انتہا پسندی فتوؤں سے ختم نہیں ہو گی


ایک ایسے وقت میں جب امریکہ کی سرکردگی میں پاکستان کے دو ہمسایہ ملک پاکستان پر دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے کے الزامات لگا رہے ہیں اور امریکی عسکری امداد بند کرکے پاکستان سے کہا جا رہا ہے کہ وہ خود کو قابل اعتبار ثابت کرنے کے لئے دہشت گردی کے خلاف اقدام کرے ۔۔۔ حکومت پاکستان نے ملک کے 1800 علما کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف ایک فتویٰ سامنے لانے کا اہتمام کیا ہے۔ اس حوالے سے اسلام آباد میں ایک تقریب بھی منعقد ہوئی جس میں صدر ممنون حسین کے علاوہ وزیر خارجہ خواجہ آصف اور وزیر داخلہ احسن اقبال نے بھی شرکت کی ۔ ’پیغام پاکستان‘ کے نام سے منعقد ہونے والی اس تقریب میں اس فتویٰ کو ملک کے سیاسی اور مذہبی بیانیہ میں اہم سنگ میل قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس طرح پوری قوم کے وقار میں اضافہ ہوگا اور ملک سے انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمہ کی راہ ہموار ہوجائے گی۔

حیرت کی بات ہے کہ جو مذہبی شدت پسندی ملک کے دینی رہنماؤں کی وجہ سے اس انتہا تک پہنچ چکی ہے کہ اس نے دہشت گردی کا روپ دھار لیا ہے اور ملک کا ہر گروہ حتیٰ کہ ہر فرد اپنا پنا علم اٹھائے معاشرے کی اصلاح کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہے، اس ملک کی حکومت انہی مختلف فرقوں کے علما سے فتویٰ لے کر یہ بتانے کی کوشش کررہی ہے کہ ملک نے انتہا پسندی کے خلاف ایک اہم اقدام کیا ہے۔ سوچنا چاہئے کہ اس قسم کی تقریب منعقد کر کے اور مذہبی انتہا پسندی کے خلاف علما کی ’یک جہتی‘ کو اہم واقعہ قرار دے کر خود کو اور قوم کو دھوکہ دینے کی کوشش کی جارہی ہے یا اسے امریکہ پر یہ ثابت کرنے کے لئے استعمال کیا جائے گا کہ حکومت پوری مستعدی سے مذہبی انتہا پسندی کے خلاف سرگرم عمل ہے۔ اگر ملک کے حکمرانوں کا خیال ہے کہ اس قسم کے فتوؤں سے انہیں خارجہ پالیسی کے حوالے سے کوئی ریلیف ملے گا تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔ دنیا کا ہر ملک سامنے آنے والے بیان اور اعلان کے درپردہ اقدامات اور مزاج کو پرکھ کر ہی کسی ملک یا حکومت کے بارے میں پالیسی وضع کرتا ہے۔ البتہ اس قسم کے بیانات سے خود کو ضرور دھوکہ دیا جاسکتا ہے۔ اب تو ملک کا عام آدمی بھی کسی فتوے کے بعد اپنی جان کو محفوظ سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہوگا۔

اس قسم کی فتوے بازی کوئی نئی بات ہے اور نہ پاکستان کے علما نے کوئی انقلاب آفرین کام سرانجام دیا ہے۔ دنیا بھر کے علما گزشتہ دو دہائیوں کے دوران اس قسم کے سینکڑوں فتوے جاری کر چکے ہیں کہ انسان کی جان لینا شریعت اسلامی کے خلاف ہے لیکن اس کے باوجود افغانستان کے طالبان سے لے کر القاعدہ، داعش، الشباب اور درجنوں دیگر دہشت گرد گروپ اسلام کی ’سربلندی‘ کے لئے بے گناہوں کو قتل کرنے کو ہی جنت میں جانے کا آسان ترین راستہ سمجھتے رہے ہیں۔ ان کی بات کو مان کر عملی میدان میں اترنے والوں کی تعداد میں حیرت انگیز اضافہ بھی دیکھنے میں آیا ہے۔ داعش نے جب شام اور عراق میں اسلامی خلافت کے قیام کا اعلان کرکے دنیا بھر میں دہشت گردی کو جائز اور عین اسلامی قرار دیا تھا تو یورپ اور امریکہ میں آباد سینکڑوں مسلمان گھرانوں کے نوجوان اس آواز پر لبیک کہتے ہوئے شام جانے کے بے قرار تھے۔ ان میں سے بہت سوں نے شام پہنچ کر داعش کے مشن میں حصہ لیا اور بعض نے اپنے اپنے ملکوں میں دہشت گردی کے زریعے یہ اعلان کیا کہ وہ داعش اور دیگر انتہا پسندوں کے تباہی اور انسان دشمنی کے پیغام کو ہی اسلام کی سربلندی کا راستہ سمجھتے ہیں۔

پاکستان کی حد تک یہ بات اب کسی سے پوشیدہ نہیں کہ ملک کے دینی رہنما یا دین کے نام پر سیاست کرنے والے گروہ ہی دراصل انتہا پسندی اور دہشت گردوں کی سرپرستی کرتے رہے ہیں۔ اسی ملک میں طالبان کی حمایت کرنے کو ایک درست رویہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ ملک اور فوج کے خلاف اعلان جنگ کرنے والی تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے ہی مذاکرات کا ڈول ڈالا تھا اور یہ اعلان کیا تھا کہ ان ناراض عناصر کو مین اسٹریم میں واپس لایا جائے گا۔ تاہم 2014 کے دوران پہلے کراچی ایئرپورٹ اور پھر پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں المناک دہشت گردی کے بعد فوج کے دباؤ اور اصرار پر یہ مذاکرات ختم ہوئے اور ان گروہوں کے خلاف باقاعدہ جنگ کا آغاز ہؤا۔ اس کے ساتھ ہی اکیسویں آئینی ترمیم کا اہتمام کیا گیا۔ دہشت گردی کے خلاف قومی ایکشن پلان اسی ترمیم کے ذریعے قومی پالیسی کا حصہ بنایا گیا۔ حکومت اس ایکشن پلان پر عمل درآمد کرنے میں تو ناکام ہے لیکن اب دینی علما کے فتوے کی آڑ میں ’قومی بیانیہ ‘ تشکیل کرنے کا دعویٰ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ دیانتداری سے دیکھا جائے تو یہ انتہا پسندی کے خلاف ملک کی حکومت کا اعتراف شکست ہے۔

ابھی چند ماہ پہلے حکومت اور اس کے زیر انتظام ادارے فیض آباد میں دھرنا دینے والوں کے ساتھ معاہدہ کر کے اور ان کے مطالبات تسلیم کرکے پہلی باقاعدہ اور دستاویزی شکست قبول کر چکے ہیں۔ انتہا پسندی کے خلاف جدوجہد کرنے والی کوئی حکومت کسی ایسے گروہ کے ساتھ کیسے مذاکرات کر سکتی ہے جو ملک کے سب سے بڑے صوبہ کے گورنر کے قاتل کو ’اسلام کا مجاہد‘ قرار دے کر سیاسی اور عوامی مقبولیت حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ لبیک تحریک تعصب اور فرقہ واریت کی پیدا وار ہے لیکن متعدد ضمنی انتخابات میں لوگوں کی کثیر تعداد نے اس گروہ کے امیدواروں کو ووٹ دیئے ہیں۔ اور امن وامان اور آزادی تقریر کے نام پر پورا ملک اس کے لیڈروں کی بدکلامی اور قانون شکنی کو شیر مادر سمجھ کر ہضم کرتا رہا ہے۔

ملک میں انتہا پسندی کا خمیر مذہبی جماعتوں اور ان کے مولویوں کی فرقہ واریت اور ایک دوسرے کو کافر قرار دینے کے رویہ سے ہی اٹھا ہے۔ ملک کے اقلیتی و مسلکی گروہوں کے خلاف پر تشدد مظاہرے اکثر و بیشتر دیکھنے میں آتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ مذہبی اقلیتوں کے خلاف ہونے والے مظالم پر مذہبی گروہوں کی اشتعال انگیزی یا خاموشی ہی انتشار، بدامنی اور عدم تحفظ کا احساس پیدا کرنے کا سبب ہے۔ اس مسئلہ کو ان ہی لوگوں کی تائید اور فتویٰ سے حل کرنے کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اس مقصد کے لئے سیاست میں سے مذہب کا اثر و نفوذ ختم کرنے اور ملک کے تعلیمی نظام کو باہمی احترام اور ایک دوسرے کے لئے قبولیت کی بنیاد پر استوار کئے بغیر ملک سے مذہب کے نام پر جاری جنونیت کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ جو علما سیاست میں اہمیت حاصل کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار رہتے ہیں، ملک میں ہونے والے سماجی مظالم کے خلاف ان کی زبانیں گنگ ہوجاتی ہیں۔ قصور میں سات سالہ زینب کے قتل پر ملک کے ہر طبقے اور ادارے نے اپنے اپنے طور پر ردعمل ظاہر کیا ہے لیکن دہشت گردی کے خاتمہ کا فتویٰ دینے والوں کو اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے یا سماج سدھار کی کسی تحریک کا حصہ بننے کا کوئی خیال نہیں آیا۔

حکومت سیاسی مشکلات کا شکار ہے لیکن اگر وہ ان مشکلات سے مذہبی رہنماؤں کی انگلی پکڑ کر نکلنا چاہتی ہے تو اس سے بہتری کی امید کرنا ممکن نہیں۔ سیاست میں مذہب کا عمل دخل ختم کئے بغیر پاکستان میں امن قائم ہونا محال ہے۔ اس مقصد کے لئے مولویوں کو مسند پر بٹھانے کی بجائے انہیں دیانتداری سے اپنا کام کرنے پر مجبور کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ اپنے اپنے منبر اور مرکز سے لوگوں کو امن سے رہنے کی تبلیغ کریں۔ نفرت عام کرنے والوں کی زبان بندی کا اہتمام کیا جائے۔ قومی ایکشن پلان کا بھی یہی تقاضا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali