شہر کے مزید پھیلاؤ کی دعا


میں ایک پاکستانی ہوں۔ ساتھ میں تھوڑا ذہن رکھنے کا دعویٰ بھی پال رکھا ہے۔ سوچنا میرا مشغلہ ہے، لکھنا میرا فرض، اور باتیں کرنا میرا شوق۔ باتوں باتوں میں میں نے ایک دن اپنے زمیندار بھائی سے کہا کہ بھائی جب بھی میں اپنے سسرالی گاﺅں جاتی ہوں مجھے بہت دکھ ہوتا ہے میرے گاﺅں میں درختوں کے جھنڈ کے جھنڈ کاٹے جا رہے ہیں اور ایک بہت بڑی کالونی پھیل رہی ہے لوگوں کو پر سکون رہائشی کالونی مل رہی ہے ۔مگر کوﺅ ں کی کائیں سنائی نہیں دیتی گرمیوں میں کوئل نہیں کوکتی کھڑی فصلوں میں موجود پانی میں سفید بگلے نظر نہیں آتے۔

آموں کی نایاب ترین قسمیں ختم ہورہی ہیں۔ اب میں طوطا پری آم کے لئے ترستی ہوں۔ لنگڑا بھی خال خال ہی کسی باغ میں ہوگا جو ابھی اس کالونی کی حدود میں نہیں آیا ہو گا۔ میں نے شکایتی انداز میں بھائی سے کہا کہ میر ے گاﺅں میں گرمیوں میں مجھے گرمی نہیں لگتی تھی مگر اب لگتی ہے۔ اے سی بہت ضروری ہے کہ ہر وقت چلتا رہے۔ بل کا کوئی مسئلہ نہیں۔ میں ادا کرلوں گی مگر کچن میں کام کرتے ہوئے بہت گرمی لگتی ہے ۔گاﺅں میں اب ساگ اور سہانجنا بھی نہیں ہیں۔ آ پ اپنے گاﺅں سے منگوا دیں۔ پھر میں نے کہا کہ اگلی تحریر میں پھیلتے ہوئے شہروں پر اعتراض کی صورت میں لکھوں گی۔ میرے علاقے سے آموں کی فصل ختم ہو رہی ہے اب بھی کچھ نہ کیا تو کب کروں گی مگر آبادی کے لحاظ سے شہروں کا پھلاﺅ روکنا مشکل کام ہے اسلام آباد کی طرح نئے شہر بسانا ہوں گے۔ بنجر علاقوں میں پھر وہاں روزگار، انتظامی ڈ ھانچا، سرکاری دفاتر، ریل کا نظام، ہوائی اڈا، صنعت وحرفت، پانی، بجلی، گیس سب کچھ مہیا کرنا پڑے گا مگر فصلیں تو بچ جائیں گی۔ پکے مکانوں میں رہ کر ہم پولتھین تو نہیں کھا سکتے۔ شائد جب فصلیں نہ رہیں تو غذا گولیوں کی صورت ملے پر وہ آلو گوشت یا بھنڈی توری کا ذائقہ کہاں سے آئے گا۔ تندور کی روٹی اور پراٹھے کی عادی قوم کیا کرے گی؟ اگر بھینسیں چارے کے بغیر مر جائیں گی تو کیا ہو گا؟ صرف بھینسیں ہی کیوں سب جانور پرندے مر جائیں گے ان کے لئے بھی کیا کیپسول بنیں گے غذا کے لئے۔ بھائی نے یاد دلایا کہ تم نے فون پر کہا تھا کہ تمھیں مجھ سے کوئی ضروری کام ہے تو وہ بتاﺅ پھر مجھے کہیں جانا ہے۔

میں بولی بھائی میں بہت پریشان ہوں آپ تو جانتے ہیں کہ میں بچوں کے ساتھ رہتی ہوں ۔مجھے لگتا ہے کہ وہ مجھ سے تنگ ہیں ۔مجھے دو کمروں کا ایک گھر لے دیں یہ جو نئی ہاوسنگ سکمیں ہیں یہ قسطوں پر بھی گھر دے رہی ہیں میں جانتی ہوں کہ آپ کے پاس مکمل ادایئگی کی رقم جمع نہیں پڑی کیونکہ آپ ایک اوسط درجے کے زمیندار ہیں اور بال بچے دار ہیں۔ پھر بھی کچھ تو کریں۔ بھائی بولا کہ پیاری بہن اگر تم چاہتی ہو کہ عزت سے الگ گھر میں رہو اور میں تمھیں مالی طور پر سپورٹ کرتا رہوں تو یہ  شہروں کے پھیلاﺅ اور فصلوں کی تباہی پر رونا بند کرو۔ یہ شہروں کا پھیلاﺅ ہی تو ہے کہ میرے جیسے کاشت کاروں کو فوری رقم فراہم کر رہا ہے اور پھیلنے دو شہر کو۔ اس کے حق میں لکھو۔ ابھی بہت فصلیں باقی ہیں۔ بہت سا زرعی علاقہ باقی ہے بس شہر کو میرے گاﺅں تک آنے دو پھر تمھیں الگ رہائش کی سہولت مل جائے گی ورنہ ہم کاشت کاروں کو کیا منافع ہو رہا ہے نقلی سپرے ناقص کھاد بجلی کے بحران کی وجہ سے پر وقت پانی کی عدم فراہمی اور سب سے بڑھ کر تیار فصلوں پر قیمت کا گر جانا خرچہ ہی نہیں پورا ہوتا جو فصل پر کیا ہوتا ہے پڑتال کرو اور دیکھو ہم کسان کتنے قرضوں میں ڈوبے ہوئے ہیں دعا کرو کسی ہاﺅسنگ سکیم والے کی نظر ہمارے گاﺅں کو بھی پڑ جائے پھر تمھیں چھوٹا نہیں، بڑا گھر لے دوں گا مگر بھائی ہم کھا ئیں گے کیا۔ تو اس نے جواب دیا ہماری فصلیں تو اب بھی برباد ہو جاتی ہیں گندم گوداموں میں سڑ جاتی ہے سب کچھ امپورٹ ہو رہا ہے جو تم کھاتی ہو آگے بھی امپورٹڈ ہی غذا کھاﺅ گی مگر تم اور میں جیب میں پیسے ہونے کی وجہ سے خوب بے فکری سے کھا ئیں گے اے سی چلے گا کچن میں بھی بھائی مگر ماحولیاتی زبوں حالی؟ ارے فلٹرز لگوائیں گے۔ گاڑی میں بھی اے سی ہو گا پر باقی لوگ؟ تم اپنی فکر کرو ۔

اس ساری گفتگو کے بعد میں دعا کر رہی ہو ں کہ شہر میرے بھائی کے علاقے تک پھیل جائے۔ اب  میں اپنے آج کے لئے اپنی نسلوں کا کل قربان کرنے پر آمادہ ہو چکی ہوں اور مجھے روکتا بھی کوئی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).