عقل سے دستبرداری


صدر ٹرمپ کے دھمکی آمیز ٹویٹ پر اُنہیں پاگل یا خبطی قرار دے کر دل کی بھڑاس نکالنا اوربات، لیکن کیا پاک امریکہ تعلقات میں گہری دراڑیں پڑنے پراس ردعمل کو دانشمندانہ قرار دیا جاسکتا ہے؟ ہم عقل و شعور کے دریچے عین اُس وقت بند کرلیتے ہیں جب اُنہیں کھلا رکھنے کی انتہائی ضرورت ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹرمپ بے سروپا باتیں کرنے کی شہرت رکھتے ہیں، لیکن اُن کےاس موقف، کہ پاکستان افغان مسئلے کا حل نہیں، حصہ ہے، پر امریکہ اور باقی دنیا میں اتفاق پایا جاتا ہے۔ کیا ہمیں اس پر پریشان ہونا چاہئے یا نہیں؟

کسی بڑی طاقت کے جارحانہ عزائم کو بھانپتے ہوئے اپنے بچائو کی کوشش کرنا فطری بات ہے، لیکن کیا اس پر غور نہیں ہونا چاہئے کہ اس کی نوبت کیوں آئی، اور اگر عقل سے کام نہ لیا گیا تو اس کے نتیجے میں ہولناک تباہی آ سکتی ہے؟ ہم یہ راگ الاپتے رہتے ہیں کہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت سی قربانیاں دی ہیں ۔ ایسا کرتے ہوئے ہم خود کو یا د دلاتے ہیں کہ ہم نے توکوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا لیکن دنیا اس کا ادراک نہیں کرتی۔ ہم یہ سوچنے کی زحمت نہیں کرتے کہ اگر دنیا ہماری پروڈکٹ نہیں خرید رہی تو کیا ہماری مارکیٹنگ کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے یا پھر پروڈکٹ ہی ناقص ہے؟

امریکہ ہمارے ساتھ پاگل پن کا رویہ کیوں دکھا رہا ہے، اس کی ہمارے پاس مندرجہ ذیل دلیل ہے: چونکہ امریکہ افغانستان میں جنگ ہار رہا ہے، اس لئے اُسے الزام لگانے کےلئے کوئی قربانی کا بکرا چاہیے۔ سازش کے رنگ میں رنگی اس دلیل کے پچاسوں شیڈز ہیں، لیکن حرفِ آخر یہ کہ چونکہ امریکہ اپنے سیکورٹی مفاد کے لئے ہماری سیکورٹی کو دائو پر لگارہا ہے ، ہمارے پاس لڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اب تعلقات میں جتنا بگاڑ آتا ہےآنے دیں۔ امریکہ چاہتا ہے کہ ہم حقانی نیٹ ورک اور طالبان کو اپنی سرزمین پر محفوظ ٹھکانے فراہم نہ کریں۔ اسے یقین ہے کہ جب تک ہم اُن کی سرپرستی سے دستبردار نہیں ہوں گے، افغانستان میں موجود امریکی فورسزجنگ نہیں جیت سکتیں۔

دنیا کو سنانے کے لئے ہمارا بیانیہ یہ ہے کہ ہمارا حقانیوں یا طالبان سے کوئی تعلق نہیں ۔ نجی طور پر ہمارا موقف یہ ہے کہ حقانیوں یا طالبان کے ساتھ تعلق جنگ زدہ افغانستان میں ہمارے مفاد کا تحفظ کرسکتا ہے کیونکہ وہاں دیگر تمام عناصر کا جھکائو انڈیا کی طرف ہے ۔ ایک اور ضمنی دلیل یہ ہے کہ اگر ہم حقانیوں یا طالبان کو اپنے ہاں سے نکالنے کا فیصلہ کربھی لیں تو بھی شاید ہم اُنہیں اپنی بات منوانے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ چنانچہ ایسی کوشش ہمارے گلے پڑ سکتی ہےاور مغربی سرحد پرہمارا واحد فریق ہمارے ساتھ دشمنی پر اتر آئے گا۔ اور وہ ہمیں نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

گویا ہمارا سنجیدہ تجزیہ یہ ہے کہ اگر ہم امریکہ اور افغان فورسز کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال بھی دیں تو بھی ہم طالبان کواتنا کمزور نہیں کرسکتے کہ جنگ زدہ افغانستان کو ایک آزاد اورخود مختار ریاست میں ڈھالا جا سکے۔ تو پھر اس کی کوشش کرکے طالبان کو اپنا دشمن بنانے میں کوئی منطق نہیں۔ دوسری طرف امریکہ کو یقین ہے کہ ہم اُن کے خلاف کارروائی کرنا ہی نہیں چاہتے۔ وہ ہماری دلیل پر یقین کرنے کےلئے تیار نہیں۔ اُس کا خیال ہے کہ طالبان کی افغانستان پر حکومت ہمارے مفاد میں ہے۔ ممکن ہے کہ سچائی ان دونوں کے درمیان کہیں ہو۔

ہمارا طالبان کے ساتھ رویہ ہمارے وسیع ترموقف ، ہماری قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے معروضات پرسوالات اٹھاتا ہے ۔ ایک لمحے کے لئے امریکہ کو بھول جائیں۔ ہم طالبان کو مغربی سرحد پر اپنا بہترین اثاثہ کیوں گردانتے ہیں حالانکہ جب وہ افغانستان پر حکومت کرتے تھے تو ہم اُن پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے؟ کیا افغان طالبان نے تحریکِ طالبان پاکستان کی حمایت نہیں کی؟ کیا پاکستانی طالبان نے اُن سے تقویت پاتے ہوئے فاٹا میں اسلامی ریاست قائم نہیں کی اور ریاست پاکستان کے خلاف جنگ شروع کردی؟ یا جب تحریک طالبان پاکستان کے جنگجو پاکستانی شہریوں کا خون بہا رہے تھے تو کیا یہ دلیل نہیں دی گئی تھی کہ ہم اُن کے خلاف جنگ نہیں کرسکتے کیونکہ ناکام جنگ پورے ملک میں میں آگ بھڑکا دے گی؟

ہمیں پاکستانی طالبان کے خلاف جنگ کرنے کےلئے اے پی ایس کے سانحے کا انتظار کیوں کرنا پڑا؟ کیا اُن کے انتہا پسندانہ نظریات ہمیں باور کرانے کےلئے کافی نہ تھے کہ اُن کے اور پاکستانی ریاست کے مفادات میں ایک جیسے ہوہی نہیں سکتے؟ یا پھر ہم ابھی قبائلی سوچ سے آگے نہیں بڑھ سکے، اور ’’اچھے دہشت گردوں‘‘ اور ’’خراب دہشت گردوں‘‘ کی پالیسی کی جڑیں اسی دور میں گڑی ہیں۔ کیا ہم دہشت گردی کی اصل وجوہ کے بارے میں سوچنے سے قاصر ہیں ، اور کسی بڑے سانحے کے انتقام کے طور پر ہی کچھ کارروائی کرتے ہیں؟

ہمارے رویے اس انداز میں کیوں ڈھلے ہیں کہ کوئی واقعہ ہمیں مشتعل کردیتا ہے اور ہم ہنگامی اقدامات پر تل جاتے ہیں، لیکن مسائل کی اصل وجوہ کا تدارک کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے؟اے پی ایس کے بعد ہم نے نیشنل ایکشن پلان بنایا۔ ہم نے انتہا پسندی کو ختم کرنے کا عزم کیا۔ ہم نے دہشت گردوں کو پھانسی دینےکے لئے فوجی عدالتیں قائم کیں۔ لیکن ہم لال مسجد کے مولاناعبدالعزیز، جو نفرت کا پرچار کرنے میں آزاد ہیں، کو سزا دینے میں ناکام رہے ۔ہم نے عالمی دبائو کیوجہ سے حافظ سعید کو نظر بند کردیا لیکن کیا دنیا نہیں جانتی کہ ریاست اُنہیں ایک بوجھ کی بجائے ایک اثاثہ گردانتی ہے؟ جیشِ محمد کے مسعود اظہرکا بھی یہی معاملہ ہے۔ اُنہیں پٹھان کوٹ بیس پر حملے کے بعد حراست میں لیا گیا تھا لیکن سزا کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اگلے روز فضل اللہ کے سُسر صوفی محمد کو بھی ضمانت پر رہا کردیا گیا۔ ریاست اُن کے خلاف ٹھوس ثبوت فراہم کرنے اور سزا دینے میں کیوں ناکام رہی؟ کیا ہم دنیا کے ساتھ کھیل کھیل رہے ہیں یا اپنے ساتھ؟ کیا مسعود اظہر، حافظ سعید، عبدالعزیز اور صوفی محمد کو اثاثہ سمجھنا پاکستان کی سیکورٹی کو تقویت دیتا ہے؟

کیا کوئی ایسا وقت آئے گا جب غداری کا الزام سہے بغیر سیکورٹی پالیسی کا ناقدانہ جائزہ لینا ممکن ہوگا؟ جو انداز فکر طالبان کو افغانستان میں اثاثہ سمجھتا ہے، چاہے اس کےلئے امریکہ سے تعلقات کی قربانی کیوں نہ دینی پڑے، یہ وہی ہے جومسعود اظہر اور حافظ سعید کو بھارت کے خلاف غیر روایتی جنگ میں اثاثہ سمجھتا ہے۔ یہ وہی سوچ ہے جو عبدالعزیز اور صوفی محمد کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑاکرنے سے گھبراتی ہے اور جو مذہبی جنونیت اور انتہا پسندی کو سیاست میں لاکر جمہوریت کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے۔ اور ان تمام کو ’’وسیع تر قومی مفاد‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔

ہمارے ہاں مثبت تنقید کرنےو الوں پر توچڑھائی کردی جاتی ہے لیکن ہر قسم کی انتہا پسندی پھیلانے والوں کومرکزی سیاسی دھارے میں لایا جاتا ہے، نفرت انگیز تقاریر کرنے والے خادم رضوی کو انعام سے نوازا جاتا ہے؟ ہم کس طرف جارہے ہیں اگر ہمارے ملک کو کنٹرول کرنےو الی طاقتیں احمد نورانی اور طہٰ صدیقی کوقومی سلامتی کے لئے خطرہ سمجھتے ہوئے خاموش کرادیں لیکن ملی مسلم لیگ اور تحریک لبیک کو سہارا دینا ضروری سمجھیں توتشدد پر تعجب کیسا؟

ایک گھٹن زدہ ریاست میں اذیت پسند معاشرہ ہی پروان چڑھ سکتا ہے۔ اے پی ایس کے بعد ہمارا خون کھول اُٹھا۔ ہم بہت سے افراد کو پھانسی پر لٹکا کر اُن بچوں کے خون کا حساب برابر کرنا چاہتے تھے۔ ہمارا خیال تھا کہ اس سے انتہا پسندی کا خاتمہ ہوجائے گا۔ کریمنل جسٹس سسٹم کو بہتر بنائے بغیر ہم نے پھانسیاں دینا شروع کردیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سفاک سزائوں سے ہی انسانی رویہ بہتر ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں مقبول بیانیہ یہ ہے کہ چند ایک کو پھانسی پر چڑھا کر نشان عبرت بنادیں، باقی راہ راست پر آ جائیں گے۔

معصوم بچی زینب کے قتل پر بھی ہمارا ردعمل یہی ہے۔ اگر ہم اس کیس میں انتقام اور پھانسی چاہتے ہیں لیکن ہم اُن لاکھوں بچوں کے لئے کچھ کرنے کے لئے تیار نہیں جنہیں اس ہوس زدہ معاشرے میں درندگی کا سامنا ہے ۔ کیاوزیر اعلیٰ پنجاب، سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور فوجی کمان کی طرف سے اس واقعہ کے لئے گئے نوٹس کے بعد کریمنل جسٹس سسٹم اور قانون کی حکمرانی کو تقویت دینے کےلئے کچھ کیا جائے گا؟

بدقسمتی سے ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ ہم یہ نہیں سوچیں گے کہ بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات صرف ہمارے معاشرے تک ہی محدود نہیں بلکہ دیگر معاشروں میں بھی ایسا ہوتا ہے۔ وہاں کے اربابِ اختیارواقعات میں ذاتی طور پر دخل دینے کی بجائے نظام کی درستی کے اقدامات اٹھاتے ہیں۔ ہم سوچتے ہیں کہ سخت سزائیں ڈیٹرنس ہوتی ہیں۔ نہیں، جرم کے بعد سزا ملنے کا یقین ڈیٹرنس ہوتا ہے ۔
عقل سے دستبردار ہونا، خوش فہمی کا شکار رہنا، دنیا کو للکارتے پھرنا، اپنے مسائل کے لئے سازش کی تھیوریاں ٹکسال کرنا، انتہا پسندوں کو سرپر بٹھاکر امن کی امید کرنا کس چیز کی علامت ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بابر ستار

بشکریہ روز نامہ جنگ

babar-sattar has 43 posts and counting.See all posts by babar-sattar