جنسی تعلیم ضروری مگر۔۔۔


ایک سوال ہے قارئین سے۔ ہم میں سے کتنے ہیں جنہیں بلوغت کے بعد پیش آمدہ مسائل ہمارے والدین، اساتذہ نے بتائے تھےیا بچپن میں جنسی زیادتی سے بچنے کے لیے آگاہی فراہم کی گئی تھی؟ یقیناً اکثریت کا جواب نفی میں ہے۔ ماسوائے چند ایک اور یہ اگر حسن ظن کی بنیاد پر طے کریں تو یہ چند ایک سینکڑوں میں ایک ہیں ورنہ حقیقی عدد تو اس سے بھی کم ہے۔ اب جنسی تعلیم تو ضروری ہے اگر والدین نہیں کریں گے، یا اساتذہ مناسب طریقے سے نہیں بتائیں گے تو میڈیا اور معاشرہ تو پھر کر ہی رہا ہے۔ پھر زینب جیسے واقعات ہونے پر شکوہ کیسا؟

بجا طور پرسانحہ قصور کے بعد ہرآنکھ اشک بار ہے۔ ہر دل مغموم ہے۔ ہمارے گھروں میں زینب جیسی بیٹیاں اور بہنیں موجود ہیں اور ہر کوئی اپنی زینب کی حفاظت کے لیے فکر مند دکھائی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے ہر طبقہ کی جانب سے اس سانحے کے خلاف نہ صرف پرزور احتجاج ریکارڈ کروایا گیا ہے بلکہ مجرموں کی جلد از جلد گرفتاری اور انہیں قرار واقعی سزا دلوانے کا مطالبہ بھی سامنے آیا ہے۔ اس مقصد کے لیے احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے ہیں۔

اس سانحے کے بعد جہاں دیگر بہت سے موضوعات پر بحث کا آغاز ہوا ہے وہیں جنسی تعلیم کا معاملہ شدو مد سے ابھر کر سامنے آنے لگا ہے۔ اگرچہ یہ مطالبہ ایک مخصوص طبقے کی جانب سے ہے تاہم معاملات کا رخ اس مطالبے کی شدت میں اضافہ کا باعث بن رہا ہے۔ دوسری طرف اسلام پسند طبقے کی طرف سے جنسی تعلیم کو عام کیے جانے کی بھرپور مخالفت ہو رہی ہے۔ یہاں اگر چند سوالات کو سامنے رکھ لیا جائے تو قضیہ سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ پہلا سوال اسلام پسندوں سے ہے کہ کیا اسلام جو ایک مکمل دین ہے اور زندگی کے ہرپہلو میں مکمل راہنمائی فراہم کرتا ہے اس میں جنسی تعلیم کا کوئی تصور موجود ہے؟ اسلامی فقہ اور تعلیمات سے شغف اورصاحب مطالعہ ہر فرد اس بات کا جواب اثبات میں دے گا کیونکہ احادیث میں واضح تذکرہ موجود ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا مسلمان خواتین کو ان کے مخصوص مسائل کے بارے میں تعلیم دیا کرتی تھیں۔ یہیں پر بس نہیں بلکہ صحابیات نبی کریم ﷺ سے بھی آکر مسائل پوچھا کرتیں اور آپﷺ ان کی رہنمائی فرمایا کرتے تھے۔ مزید براں فقہی و احکام و مسائل کی کتب میں بھی ان معاملات پر باقاعدہ تعلیمات موجود ہیں۔ گویا اسلام جنسی تعلیم اور بعد از بلوغت معاملات کی مکمل رہنمائی کرتا ہے۔ مزید براں بچوں کے حوالے سے بھی اگر دیکھا جائے تو نبی کریمﷺ کی تعلیمات واضح ہیں کہ کس طرح انہیں ان معاملات میں بچایا جاسکتا ہے۔

الغرض اسلام میں جنسی تعلیم کا تصور موجود ہے۔ پھر اگر اسلام بھی جنسی تعلیم کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور لبرلز بھی جنسی تعلیم کو عام کرنا چاہتے ہیں تو پھر جھگڑا کس بات کا ہے۔ اس کے لیے ہمیں ہر دو طبقات کا جنسی تعلیم کا تصور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ لبرلز کے نزدیک جنسی تعلیمات سے بظاہر یہی ثابت کیا جارہا ہے کہ اس کا مقصد بچوں کو جنسی زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے باعث آگاہی فراہم کرنا ہے اور انہیں ایسے واقعات سے بچانا ہے مگر حقیقت حال کچھ مختلف ہے۔ قارئین کو اگر یاد ہو تو کچھ عرصہ قبل پنجاب میں برگد نام کی ایک این جی او کی طرف سے ایسے ہی واقعات کو بنیاد بنا کر جنسی تعلیم کا آغاز کیا گیا تھا۔ اس وقت بھی یہی ظاہر کیا گیا تھا کہ بچوں کو بڑھتے ہوئے جنسی زیادتی کے واقعات سے بچانا مقصود ہے مگر جب پڑھایا جانے والا مواد سامنے آیا تو بالکل مختلف تھا۔ اس میں بچوں اور بچیوں کو اس بات کی تعلیم دی جارہی تھی کہ انہیں آپس میں دوستی کس طرح سے رکھنی ہے۔ اور اگر اس دوستی میں معاملہ جنسی اختلاط تک پہنچ جائے تو کونسی احتیاطی تدابیر اختیار کرنی ہیں کہ حمل سے بچا جاسکے۔ گویا زنا بالرضا کی پوری ترغیب دی جارہی تھی۔ اس وقت معاملہ نمایاں ہونے پر ہائیکورٹ کی جانب سے اس پر پابندی لگائی گئی تھی۔ حالیہ دنوں میں سندھ میں بعینہ صورتحال ہے۔ وہاں بھی این جی اوز جنسی تعلیم کے نام پر بچوں اور بالخصوص بچیوں کو محفوظ جنسی عمل کے طریقوں سے آگاہ کر رہی ہیں۔

الغرض اسلام میں جنسی تعلیم کا مقصد بلوغت اور اس کے متعلقہ مسائل سے آگاہ کرنا ہے اور اس کا مقصد جنسی بے راہ روی سے بچانا بھی ہے۔ جبکہ موجودہ لبرلز کے ہاں جنسی تعلیم کا مقصد زنا بالرضا کو فروغ دینا ہے۔ اس ضمن میں اگر زنا بالجبر سے بچاؤ کی کچھ حفاظتی تدابیر بھی بتائی جاتی ہیں تو وہ بجائے فائدہ کے نقصان کا باعث بنتی ہیں۔

سانحہ قصور کے بعد اس بحث کو چھیڑ کر لبرلز یہ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں کہ جنسی تعلیم ہی اس مسئلے کا واحد حل ہے۔ جبکہ یورپ اور امریکہ جہاں یہ جنسی تعلیم عام ہے اس کے باوجود وہاں بڑھتے ہوئے جنسی زیادتی کے واقعات اور بالخصوص بچوں سے ہونے والے واقعات کی شرح میں تیزی سے اضافہ اس حل کی ناکامی کا ثبوت ہے۔ پاکستان میں البتہ ایسے بڑھتے ہوئے واقعات کی وجوہات بہت سی ہیں۔ ان میں میڈیا پر بڑھتی ہوئی فحاشی، گرل فرینڈ کلچر، نکاح کو مشکل اور زنا کو آسان بنانا ہے۔ لیکن ان وجوہات کے علاوہ ایک بڑی وجہ وہ سوال ہے جو آغاز میں پوچھا گیا تھا۔

ہمار ے اسلام پسند احباب اور والدین میں سے کہ کتنے ایسے ہیں جو بچوں اور بلوغت کے قریب اپنی اولاد کو ان تمام مسائل سے آگاہ کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ جب ہم جائز دروازے بند کرتے ہیں تو پھر چور دروازے کھلنے لگتے ہیں۔ اولاد کے جوان ہونے پر متعلقہ مسائل سے اگر انہیں مناسب طریقے سے آگاہ نہیں کیا جائے گا تو پھر معاشرہ اور میڈیا انہیں آگاہ کرے گا اور اس کے ساتھ بہت سی خرافات بھی در آئیں گی۔ لہٰذا اس معاملہ پر لبرلز سے شکوہ بجا کہ جنسی تعلیم کے نام پر نصاب میں محفوظ جنسی عمل کے طریقے نا بتائے جائیں مگر والدین اور اساتذہ سے بھی گزارش ہے کہ اس معاملے کی حساسیت کے پیش نظر بچوں کی تربیت کریں۔ لڑکے اور لڑکیوں دونوں کی تربیت ہی اہم ہے۔ اس لیے یاد رہے کہ جنسی تعلیم ضروری ہے مگر والدین اور معتبر اساتذہ کے ہاتھوں نا کہ میڈیا اور معاشرے میں موجود لبرز کے ہاتھوں۔ یہ اس لیے کہ ہمارے گھروں میں موجود زینب محفوظ رہے اور آئندہ ہمیں کسی کی لاش کوڑے سے نا اٹھانی پڑے۔

حنظلہ عماد احمد
Latest posts by حنظلہ عماد احمد (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).