مسلم لیگ نواز کے خلاف پلان اے، بی اور سی


سابق وزیر اعظم میاں نوازشریف کی نا اہلی کے بعد اب لگتا ہے کہ میاں شہباز شریف کی باری آ گئی ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن پر ایک طرف تو عدالت میں کیس چل رہا ہے اور دوسری طرف طاہرالقادری اور متحدہ اپوزیشن نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ذمہ دار وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور وزیر قانون میاں ثناء اللہ کو ٹھہرایا ہے اور ان کے مطابق ان کے استعفوں سے ہی لواحقین کو انصاف مل سکے گا۔ یاد رہے کہ طاہرالقادری اور عمران خان، چوہدری برادران، شیخ رشید اور کسی حد تک آصف علی زرداری بھی شریف خاندان کو جیل بھجوانے کے خواہشمند ہیں۔ آصف علی زرداری سینیٹ کے انتخابات کا التوا چاہتے ہیں کہ کسی طریقے سے پاکستان مسلم لیگ ن کی ایوان بالا میں اکثریت کو روکا جائے تاکہ پاکستان پیپلز پارٹی اپنے اتحادیوں سے مل کر چیئرمین سینیٹ کی سیٹ اپنے پاس رکھ سکے اور آنے والے انتخابات میں ایک دفعہ پھر پیپلز پارٹی وفاق میں ایک مخلوط حکومت بنانے میں کامیاب ہو سکے۔

عمران خان صاحب میاں شہباز شریف کے استعفیٰ میں ہی اپنی کامیابی دیکھ رہے ہیں کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ میاں شہباز شریف ہی ان کے راستے کا آخری کانٹا ہیں۔ اس کے بعد پورا پنجاب ان کا ہو جائے گا اور وزیر اعظم بننے سے ان کو کوئی بھی نہیں روک سکے گا۔ مسلم لیگ ق کے چوہدری برادران بلوچستان میں مسلم لیگ ن کے وزیر اعلیٰ کے استعفیٰ کے بعد ق لیگ کے وزیر اعلیٰ کے خواب کو شرمندہ تعبیر ہو تا دیکھ کر پنجاب میں دوبارہ جنرل مشرف کے دور والے لیگی دھڑوں کو ایک ہوا دیکھنے کا خواب دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں کہ شاید شریف خاندان کے سیاست سے نکلنے کے بعد ان کا کھوٹا سکہ چل سکے گا۔ شیخ رشید بھی اپنی وزارت کے خواب دیکھتے نظر آ رہے ہیں کہ کسی بھی طریقے سے شریف خاندان سیاست سے دستبردار ہو جائے اور ان کی پیش گوئیاں درست ثابت ہو سکیں اور وہ میڈیا اور سیاست میں اپنا مزید نام پیدا کر سکیں۔

اس وقت یہ تجزیے کیے جا رہے ہیں کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کو جمہوریت سے کیا لینا دینا۔ اگر ملک میں جمہوریت کا بیڑا غرق ہو بھی جائے تو بھی ان کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ مگر پاکستان پیپلز پارٹی جس کی جمہوریت کے لیے قربانیاں اور آمریت کے خلاف طویل جدوجہد کی تاریخ ہے ہو وہ کیا سوچ کر ڈاکٹر طاہرالقادری کے احتجاج میں شامل ہو رہی ہے؟ کیا پاکستان پیپلز پارٹی صرف اور صرف ماڈل ٹاؤن کے لواحقین کو انصاف دلانے کے لیے اس احتجاج میں شامل ہو رہی ہے یا پھر معاملہ کچھ اور ہی ہے؟ عمران خان صاحب کا تو ایک ہی خواب ہے کہ وہ پاکستان کے وزیر اعظم بن جائیں۔ مگر ان کو اس کے لئے پنجاب سمیت پورے پاکستان سے قومی و صوبائی نشستوں پر اکثریت لینا پڑے گی جو بظاہر بہت مشکل بلکہ ناممکن نظر آتا ہے کیوں کہ صوبہ سندھ اب بھی پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے پاس ہے۔ اسی طرح پنجاب سے پاکستان تحریک انصاف کو کچھ سیٹیں تو مل سکتی ہیں مگر پورے پنجاب سے اکثریت لینا اور ن لیگ اور شریف خاندان کو الگ کر کے شکست دینا مشکل ہے۔ اسی طرح بلوچستان میں بھی ملا جلا رجحان رہے گا۔ دیگر سیاسی اور مذہبی جماعتیں بازی لے جائیں گی اور خیبر پختونخوا میں بھی عوامی نیشنل پارٹی اور سیاسی اور مذہبی عناصر تحریک انصاف کو کلین سویپ کرنے نہیں دیں گے۔

طاہرالقادری، شیخ رشید اور دیگر ہم خیال لوگ ابھی تک آصف علی زرداری اور عمران خان کو اس حد تک تو قریب لے آئے ہیں کہ وہ ایک کنٹینر پر آگئے ہیں کہ میاں شہباز شریف اور پنجاب حکومت کے خاتمے کے لیے ہم آواز ہو کر لب کشائی کریں۔ اس احتجاجی مظاہرے کی شروعات ملک میں ن لیگ کی حکومتی کارکردگی، سانحہ ماڈل ٹاؤں سے لے کر مظلوم زینب کے وحشیانہ قتل سے ہوں گی۔ پنجاب حکومت کے خاتمے اور مسلم لیگ ن پنجاب کے سیاسی اثر و رسوخ کو ختم کرنے کے لیے پلان ( اے) یہ ہے کہ سب سے پہلے اس احتجاجی مظاہرے میں میاں شہباز شریف اور رانا ثنااللہ کے استعفیٰ کے حوالے سے زور ڈالا جائے گا اور اسی کے ساتھ حکومتی بیانیے کو بھی جانچا جائے گا تاکہ ن لیگ کے لائحہ عمل کو دیکھا جا سکے کہ وہ کس حد تک قربانی دینے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔

اگر میاں شہباز شریف قربانی دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے تو پھر اس کے بعد پلان (بی) پر عمل درآمد شروع کیا جائے گا جس میں تمام حکومت مخالف سیاسی اور مذہبی جماعتیں ایک ہو جائیں گی اور احتجاجی مظاہرے دھرنوں اور جلسے جلوسوں میں تبدیل ہو جائیں گے اور ملک کو مفلوج کر کے حکومتی خاتمے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ اگر اس وقت تک ن لیگ کی حکومت قائم رہی تو اس کے بعد آخری پلان (سی) ہوگا جس میں بلوچستان، سندھ اور خیبرپختوںخواہ کی اسیمبلیاں توڑ کر ن لیگ کی حکومت کا خاتمہ کیا جائے گا اور اس سیاسی بحران سے پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق اپنا اپنا سیاسی فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ اور حالات کے تقاضوں کے مطابق پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی دوریاں نزدیکیوں میں تبدیل ہو جائیں گی اور یہ بھی ممکن ہے کہ کل کے سیاسی حریف، حلیف بن کر شریف خاندان کی سیاست کا خاتمہ کریں۔ جو بظاہر تو ممکن دکھائی نہیں دیتا مگر اس ملک کی سیاسی تاریخ بہت سی انہونیاں دیکھ چکی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).