صرف جنسی تعلیم نہیں، زاویہ بھی بدلو!


کچھ لوگ زندگی بھر چاہتے ہیں کہ ان کی سنی جائے اور کچھ مر کر اپنی صدا پوری دنیا کو سنا دیتے ہیں۔ ننھی زینب بھی ہمارے لیے ایسی ہی مشعل راہ بن چکی ہے۔ اس افسوسناک واقعہ کے منظر عام پر آتے ہی میڈیا میں طرح طرح کے بحث و مباحثہ اور گزارشات شروع ہو گئی ہیں۔ سب سے زیادہ زور دیا جا رہا ہے کہ جنسی تعلیم کا آغاز کیا جائے، سوال یہ ہے کہ جس جنسی تعلیم کا فروغ آپ دینا چاہتے ہیں، کیا اس کو عمل میں لانے سے مسائل کم ہو جائیں گے، وہ کیسا نصاب ہو گا کہ جن سے محض آگہی ہی ممکن ہو؟ کیونکہ بچے بالاخر بچے ہیں۔ یہ عمر کی اس سطح پر نہیں ہیں جن کو ہم شعور کہتے ہیں۔ انھیں اس کے باوجو د بھی بہلایا پھسلایا جا سکتا ہے۔ کیا خود سے ان کی معصومیت چھین لینا المیہ نہیں ہے؟

دوسری طرف عامر خان کی جنسی تعلیم پر مبنی سیریز ہندوستان میں اور ویسٹ کلچر بھرپور ترقی یافتہ کہلائے جانے کے بعد بھی اس مسئلے کو آج تک حل نہیں کر سکا۔

یہ سمجھنا بھی بے حد ضروری ہے کہ Sexual Harassment اور Sexual abuse دو الگ نوعیت کے مسائل ہیں، ہمارے یہاں زیادہ بحث اور اقدام کا تعین پہلی کیٹگری کے لیے تو ہو سکتا ہے، مگر معصوم بچی زینب کے لیے نہیں، اگرچہ وہ بھی ایک سنگین مسئلہ ضرور ہے۔ Good touch اور Bad touch کی تعلیم اغوا اور اس کے بعد زیادتی کے کیس میں کام نہیں آ سکتی۔ یہاں آ کر ناکامی خالصتاَ ہمارے اداروں کی ہے۔

اس سلسلے کی دوسری گزارش یہ ہے کہ ہم لوگ معصوم بچوں میں جنسی تعلیم کے فروغ پر تو زور دے رہے ہیں، خاتون خانہ کڑی تنقید کا نشانہ بن رہی ہے، لیکن اس معاشرے میں مرد کے شعور کو اجاگر کب کیا جائے گا؟ کیا اس کرب ناک صورتحال سے نبٹنے کے لیے خواتین اور بچے ہی رہ گئے ہیں، اور مرد کی تربیت کی کوئی ذمہ داری نہیں؟

اگر توجہ دینی ہے تو ایسے اقدامات پر زور دیں کہ مردوں کی یہ ”ہٹ دھرم“ سوچ بدل جائے۔ جتنا تحفظ بچوں کو ماں سے چاہیے اتنا اسے مرد ذات سے بھی چاہیے۔ دنیا میں بیشتر جگہوں پر جنسی حرکات میں ملوث افرادکو مختلف کورسز کے ذریعےآگہی دی جاتی ہے تاکہ وہ قابل اور پر اعتماد شہری بن سکیں۔ پاکستان ایک کثیر آبادی ملک ہے، ہمیں بھی ایسے اقدامات کا آغاز کرنا ہو گا تاکہ ہم موجودہ دور کے مسائل سے نبٹ سکیں۔ دور قدیم کے عربی ادب میں ایسی روحانی شخصیات کا تذکرہ بھی موجود ہے جو تنہائی میں کمسن بچوں کی صحبت سے بچا کرتے تھے، اگرچہ تب معاشرہ اور لوگ کتنے ہی شریف النفس تھے۔

اب آ جاتے ہیں ایک اہم نکتہ کی جانب کہ، بچوں میں آگہی کے حوالے سے ہمارے یہاں آج بھی نویں دسویں کے بچے ”پیاسا کوا“ اور ” لالچ بری بلا ہے ” کے سبق سے باہر نہیں آرہے، پھر کم عمر بچوں کا حال تو اور بھی مختلف ہے۔ ہمارا نصاب، تحاریر اور موضوعات عملی اور حقیقی دنیا سے یکسر مختلف ہوتے جا رہے ہیں، ایسا اس لیے ہے کہ وقت کے ساتھ ہمیں ان میں ترمیم کی ضرورت ہے۔

بے شک ہمارا معاشرہ ”عورت غالب“ کا حامی نہیں ہے، مگر کمسن بچوں کو زیادہ وقت ان کی کسٹڈی میں رکھنا پھر بھی بہتر ہے۔ اپنی مدد آپ کے تحت ہمیں اس موضوع کو ایک مہم کی طرح جاری رکھنا چاہیے۔

اب وقت دنوں سے ہفتے کا سفر شروع کر چکا ہے مگر جو حکومت اور اداروں کی کی صورتحال ہے، اس سے انصاف ملتا نظر نہیں آتا ہاں شاید عوام کے جذبات ٹھنڈے ہونے کا انتظار ہے، کیونکہ آخر کو ہم ایک جذباتی قوم ہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).