ثبات ایک تغیر کو ہے ”نہانے“ میں


اپنے علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں۔ بات تو ان کی بھی ٹھیک ہے مگر اگر ہم اس مصرعے کو یوں کہیں کہ ”ثبات اک تغیر کو ہے نہانے میں“ تو بھی بے جا نہ ہوگا۔ ایک زمانہ تھا کہ ہر دن کا آغاز باقاعدہ غسل سے ہوا کرتا تھا۔ تمام افرادِ خانہ و خاندان اپنی اپنی سہولت کے مطابق غسل خانے کا دورہ فرماتے اور مقدور بھر جسم کو پانی سے آشنا کرتے تھے۔ شاید پانی سے جسم کی آشنائی کو ہی ہندی زبان میں اشنان کہا جاتا ہے مگر چونکہ ہم ہندی زبان پر اتنی ہی قدرت رکھتے ہیں جتنی ہندی فلموں کے توسط سے ہم تک پہنچی ہے اس لیے اس بارے میں ہم یقین سے کچھ نہیں کہ سکتے۔

آپ میں سے اکثر نے ماؤں کی اپنی اولادوں کے ساتھ باہمی کشاکش ملاحظہ کی ہو گی جب مائیں کسی بھی قیمت پر بچے کو نہلانےپر تُلی ہوئی ہوں اور نونہالان وطن مختلف حیلا سازیوں سے اس واقعہ سے بچنے میں مصروف عمل دکھائی دیں۔ زیادہ تر مائیں اپنا مشن کامیابی سے پورا کر لیتی ہیں۔ کچھ ماؤں کو جزوی کامیابی حاصل ہو جاتی ہے۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کوئی ماں اپنی اولاد کو نہلانے کا بیڑا اٹھائے اور اس مقصد میں مکمل ناکامی سے ہمکنار ہو۔ کم از کم ہمیں اپنی یادداشت میں ایسا کوئی واقعہ محفوظ نہیں ملتا جب ہماری والدہ نے ہمیں نہلانا چاہا ہو اور ہم ان سے عدم اتفاق کے باوجود نہانے پر مجبور نہ کر دیے گئے ہوں۔

بچپن میں تو ہم نہ چاہتے ہوئے بھی نہانے پر مجبور کر دیے جاتے تھے مگر آج کل ہم چاہتے ہوئے بھی اکثر نہانے سے محروم کر دیے جاتے ہیں۔ اس بات سے بھی فی زمانہ انکار کرنا ممکن نہیں رہا کہ نہانے کی جو عیاشی اہالیان وطن کو کچھ عرصہ قبل مفت میں میسر تھی اب اس عیاشی کے مواقع مفت میں کم کم ہی میسر آتے ہیں۔ کراچی اور اسلام آباد کے رہنے والے ہماری اس بات کو بخوبی سمجھ چکے ہوں گے۔ جی ہاں۔ ہم قلت آب کا شکار ہو چکے ہیں۔

پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو تیزی سے پانی کے خوف ناک بحران کی طرف بڑھ رہا ہے۔ آئی ایم ایف کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں پانی کی قلت کے شکار ممالک میں پاکستان کا تیسرا نمبر ہے۔ جبکہ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو۔ این۔ ڈی۔ پی کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں پانی کے استعمال کی بلند ترین شرح رکھنے والے ممالک میں پاکستان کا نمبر چوتھا ہے۔ یہی نہیں بلکہ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں ہر قسم کے وسائل کا بے دردی سے استعمال کیا جانا قومی عادتوں میں شمار ہوتا ہے، پانی کے استعمال کا اشاریہ ملک کی مجموعی قومی پیداوار کے تناسب سے (جی ڈی پی کے ایک یونٹ میں پانی کا مکعب میٹروں میں استعمال)دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان میں اس وقت فی کس استعمال کے لیے دستیاب پانی 1017 مکعب میٹر ہے جو کہ پانی کی کمی کے میعار 1000 مکعب میٹر فی کس کے نہایت قریب ہے۔ جبکہ 2009 میں پاکستان میں پانی کے فی کس استعمال کے لیے 1500 مکعب میٹر پانی دستیاب تھا۔ جس تیزی سے پاکستان میں پانی کی کمی ہو رہی ہےاگر اس کی یہی رفتار برقرار رہی تو 2025 تک ممکنہ طور پر پانی کا بحران اتنی شدت اختیار کر سکتا ہے کہ پاکستان میں پانی ڈھونڈے سے بھی نہ ملے۔

اس صورت حال میں جو چیز سب سے زیادہ متاثر ہوتی نظر آ رہی ہے وہ ہمارا نہانا ہی ہے۔ ظاہر ہے کہ روز مرہ کے استعمال کے لیے مہنگے داموں پانی کا ٹینکرمہینے میں سات یاآٹھ مرتبہ ڈلوانا پڑے تو ایک گراں بار محسوس ہوتا ہے۔ ایسے میں روزنہانے کا دل چاہے بھی تو دل پر اکثر پتھر رکھ لینا پڑتا ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ گھروں میں پانی ندارد اور پانی کے ٹینکر کی بروقت دستیابی امر محال بن جاتی ہے۔ تب صورت حال عبرت ناک ہو جاتی ہے۔ اور ابھی تو یہ ٹینکر یافتہ پانی جس کو ارباب بست و کشاد ٹینکر مافیا کے کھاتے میں ڈالتے ہیں، نعمت غیر مترقبہ کی طرح میسر تو ہے۔ خوف تو اس بات کا ہے کہ اگر ٹینکر مافیا بھی عدالت عظمیٰ کے ہاتھوں مقامِ شہادت پر فائز کر دیا گیا تو گنجے نہائیں گے کیا اور نچوڑیں گے کیا والی صورت حال بھی تیار کھڑی دکھائی دیتی ہے۔ حکومت وقت نام کی ایک غیر حاضر قوت تو عرصہ دراز سے اس ذمہ داری سے ہاتھ اٹھا چکی۔

اب ہم ملک میں زرعی استعمال کے لیے پانی کی دستیابی اور فی ایکڑ پیداوار کے لیے پانی کے استعمال اور پانی کے سنگین زیاں کے ہوش ربا اعداد وشمار پیش کر کے آپ کو بور اور اس سے بڑھ کر خوف زدہ نہیں کرنا چاہتے۔ بس اتنا بتائے دیتے ہیں کہ ہمارا زرعی شعبہ جس قدر پانی استعمال کر رہا ہے اپنی پیداوار سے اس پانی کی قیمت کا پچیس فیصد بھی پورا نہیں کر پا رہا۔ گویا پانی کی قیمت کا پچھتر فیصد بوجھ حکومت کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔ اور اس کا براہ راست اثر ہماری مجموعی قومی پیداوار کے اشاریوں پر بھی پڑ رہا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ جی ڈی پی کے حساب سے ہمارا پانی کا استعمال دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔

اس کالم کے توسط سے ہم اہالیان وطن سے درد مندانہ اپیل کرنا چاہتے ہیں کہ خدارا پانی کے استعمال میں احتیاط کریں۔ پانی کی ایک ایک بوند ہماری بقا کے لیے نہایت قیمتی ہو چکی ہے۔ اپنے غسل خانوں اور باورچی خانوں میں بلاوجہ پانی کی ٹونٹیوں کو کھلا مت چھوڑیں۔ باغبانی کے لیے پانی کا استعمال کفایت شعاری سے کریں۔ اپنی گاڑی، موٹر سائیکل وغیرہ کی دھلائی کے وقت گھر کے باہر تالاب بنانے سے گریز کریں۔ جہاں ایک بالٹی سے کام چل سکتا ہو وہاں پانچ بالٹیاں نہ ضائع کریں بلکہ جہاں دو بالٹیوں کی ضرورت ہو وہاں کوشش کریں کہ ایک ہی بالٹی سے کام چل جائے۔ ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جیسے پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے وضو کے بجائے تیمم کرنا پڑتا ہے، مستقبل میں پانی کے ناپید ہونے سے نہانے کے بجائے مٹی میں لوٹیں لگانی پڑ جائیں۔

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad