آزادی نسواں کو ہضم کرنا مشکل ہے


وہ آزادی نسواں کا پرچارک ہی نہیں بلکہ اسے عملی جامہ پہنانے کا خواہاں بھی تھا۔ جس طرح ایک زمانے میں انگلستان میں دو چار عملی سوشلسٹ سرمایہ دار پیدا ہوئے تھے جنہوں نے مزدوروں کو بنیادی انسانی سہولیات دینا شروع کی تھیں اسی طرح اس نے بھی یہی خیال کیا کہ جہاں اور جس طرح اس کا بس چلتا ہے وہ عمل کرے گا۔ ماں تو قدامت پرست تھی بہنوں پر ماں اور بڑے بھائیوں کی گرفت تھی۔ وہ اس کی باتیں سنتی تو تھیں لیکن کچھ بڑھ کر کرنا ان کے بس میں نہیں تھا۔ تام اس نے یہ نہیں سوچا تھا کہ اس طرح کوئی مثال پیدا ہوگی کیونکہ مثالیں تو پہلے بھی کچھ کم نہیں تھیں مگر ایسی خواتین کی اکثریت اشرافیہ میں دیکھنے کو ملتی تھی۔ متوسط طبقے میں اس نوع کی نسوانی آزادی کو معیوب خیال جاتا تھا۔ یہ آج سے قریب نصف صدی پہلے کی بات ہے جب عورتوں کو اتنے بھی حقوق حاصل نہیں تھے جتنے آج ہیں اور آزادی تو کم و بیش تھی ہی نہیں۔

تب اس کی ملاقات ایک رجعت پسند درمیانے طبقے کی لڑکی سے ہوئی تھی۔ دونوں نے ریت روایات کا ٹھٹھا اڑاتے ہوئے ایک دوسرے کو قبول کر لیا تھا۔ خواہش تو ان کی تھی کہ بیاہ کے بندھن میں نہ ہی بندھیں بس سارتر اور سمون کی طرح یا امرتا اور ساحر کی طرح رہیں مگر پاکستان نہ تو فرانس تھا اور نہ ہندوستان۔ پھر وہ دونوں نہ ہی جن لوگوں کا نام لیا گیا ہے ان کی طرح معروف تھے۔ اس لیے بیاہ کا بکھیڑا کرنا ہی پڑا جس نے پہلی رات سے ہی ان کے تعلق کو مسموم کرنا شروع کر دیا تھا۔

بہرحال معاملہ چونکہ آزادی نسواں پر عمل درآمد کرنے کا تھا، اس لیے وہ اپنے دونوں قدامت پسند گھرانوں سے دور جا کر رہنے لگے تھے۔ وہ اپنے لیے جینز جیکٹ خریدتا تو ویسے ہی اسے بھی خرید کر دیتا جن میں ملبوس ہو کر وہ موٹر سائیکل پر راولپنڈی سے مری کے چکر کاٹتے، ہنستے، دیکھنے والوں کا مذاق اڑاتے اور انہیں آنکھیں مارتے پھرتے۔ وہ کہا کرتے ہم لوگوں کو ہیجان میں مبتلا کرنے میں مصروف ہیں۔ وہ دونوں مرد دوستوں کی محفل میں بیٹھتے تو اسے ہر وہ حرکت اور عمل کرنے کی آزادی تھی جو ساتھی مرد کرتے۔ ان کے گھر میں دانشوروں، سیاست دانوں، سیاسی کارکنوں، نوجوانوں کا آنا جانا رہتا۔ سب ایک ہی میز پر بیٹھ کر کھانا کھاتے۔ ان میں سے جو زیادہ قریب ہوتے وہ ان کے کمرہ خواب تک میں آ جا سکتے تھے۔ کبھی کسی نے کسی پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا اور اعتراض کرنے کی کوئی وجہ بھی نہیں تھی۔

ایک معاملہ جو ان کے باہمی تعلقات بگاڑ رہا تھا وہ معاشی عدم استحکام تھا۔ آئے دن ان کی لڑائیاں ہوتیں مگر وہ جو کہتے ہیں کہ میاں بیوی کا کیا ہے، دو شیطان ہوتے ہیں پھر مل بیٹھتے ہیں۔ بری بھلی گزر رہی تھی۔ پھر تعلقات کے تالاب میں حماقت کا ایک پتھر پڑا۔ اس نے اس گمان سے کہ کہیں اس کی شریک کسی عارضے کا شکار نہ ہوجائے، اس سے اپنی ایک ایسی واحد لغزش کا ذکر کر دیا جو حالت نشہ میں سرزد ہوئی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ اس کی شریک اسے سمجھتی ہے، وہ اس کی یہ بات بھی سمجھے گی جو وہ اس کی بھلائی کی خاطر اسے بتا رہا ہے۔ مگر اس سے رشتے میں دراڑ پڑ گئی، یہ اس کی شریک کا کہنا تھا۔ اسے ایک بار پھر قلق ہوا کہ اگر یہ رشتہ بیاہ کا نہ ہوتا تو دراڑ ہوتی ہی نہ۔

وہ پہلے بھی اس پر تکیہ نہیں کرتی تھی۔ سارے کام خود ہی بھاگ دوڑ کر کر لیا کرتی تھی۔ البتہ وہ اسے ڈرائیونگ سکھانے کے حق میں نہیں تھا کہ کم از کم اسے اس سلسلے میں تو اس کی مدد لینی ہی پڑتی ہے۔ دراڑ کیا پڑی اس نے کسی اور سے گاڑی چلانا سیکھ لی۔ اب وہ اس سے تقریباً آزاد ہو کر گھومتی پھرتی تھی اور وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہتا تھا۔ روز و شب البتہ ویسے ہی چل رہے تھے، اسی طرح مرد و زن، دوست و شناسا ان کے ہاں اتے تھے۔ کسی کو کسی سے ملنے کی مناہی نہیں تھی۔ مگر کشیدگی بڑھتی چلی گئی۔ بظاہر اس کی وجہ اخراجات پورے نہ ہونا ہوتی مگر تلخی کسی اور عنصر کا شائبہ دیتی تھی۔

اس نے مناسب یہی جانا کہ کچھ عرصے کے لیے اس سے دور ہو جائے۔ جب کئی ماہ کے بعد وہ لوٹا تو اس نے اسے دوبارہ گھر چھوڑنے سے منع کیا۔ وجہ یہ بتائی کہ اسے خود سے ڈر لگتا ہے۔ اسے کچھ باتوں سے اندازہ تو ہو گیا تھا کہ آزادی کا نشہ سر چڑھنے لگا ہے مگر اپنی ہی دی ہوئی آزادی کو اگر اب وہ چاہتا بھی تو ختم نہیں کر سکتا تھا۔ ویسے وہ ایسا چاہتا بھی نہیں تھا۔ اس نے اس سے ٹوہ لینے کی کوشش کی، مگر اس نے کچھ نہ بتایا۔ ادھر ادھر سے کچھ معلومات اور شواہد ملنے پر اس نے اسے سمجھانا چاہا تو اس نے طوفان کھڑا کر دیا کہ تم مجھ پر شک کرتے ہو۔ میں جو تمہارے دوستوں کی مشترکہ محفلوں میں عفیفہ رہی۔ معاملہ اور بگڑ گیا۔

بالآخر نتیجہ وہی نکلا کہ اس نے عدالت جا کر خلع لے لیا۔ وہ ایک بار پھر گھر آیا تو یہ کہتے ہوئے کہ میں اس کو مانتا ہی نہیں تاہم میں دستخط کر دیتا ہوں کیونکہ ہمارے تعلقات بیاہ کی وجہ سے نہیں بلکہ مشترکہ افہام کے سبب ہیں۔ اس نے بھی ایسے ہی ظاہر کیا جیسے واقعی کچھ نہ ہوا ہو۔ مگر جیسے ہی وہ ایک بار پھر گھر سے دور گیا۔ اس نے عدت پوری کی اور اس دستخط شدہ کاغذ کی بنا پر اس شخص سے شادی کر لی جو اس کا دوست نہیں دشمن تھا۔ اسے تقریباً دس سال اس دشمن کے نرغے میں رہنا پڑا تاوقتیکہ اس سے بھی عدالت کے ذریعے آزادی نہیں لے لی۔

اس اتھل پتھل سے ان کی زندگیوں پر جو منفی اثرات پڑنے تھے سو پڑے مگر ان کے بچوں کی نفسیات بگڑ گئی۔ وہ تعلیم حاصل نہ کر پائے۔ ماں کو چھوڑ نہیں سکتے تھے۔ باپ کو بھلا نہیں سکتے تھے۔ ان پر نہ ماں کی گرفت پہلے والی رہ سکی تھی، غیر مرد کی گرفت ان کی ماں نے پڑنا قبول نہ کیا، یوں بیک وقت کئی زندگیوں میں ایسا بھونچال آیا جس کے اثرات مٹائے نہ مٹ سکے۔

وہ جن پر اجتماعی طور پر بہت بندشیں ہوتی ہیں ان میں سے اگر کسی کو انفرادی طور پر آزادی بلکہ آزادیاں مل جائیں وہ اسے ہضم کرنے کے خمرے یعنی اینزائمز سے عاری ہوتے ہیں چنانچہ آزادی ان سے ہضم نہیں ہوتی، چاہے غلام ہوں یا عورتیں۔ آزادی مجرد نہیں ہوتی۔ آزادی کے لیے معروضی حالات اور مناسب ماحول ہونا ضروری ہے جس میں معاشی اور عمرانی دونوں طرح کی آسائشیں ہوں۔ بصورت دیگر آزادی کا مفہوم سمجھنا اور سمجھانا مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ ارد گرد کا ماحول وہ نہیں ہوتا جس میں آزادی پنپ سکے۔ مجھے اپنی ایک دوست یاد آ رہی ہے جس کے ساتھ دوستی کا بہت ہی انسانی تعلق ہے۔ ایک بار ہم ایک صوفے پر ساتھ ساتھ بیٹھے تھے تو اس نے یک لخت مجھ سے کہا کہ ذرا دور ہٹ کے بیٹھ رہو، میں نے حیرت سے پوچھا کہ کیا ہوا؟ وہ بولی دیکھو یہ گھریلو ملازم ہماری دوستی کے اوصاف سمجھنے سے قاصر ہیں۔

مجھے جھٹکا تو لگا مگر اس کی کہی بات غلط نہیں لگی۔ ایسی ہی ایک مثال تب کی ہے جب مجھے ایک سیاسی پارٹی کی جانب سے خواتین کا سٹڈی سرکل شروع کرنے کو کہا گیا تھا۔ میرا پہلا لیکچر ”آزادی، آزاد خیالی اور آزاد روی“ پر تھا۔ اس لیکچر کے دوران مجھے چھ آٹھ آنکھیں کچھ زیادہ روشن اور متجسس دکھائی دی تھیں۔ میں ڈر گیا تھا کہ اگر ان میں سے کسی کو آزاد رو ہونا زیادہ مناسب لگا تو میں کیا کروں گا کیونکہ ان میں سے کوئی کسی دوست کی بہن تھی اور کوئی کسی دوست کی بیٹی یا بیوی۔ پھر تب میں جوان تھا اور آزاد خیال تو آج بھی ہوں اگرچہ عمر اور مذہب پر کاربند ہونے نے مشکیں کسی ہوئی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).