اسلام آباد کی صورت حال اور پارلیمنٹ کا تحفظ


\"ibarhimوہ بی خوفی تھی، یقین دہانی تھی، تھپکی تھی یا کوئی بڑا آسرا؟ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کو یہ یقین ہوچکا تھا یا یہ یقین دلاگیا تھا کہ سویلین حکومت، جمہوری نظام، پارلیمنٹ اور مقامی انتظامیہ آپ کو کچھ بھی نہیں کہہ سکتی، یہ بھی ممکن ہے کہ ان کو یقین ہو چلا ہو کر اسلام آباد کے پاس بیان بازی اور دکھاوے کے سوا ایسا کچھ نہیں کہ جو تمہیں روک سکیں۔ اور جناب پھر ہوا بھی تو وہی۔

لیاقت باغ سے نکلتے مشتعل افراد کے پاؤں ایک بار بھی نہیں ڈگمگائے، اس ہجوم نے پنجاب حکومت کی عملداری کے پرخچے تو دو وزرائے اعظم کی جان لینے والے اس باغ میں ہی اڑا دئے اور پنجاب حکومت کی تمام انتظامی مشینری کو اپنے تابع سمجھتے وہ چلتے چلتے جڑواں شہروں کے سنگم فیض آباد پہنچ گئے۔ تب تک ا ن کویقین ہو چکا تھا کہ ہمیں روکنے والا شاید کوئی نہیں ہیں اس لئے وہ اسلام آباد میں فاتح کی طرح داخل ہوگئے۔

ایسا نہیں کہ یہ ہجوم اچانک ظاہر ہوا تھا، مختصر نوٹس پر یہ جلسہ ہوا یا پھر اچانک انھوں نے اسلام آباد اور وہ بھی پارلیمنٹ ہاؤس کو ہدف بنانے کے لئے مارچ شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے راولپنڈی اسلام آباد ایکسپریس وے پر چڑھ دوڑے۔ اس کام کے لئے وفاقی دارالحکومت، پنجاب حکومت اور مقامی انتظامیہ کی ناک کے نیچے دو ہفتوں سے تیاری ہو رہی تھی۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کے تمام راستے، دیواریں، بجلی کے پول اور ہورنڈنگس اس کے بات کی گواہی آج بھی دے رہے ہیں کہ کیسے سینکڑوں بینر پوسٹر لگا کر اس’’غیر رسمی کودتا پروگرام‘‘ کی تیاری کی گئی تھی اور اس میں عوام کو شرکت کی دعوتِ عام دی گئی تھی۔ حکومت تو شاید ان پرتشدد اور مشتعل افرا کی نیت کا اندازہ دو دن پہلے جنشید جمشید سے کئے گئے سلوک سے بھی نہیں لگا سکی۔ یہی نہیں، اس سے پہلے وزیر اطلاعات محترم پرویز رشید سے بھی مذہبی ٹھیکے داروں نے جو کچھ کیا اس کو بھی نظرانداز کردیا گیا ان تمام سرگرمیوں کے باوجود اتنی خاموشی سے لگا کہ دونوں شہروں کی حکومتیں اور مقامی انتظامیہ اور پولیس شاید لمبی چھٹی پر ہیں  یا  نیند میں ہیں۔

اب تو لگتا ہے کہ دارالحکومت میں حکومت کے پاس کرنے کو چند کام ہی رہ گئے ہیں جس میں فون سروس بند کرنا، مشتعل افراد کو روکنے کی بجائے سارے شہر میں ناکے لگا کر عام شہریوں کے راستے بند کرنا، رات کو چوکیوں پر مقرر پولیس اہلکاروں کو دیر سے گھر لوٹنے والوں کے منہ سونگھنے، لمبے لمبے ٹریفک پلان کے اعلانات کرنا اور اپنی پسپائی کے بعد ان ایڈ آف سول پاور کا آئینی اختیار استعمال کرکے فوج سے مدد طلب کرنا۔ اس کے سوا کوئی اختیار دکھائی نہیں دیتا اگر ہوتا تو استعمال ہوتا ہوا دکھتا۔

اب لگتا ہے کہ ہماری سرکار پارلیمنٹ پر چڑھ دوڑنے، حملہ کرنے، سویلین انتظامی مشنری کو جام کرنے کے لئے نکلتے ہوئے جلوس اور مظاہروں کو ہینڈل کرنے کے لئے کسی کا منہ تکنا پڑتا ہے وہ کسی کی ہدایات کی منتظر رہتی ہے یا وہ ان خفیہ رپورٹوں کے انتظار میں رہتی ہے جو جنرل ایوب خان کے زمانے سے چلتی آرہی ہیں اور اب تک کے تمام نقصانات میں ان کا کافی کردار رہا ہے۔

جس وقت لاہور میں کمزور پڑے، بھاگتے، چھپتے اور ختم شدہ نیٹ ورک والے دہشت گرد بچوں اور عورتوں پر وار کررہے تھے ٹھیک اس وقت اسلام آباد کی چوکیوں پر سے پولیس پسپا ہو رہی تھی اور ایسے لگ رہا تھا کہ اس بار بھی اسلام آباد کی عملداری ان مشتعل لوگوں کے پیروں کے نیچی روندی جا رہی تھی۔ یہ منظرنامہ بلکل ایسا ہی تھا جیسے ایک ڈیڑھ سال پہلے سونامی اور قادری گروپ کی طرف سے اسلام آباد پر چڑھائی کی گئی تھی۔ اس بار بھی تو ہلہ گلہ کرنے اورآگ لگانے والوں کے آگے پارلیمنٹ ہاؤس تک پہنچنے میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ آگے پولیس اور ان کے پیچھے مشتعل ہجوم ہونے والی تصاویر تو اخبارات کی زینت بن چکی ہیں لیکن وہ رینجرز جس نے کراچی میں امن بحال کرنے کے ساتھ پورے سند ھ کو اپنے کنٹرول میں رکھا ہوا ہے وہ رینجرز بھی ان لوگوں کے سامنے نہیں ٹک سکے۔ اور تو اور یہ ہجوم اتنی طاقت رکھتے ہیں کہ پولیس اور رینجرز کی بڑی تعداد میں افسران اور اہلکاروں کو بھی خون میں لت پت کردیا، کئی اہلکاروں کے سرپھٹ گئے، بازو اور ٹانگیں ٹوٹ گئیں لیکن پھر بھی ان کو ہٹانے میں ریاست کی طرف سے شدید قسم کی بے بسی کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا۔

جس طرح دہشت گردوں اور خودکش حملہ آوروں نے عوامی اور تفریح مقامات، اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کو اپنا ہدف بنا رکھا ہے ٹھیک اسی طرح یہ جو نئے مشتعل پیدا ہوئے ہیں ان کو شاید پارلیمنٹ اور حکومتی دفاتر اور نظام کو ہدف بنانے کا ٹھیکا ملا ہے۔ یہ بات سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ اس طرح کے گروہ پارلیمنٹ کو ہدف بنا کر کیا چاہتے ہیں؟ کیا اس قسم کا احتجاج جو پارلیمنٹ کا تقدس پائمال کرے وہ اظہار رائے کی آزادی کہلائے گا؟ اس سے پہلی قسط کے طور پر بھی یہ ہوا کہ اس کے بعد پارلیمنٹ کے اندر یہ خطرہ محسوس کیا گیا کہ یہ احتجاج نہیں لیکن یہ پارلیمنٹ کے خلاف سازش ہے، اس لئے سینئیرسیاستدان محمود خان اچکزئی اور کئی ارکان اسمبلی نے یہ تجویز دی کہ ریڈ زون ایریا میں احتجاج پر پابندی کی قانون سازی کی جائے۔ اسلام آباد میں احتجاج کے کئی مقام ہو سکتے ہیں، لازمی نہیں کہ پارلیمنٹ میں گھس کر ہی احتجاج کیا جائے۔ پارلیمنٹ اس ملک میں جمہوری نظام کی علامت ہے اس کی حفاظت کے لئے اگر قانون سازی ہوتی ہے تو اس کی نفی انسانی حقوق کے بنیاد پر نہیں ہونی چاہیئے۔ اور سب سے بڑی بات یہ ان معاملات میں حکومت کو بی بسی اور کسی اور قوت کی طرف دیکھنے کی بجائے بجاء خود کوئی فیصلہ کرلینا چاہئے۔ اور پارلیمنٹ کو خطرے کی صحیح تناظر میں تفہیم کر کے اسے اس جمہوری سسٹم کو خطرہ سمجھنا چاہیےاور پارلیمنٹ  کی بقا کے لئے کام کرنا چاہئے۔

ابراہیم کنبھر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابراہیم کنبھر

ابراھیم کنبھرموئن جو دڑو کی وارث سندھ دھرتی کے مٹی جیسے مانھو ہیں۔ کل وقتی صحافی ہیں۔ پیشہ ورانہ فرائض کے ضمن میں اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ سندھی ٹی وی چینل کے ٹی این نیوز کے لئے کام کرتے ہیں اور سندھی روزنامے کاوش میں کالم لکھتے ہیں۔

abrahim-kimbhar has 57 posts and counting.See all posts by abrahim-kimbhar

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments