وہ راوی جو چین ہی چین لکھتا ہے….


\"shumayla-hussain-2\"مرشد جون ایلیا فرما گئے ہیں کہ ہم تاریخ کے دستر خوان پر صدیوں سے حرام خوری فرما رہے ہیں۔ ہماری ناقص خیالی نے اس ایک بات سے اخذ کیا کہ اسی حرام خوری کا نتیجہ رہا ہے کہ ہر دور میں راوی چین ہی چین لکھتا رہا ہے۔ ہم ایک مدت سے اس راوی کا پتہ معلوم کرنا چاہ رہے تھے کہ طاقتور کے سامنے مظلوم کو پستا دیکھ کر بھی سب اچھا ہے کی رپورٹ پہنچارہے ہے تو کون سا شربت حشیش نوش فرماتے ہیں، یہ محترم راوی۔ کس خاندان کس نسل، کس ملک، کس مذہب سے متعلق ہیں یہ میاںصاحب۔ اس تلاش کے نتیجے میں کبھی بادشاہوں کے مشیروں تک پہنچے تو کبھی ہر دور کے درباری علمائے دین اس خورا خوری میں شریک نظر آئے۔ اس تلاش میں سقراط کو زہر کا پیالہ پیتے ہوئے دیکھا، تو کبھی ہائی پیشیا کو آگ میں جلتے پایا، کہیں حلاج ابن منصور کو سولی کی زینت بنتے دیکھا، کبھی تلوار کے زور پر بڑھتی سلطنتوں کا پھیلاﺅ نظر سے گزرا، مذاہب کی تاریخ کو مسخ کرتے ہوئے تاریخ دان ملے تو کبھی الہامی کتابوں میں ردو بدل کرنے والے اقتداری فوائد حاصل کرنے والے لوگوں سے ٹاکرا ہوا۔ لیکن ہر دور کی معلوم اور مقبول تاریخ ہمیشہ چین سے رہنے والے راوی بھیا نے تحریر کی۔

ہمیں نصاب میں بتایا گیا کہ ہر ظالم جس نے تمہاری دھرتی کے ساتھ زیادتی کی وہ تمہارا ہیرو ہے۔ ہمیں جتلایا گیا کہ ہم ایک عالمگیر برادری کا حصہ ہیں اور برادری ایسی کہ جس میں کبھی ختم نہ ہونے والی ’ شریکے‘ کی جنگ ہمیشہ جاری و ساری ہے۔ اس پر بھی ہمیں سب ٹھیک ہے کی میٹھی گولی کھلا کر بہلایا جاتا رہا ہے۔ اب بھی نصاب پی ٹی وی کا خبرنامہ ہے جس میں ملک کے اندر ہونے والی جوڑ توڑ سیاسی ریشی دوانیاں اور تخریبی معاملات کی جڑ کا نام لینے تک کی اجازت نہیں۔ پوچھا، نصاب مرتب کون کرتا ہے؟ خبرنامہ کون چلاتا ہے؟ تو جواب ملاملک کے پڑھے لکھے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ۔ لہٰذا شک گزرا کہ وہ جس راوی کے کندھے پر بندوق ہے وہ شاید یہی حضرات ہیں۔ لیکن بات یہاں ختم ہوجاتی تو ہم لٹھ لے کے ان کے پیچھے پڑجاتے۔ ہوا کچھ یوں کہ ایک بزرگ سیاہ پوش سے سر راہ ملاقات ہو گئی سند باد جہازی کی طرح ہم نے بھی فٹ سے سوال داغ دیا۔ کہ آپ نے کل عالم عقل و دانش کی سیر فرما رکھی ہے مہربانی فرما کر ہماری مدد کیجئے اور وہ راوی جو مصیبت و ابتلا کے ہر دور میں چین ہی چین لکھتا رہاہے اس کا پتہ دیجئے۔ انہوں نے اپنی نظر کے چشمے کے اوپر سے ہمیں گھورا اور گویا ہوئے یہ راوی تمہیں ہر ریاست کے پانچوں ستونوں کے پایوں سے لپٹا ہوا ملے گا۔ ہم نے اپنی تحقیق ان کے سامنے رکھی تو بولے بس تم اپنی منزل کے قریب پہنچنے کو ہو ہمت مت ہارنا۔ ہم نے گستاخی کرتے ہوئے پھر سے سوال کیا کہ صاحب ایک دو راویان حال کا نام تو بتا دیجئے انہوں نے فرمایا کیا چاہتی ہو سیاہ پوشی ترک کے سفید پوش ہو جاﺅں ؟ اور ہم سمجھے کہ آخر دانش وران ملک و ملت کے ہاتھ اور زبان کس خوف نے باندھ رکھے ہیں۔

ان کے دربار سے نکل ہم تاریخ کے دسترخوانوں کی خاک چھانتے رہے۔ دنیاوی اور دینوی علوم کے عالموں کے عماموں اور لمبی عباﺅں کی شان و شوکت سے مرعوب ہوتے رہے۔ بہت سے روایت کرنے والوں سے واسطہ پڑتا رہا۔ ادھر اخبارات میں، ٹی وی پر شور مچتا رہاکہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے۔ مگر ریڑھ کی ہڈی ہماری ناکارہ ہو گئی۔ دہشت گردوں کا صفایا ہو رہا تھا لیکن جھاڑو ہمارے صحن میں پھر رہا تھا۔ پشاور کا سانحہ ہوا، ہم روتے رہے۔ ہم نے کہا دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے انہوں نے سکول ہمارے بند کروادئے۔ باچا خان یونیورسٹی میں ہمارے نو جوانوں پر قیامت آئی اور آکے گزر گئی۔ ضرب عضب کامیاب جارہا ہے کی گردان سنتے رہے، مک مکا ہونے کے قصے سنائے جاتے رہے کہ اچانک ایسٹر کے روز، ممتاز قادری کے چہلم پر لاہور کو 75 لاشوں کا تحفہ ملا۔ حیران تھے کہ دل کو روئیں کہ پیٹیں جگر کو ہم۔ یونہی دکھ اور شاک کی کیفیات میں ٹی وی کے چینل بدلتے ہوئے ایک نجی ٹی وی چینل پرکسی ٹاک شو میں ہمارے صحافی روف کلاسرا نے صوبائی وزیر قانون سے براہ راست کال پر سوال کیا کہ یہ قانونی اداروں کی ناکامی نہیں ؟ کیا یہ گورنمنٹ کی ناکامی نہیں۔ تو جواب آیا کہ اللہ کا شکر ہے لاہور محفوظ ہے۔ الفاظ تھے گویا پگھلا ہوا سیسہ جو کانوں کو سنسنا تا ہوا گزرا۔ ڈکیتیاں، چوریاں، قتل، غنڈہ گردیاں اور اتنے بڑے سانحے کے بعد اگر کوئی کہے کہ لاہو ر محفوظ ہے تو غم و غصہ کی حالت کیا ہو سکتی ہے، آپ بنا کہے سمجھ سکتے ہیں۔ پروگرام کی میزبان تڑپ اٹھی۔ سوال کرنے والے صحافی نے حیران ہو کر پوچھا کہ آپ کیسے کہہ رہے ہیں لاہور محفوظ ہے تو کھسیانی بلی نے کھمبا نوچتے ہوئے کہا آپ پروگرام کی ریٹنگ بڑھانے کے لئے ایسے سوال کر رہے ہیں۔ یہ بیانات ایسے ہی تھے جیسے آپ کا گھر جل رہا ہو آپ ذمہ داروں سے شکایت کریں اور وہ کہیں، شکر کرو کہ راکھ بچ گئی۔ میں یہی سوچ رہی تھی کہ بزرگ سیاہ پوش نمودار ہوئے اور فرمایا کہ اچھی طرح سے دیکھ لو، یہ اسی راوی کا ہزارواں جنم ہے جو ہمیشہ چین ہی چین لکھتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments