حرفِ ندامت آدھا انصاف


اس برطانیہ میں انیس سو تریپن میں ڈیرک بینٹلے کو عدالت نے سزائے موت دے دی لیکن پھانسی کے پینتالیس برس بعد عدالت نے دوبارہ کیس کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ ڈیرک تو معصوم تھا۔ لہذا ڈیرک کو انیس سو اٹھانوے میں بعد ازموت معصوم قرار دے کر باعزت بری کردیا گیا۔

انیس سو چوہتر میں چھ افراد کو برمنگھم کے ایک شراب خانے میں بم دھماکے کا جرم ثابت ہونے پر عمرقید کی سزا ہوگئی لیکن انیس سو اکیانوے میں یہ ثابت ہوگیا کہ وہ تو بے گناہ ہیں چنانچہ سترہ برس جیل کاٹنے کے بعد وہ آزاد کردیے گئے۔

اسی طرح انیس سو چوہتر میں ہی گلفورڈ کے دوشراب حانوں میں بم دھماکوں سے اکیس افراد ہلاک ہوگئے تو چار آدمیوں کو آئی آراے کے دہشت گردوں کے طور پر عمرقید کی سزا ملی۔ لیکن پندرہ برس بعد پتہ چلا کہ ان میں سے ایک شخص برائن شا کا ان دھماکوں سے کوئی لینا دینا نہیں اور پولیس نے اس سے زبردستی اقبالِ جرم کروایا تھا۔ چنانچہ اسے زندگی کے پندرہ برس سلاخوں کے پیچھے کاٹنے کے بعد کھلا چھوڑ دیا گیا۔

اسی طرح برج واٹر قتل کیس میں سزا پانے والے تین افراد کو انیس برس بعد انیس سو ستانوے میں عدالت نے بے ضرر پایا اور باعزت قرار دے دیا۔
برطانیہ کے اینگلو سیکسن قانون کے تحت انصاف کے نام پر بے انصافی کی یہ صرف چند مثالیں ہیں۔

بائیس جولائی کو لندن پولیس نے جس برازیلی نوجوان کو مشتبہ دہشت گرد سمجھ کر ایک زیرِزمین ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر گولیاں مار کر ٹھنڈا کردیا۔ اس کے بعد لندن پولیس کے سربراہ نے پریس کانفرنس میں پولیس کارروائی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ہلاک ہونے والے شخص کا لندن بم حملوں سے تعلق بنتا ہے۔ لیکن صرف دو دن بعد انہی پولیس سربراہ نے اعتراف کرلیا کہ ان کے اہلکاروں سے اندازے کی سنگین غلطی ہوگئی اور وہ اس المیے پر معافی مانگتے ہیں۔

اگرچہ ایشیائی کمیونٹی کے بعض لوگ یہ سوال بھی اٹھارہے ہیں کہ اگر مرنے والا نوجوان برازیلین کے بجائے کوئی جنوبی ایشیائی یا عرب یا افریقی مسلمان ہوتا تو کیا پھر بھی پولیس اتنی جانفشانی کے ساتھ اپنی غلطی تسلیم کرکے معافی مانگتی یا پھر معاملہ کسی اور کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کی جاتی۔

لیکن برطانوی پولیس اسوقت جتنے دباؤ میں کام کررہی ہے اس کے دوران اس طرح کے سنگین واقعات اور اندازے کی غلطیاں ہونا ناگزیر ہے۔ مگر دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ایسی غلطیوں کے بعد اظہارِ ندامت سامنے آتا ہے یا اپنے اقدام کا ہرصورت دفاع کیا جاتا ہے۔

جب میں پلٹ کر دیکھتا ہوں تو میرے سامنے انسانی حقوق کی ایک تنظیم کی وہ رپورٹ آجاتی ہے کہ سالِ گزشتہ پاکستان کے صرف ایک صوبے پنجاب میں بیس سے زائد لوگ پولیس کی تحویل میں ہلاک ہوگئے اور اعلی سے ادنی سطح تک کسی کے منہ سے ایک حرفِ ندامت نہ ادا ہوا۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں ایک ہفتے کے دوران فوج نے چار عام سے نوجوانوں کو گولی ماردی۔ لیکن حکام حقیقت جاننے کے باوجود اپنے اقدام کے دفاع اور تاویلات میں مصروف ہیں۔

ہر انسانی قانون اور ادارہ ناقص ہوتا ہے لیکن غلطی کرنا مگر غلطی نہ ماننا
یہ وہ رویہ ہے جس کے سامنے قتل جیسا جرم بھی کم لگنے لگتا ہے۔
24 جولائی 2005


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).