روہنگیا مسلمانوں کی واپسی: معاہدے کے بارے میں چار بڑے خدشات


کاکس بازار

بنگلہ دیش اور میانمار کی حکومتوں کے درمیان ایسے افراد کے بارے میں معاہدہ طے پایا ہے جنھیں وہ تسلیم کرتی ہیں نہ کرنا چاہتی ہیں۔ یہ روہنگیا افراد ہیں۔

میانمار کی ریاست رخائن میں 25 اگست 2017 کو شروع ہونے والے فوجی کریک ڈاؤن کے بعد سات لاکھ 40 ہزار روہنگیا افراد نے ہمسایہ ملک بنگلہ دیش کی راہ اختیار کی تھی، جن میں بیشتر مسلمان ہیں۔

اقوام متحدہ بڑے پیمانے پر ہونے والے اس انخلا کو ’نسل کشی کی کتابی مثال‘ قرار دیتی ہے جبکہ میانمار کی حکومت اس سے انکار کرتی ہے۔

اب میانمار نے ہر ہفتے 1500 روہنگیا افراد کو قبول کرنے کے معاہدے پر اتفاق کیا ہے۔ دونوں ملکوں کی حکومتوں کو امید ہے کہ یہ بحران کے حل میں مدد دے گا لیکن اس معاہدے کے حوالے سے شدید خدشات پائے جاتے ہیں۔

معاہدہ کیا ہے؟

یہ معاہدہ جن افراد کے بارے میں ہے وہ اس معاہدے کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔

روہنگیا رہنما سراج المصطفیٰ نے بنگلہ دیش کے شہر کوکسِز بازار میں بی بی سی کو بتایا: ’ہم تاحال واضح نہیں ہیں کہ بنگلہ دیش اور میانمار کی حکومتوں کے درمیان کیا معاہدہ طے پایا ہے۔‘

ہم صرف یہ جانتے ہیں کہ بنگلہ دیش کی حکومت روہنگیا افراد کو دو سال میں میانمار واپس بھیجنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

روہنگیا

بی بی سی کے نامہ نگار برائے جنوب مشرقی ایشیا جوناتھن ہیڈ کہتے ہیں کہ ’دونوں ممالک نے اتفاق کیا ہے کہ وطن واپسی کا عمل رضاکارانہ ہوگا۔‘

بیشتر مہاجرین کا کہنا ہے کہ وہ صرف اسی صورت میں واپس جائیں گے اگر ان کے تحفظ کو یقنی بنایا جائے، ان کے گھروں کی دوبارہ تعمیر اور انھیں ’سرکاری سطح پر امتیازی سلوک کا سامنا نہ ہو۔ ان میں سے کوئی بھی صورت فی الحال موجود نہیں ہے۔‘

میانمار کے سیکریٹری خارجہ یو مینٹ تھو نے بی بی سی برمیز سروس کو بتایا کہ یہ عمل 23 جنوری سے شروع ہوگا۔

معاہدے کے مطابق بنگلہ دیش کی جانب ہر ہفتے 15 ہزار مہاجرین کی فہرست بھیجی جائے گی جبکہ میانمار ان میں سے صرف 150 افراد فی کیمپ کی تصدیق کے عمل کے قبول کرے گا۔

ابتدائی طور پر دو کیمپ روزانہ 300 اور 1500 افراد فی ہفتہ قبول کریں گے۔ کام کی رفتار اور مہاجرین کی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے ’یہ کام جلد نہیں ہوسکے گا۔‘

اقوام متحدہ روہنگیا افراد کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی کو ’دنیا میں سب سے تیزی سے بڑھتا ہوا مہاجرین کا بحران‘ قرار دیتا ہے۔ کیا اس تعداد میں اضافہ ہوگا؟

بنگلہ دیش کی حکومت روہنگیا افراد کی واپسی کا کام مزید تیزی سے کرنا چاہتی ہے۔ بنگلہ دیش کے سیکریٹری خارجہ شاہد الحق نے بی بی سی بنگلہ کو بتایا کہ وہ چاہتے ہیں کہ میانمار ’ہر ہفتے 15 ہزار افراد واپس لے۔‘

شاہد الحق کا کہنا تھا کہ ’چنانچہ ہم نے سمجھوتہ کیا ہے کہ ہم روزانہ 300 افراد واپس بھیجنے سے آغاز کریں گے، لیکن تین ماہ میں جائزہ لیا جائے گا اور اس تعداد میں اضافہ کیا جائے گا۔‘

رخائن

کیا ایسا محفوظ ہوگا؟

سراج المصطفیٰ نے بی بی سی کو بتایا: ’ہمارا تحفظ بین الاقوامی طور پر یقینی بنایا جائے۔ بصورت دیگر یہ ہمارے لیے اچھا نہیں ہے۔‘

ایک روہنگیا شخص نے بی بی سی کو بتایا: ’ہم میانمار کبھی واپس نہیں جائیں گے، واپس جانے کے بجائے ہم زہر پی لیں گے اور مرجائیں گے‘ جبکہ ایک روہنگیا خاتون کا کہنا تھا کہ ’اگر وہ فوج کو ہمیں نقصان پہنچانے سے روک دیں تو پھر ہم واپس جائیں گے۔‘

تاہم امدادی اداروں نے اس پر شدید سوال اٹھائے ہیں۔

ایمنیسٹی انٹرنیشنل سے وابستہ میانمار کی محقق لورا ہائیگ کا خیال ہے کہ میانمار میں روہنگیا کی واپسی کے لیے حالات محفوظ نہیں ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’یہ ایسی صورتحال ہے جہاں انھیں مورچہ بند امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ رخائن ریاست ایک نسلی عصبیت کی ریاست ہے۔ اور ہمیں فوج کی انتہائی پرتشدد مہم کا سامنا بھی ہے، وہ ناصرف تحقیقات کو تسلیم کرنے سے انکار کر ہے ہیں بلکہ وہ تمام الزامات کی تردید کرتے ہیں۔‘

انسانی حقوق کی سابق کارکن اور برطانوی سیاست دان روزینہ علین خان کا کہنا تھا کہ انھوں نے بنگلہ دیش اور میانمار کی سرحد پر ان لوگوں کی مدد کی جن کا ’گینگ ریپ ہوا،‘ ’جلتی ہوئی آگ پر اپنے بچوں کو پھینکتے دیکھا‘ اور ’اپنے شوہروں کو قتل اور تشدد کا نشانہ بنتے‘ دیکھنے پر مجبور کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ انھیں روہنگیا کو میانمار وقت سے پہلے واپس بھیجنے پر شدید خدشات ہیں، وہ بھی بغیر کسی شرائط کے، یہ ایسا ہی جیسے انھیں موت کی جانب واپس بھیجا جائے۔

کیا روہنگیا افراد کو کبھی شہریت ملے گی؟

سراج المصطفیٰ معاہدے کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’ہماری پہلی ترجیح یہ ہے کہ ہمیں بطور روہنگیا شہریت دی جائے۔‘

لیکن کیا کبھی ایسا ہوگا؟

وکی پیڈیا پر روہنگیا افراد کے بارے میں یہ الفاظ لکھے ہوئے ہیں: ’روہنگیا افراد انڈو آریان بولنے والے بے ریاست افراد ہیں جن کا تعلق میانمار کی ریاست رخائن سے ہے۔’

روہنگیا

روہنگیا مسلمان میانمار میں مسلمانوں کی آبادی کا سب سے بڑا حصہ ہیں لیکن بودھ اکثریتی ملک میانمار کی حکومت انھیں شہریت دینے سے انکار کرتی ہے یہاں تک کہ سنہ 2014 کی مردم شماری میں بھی ان کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔

میانمار روہنگیا کو بنگلہ دیش کے غیرقانونی تارکین وطن سمجھتا ہے اور ایسا دکھائی دیتا ہے کہ نئے معاہدے میں شہریت کے بارے میں بات متوقع نہیں ہے۔

بنگلہ دیش بھی روہنگیا افراد کو تسلیم نہیں کرتا ہے اور مہاجرین کیمپوں میں پیدا ہونے والے روہنگیا بچوں کو پیدائش کے سرٹیفکیٹ جاری نہیں کیے جاتے۔

کیا انھیں اپنی زمینیں واپس ملیں گی؟

سراج المصطفیٰ کہتے ہیں کہ ’انھیں ہماری زمینیں واپس کرنا ہوں گی۔‘

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق 25 اگست 2017 سے 354 روہنگیا دیہاتوں کو مکمل طور پر یا جزوی طور پر نذر آتش کر دیا گیا۔

چنانچہ انھیں واپس کیسے حاصل کیا جائے گا، اور وہ کیسے ثابت کریں گے کہ یہ جگہ ان کی ملکیت تھی؟

روہنگیا

میانمار کے سیکریٹری خارجہ یو مینٹ تھو کا کہنا ہے کہ معاہدے میں رہائش کا بندوبست شامل ہے۔ اس کے علاوہ واپس آنے والوں کے لیے دو وصولی کیمپ ہیں جبکہ ’تین ٹرانزٹ کیمپ زیرتعمیر ہیں۔‘

یہ تعمیرات میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی کی سربراہی میں تشکیل دی جانے والی کمیٹی یونین انٹرپرائزز فار ہیومنٹیرین اسسٹینس، ریسیٹلمنٹ اینڈ ڈویلپمنٹ (یو ای ایچ آر ڈی) کرے گی۔

نئے دیہات کی تعمیر سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ زمینیں جو کبھی روہنگیا افراد کی تھیں انھیں واپس حاصل کرنا بھی شاید مشکل ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp