنایا جائے۔ اور اگر عمل نہ ہو تو جرمانہ عائد کیا جائے۔
6۔ بچوں کو ممکنہ خدشات سے آگاہ کیا جائے۔
7۔ ویڈیو، پوسٹر کارڈ تحریکیں عوامی مقامات سے شروع ہوں۔
8۔ میڈیا کا استعمال مثلا ریڈیو، اخبار، ڈرامہ، سیمینارز، انٹرایکٹو تھیٹر وغیرہ کو اپنے ساتھ ملا کر چلنا ضروری ہے۔
یاد رکھیے کہ ایک دوسرے کے تعاون سے ہی تبدیلی آئے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).