وبا کے دنوں میں لکھی گئی ایک لاپتہ غزل
جو رقص میں تھے کل سرِ بازار لاپتہ
ہونے لگے ہیں میرے سبھی یار لاپتہ
٭ ٭ ٭
ہوتے ہیں روز ہی یہاں دو چار لاپتہ
کیا ہو جو رضی تم بھی ہو اس بار لاپتہ؟
٭ ٭ ٭
کردار کا سراغ لگانے کے واسطے
کرنا پڑیں گے صاحبِ کردار لاپتہ
٭ ٭ ٭
پہلے شجر چمن کے سبھی گم کئے گئے
اب کر دیا ہے سایہء دیوار لاپتہ
٭ ٭ ٭
پہلے ہر اک مکان گرایا گیا یہاں
پھر کر دیئے گئے سبھی معمار لاپتہ
٭ ٭ ٭
خوشبو بغیر پھول تھے وہ بھی نہیں رہے
اک راستہ کہ وہ بھی تھا دشوار لاپتہ
٭ ٭ ٭
مسند پہ جا کے دیکھا تو خرقہ نہ تھا کہیں
سر پر رکھا جو ہاتھ تو دستار لاپتہ
٭ ٭ ٭
اب تو صدا کوئی بھی کہیں گونجتی نہیں
گنبد تمام شد سبھی مینار لاپتہ
٭ ٭ ٭
تاریخ کا سبق یہ ہمیں یاد ہے ابھی
بیعت سے جس نے بھی کیا انکار لاپتہ
٭ ٭ ٭
اعجاز عشق کا ہے کہ گم خود کو کر دیا
لو ہو گیا ہوں میں رضی مسمار لاپتہ
Latest posts by رضی الدین رضی (see all)
- سپریم کورٹ کا سجدہ سہو اور بھٹو صاحب کی جھلک دیکھنے والا بچہ - 04/04/2024
- غضنفر شاہی، ماہ صیام اور عمران خان - 26/03/2024
- خوشی آئین میں لکھی ہوئی دفعات جیسی ہے - 21/03/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).