سیکس ایجوکیشن، شجرِ ممنوعہ سے غیر ارادی حلت تک


انگلش کا ایک لفظ ہے ٹیبو Taboo جس کا مطلب ہے کہ سماجی یا مذہبی دباؤ کی وجہ سے کسی خاص معاملے پر، یا کسی بندے یا گروہ کے ساتھ، کسی قسم کی ہمدردی تو کیا اس چیز کے بارے میں بات بھی نہیں کی جا سکتی۔ میری کم علمی آڑے آ گئی کہ مجھے اردو میں اس کا مترادف نہیں ملا، لہذا مجھے انگلش کا سہارا لینا پڑا۔ سیکس ایجوکیشن کو پاکستان میں Taboo کا درجہ حاصل ہے۔ اسی وجہ سے میں اس کا اردو میں قابل قبول نعم البدل ”جنسی علم“ لکھنے لگا تھا، مگر سیکس ایجوکیشن لکھنے سے بات زیادہ بہتر انداز میں آپ تک پہنچے گی، گو مضمون کے آخر میں ہم آپ کو اختیار دیں گے کہ بے شک آپ سیکس ایجوکیشن کو آلو کی بھجیا کہہ لیں۔

سیکس ایجوکیشن کا لفظ سنتے ہی کچھ لوگ ہتھے سے اکھڑ جاتے ہیں۔ ”یاد ماضی عذاب ہے یا رب“ کی زندہ تفسیر بنے ایسے ایسے اچھوتے نکات کے موتی ڈھونڈ نکالتے ہیں کہ بس بندہ سوچتا ہے کہ بھینس کے آگے بین ہی بجا لیتے۔ معلوم نہیں کہ احباب کو مسئلہ سیکس کے لفظ سے ہے یا ایجوکیشن کے لفظ سے۔ جس طرح کے یار لوگ اس پر احتجاج کرتے ہیں ان کو دیکھ پرکھ کر تو لگتا ہے کہ ان کو سیکس پر بھی اعتراض ہے اور ایجوکیشن پر تو ہے ہی۔ خیر، اب ہم نے جب سکھانے کا بیڑا اٹھا ہی لیا ہے تو ہر چہ بادا باد۔

سب سے پہلے تو یہ یاد رکھیں کہ سیکس ایجوکیشن کے اولین مخاطب بچوں کے والدین ہیں نہ کہ خود بچے۔ ایک پانچ چھے سات سال کے بچے سے آپ کیا توقع رکھتے ہیں کہ وہ آپ کی بات کتنی سمجھ پائے گا اور کتنا عمل کر پائے گا۔ آپ جتنا مرضی بچوں کو سمجھا دیں کہ اجنبی کے ساتھ نہیں جانا، یا اجنبی سے کوئی چیز لے کر نہیں کھانی وغیرہ وغیرہ، خدانخواستہ جو اجنبی خراب نیت سے آیا ہے تو وہ کوئی نہ کوئی بہانہ لگا کر بچے کو بہلا پھسلا کر لے جائے گا۔ یہاں تو چودہ پندرہ سال کے نوجوانوں کو خودکش بمبار بنا دیا جاتا ہے تو چھوٹے معصوم بچے تو بہت ہی آسان ٹارگٹ ہیں۔ آپ لوگوں نے بھی انٹرنیٹ پر سماجی تجربوں والی مختلف ممالک کی ویڈیوز دیکھیں ہوں گی جن میں بچے کسی اجنبی کے بہلاوے میں آ کر ساتھ چلنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں جبکہ زیادہ تر کے والدین یہی بتاتے ہیں کہ انہوں نے بچوں کو اجنبی کے ساتھ نہ جانے کا سمجھایا ہوتا ہے۔

ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں ہمیں اس کے سماجی نقائص کا نہ صرف ادراک ہونا چاہئیے بلکہ بطور والدین ہمیں اس کے تدارک کا بھی بھرپور انتظام کرنا ہے۔ گو کہ ہمیں سماجی طور پر ان نقائص کو دور کرنے کا اہتمام کرنا چاہئیے مگر کم از کم اپنے گھروں کے لئے تو حفاظتی اقدامات کیے ہی جا سکتے ہیں۔ بچوں کے حوالے سے جب والدین کے لئے سیکس ایجوکیشن کی بات آئے گی تو بطور والد میرے ذہن میں فوری طور پر یہ لائحہ عمل آتا ہے:

1۔ بچوں کو کسی اجنبی کے ساتھ کسی صورت بھی اکیلے نہ رہنے دیں۔

2۔ گھر میں کام کرنے والے ملازمین پر بھی بچوں کے معاملے پر اعتماد نہ کریں چاہے پیسوں کے معاملے پر آپ ان پر اندھا اعتماد کرتے ہوں (یہ یاد رکھیں کہ بچوں کے ساتھ فحش حرکات تو الگ رہیں، بچوں کو زدوکوب کرنے کے بہت سارے واقعات ملازمین کے حوالے سے موجود ہیں)۔

3۔ بچوں کو اگر مرد قاری سے قران پڑھوانا لازمی ہے تو بچے کے ساتھ بیٹھیں۔ نہیں تو گھر میں بچے کے کسی بزرگ دادا، نانا، دادی، نانی سے پڑھوا لیں۔
4۔ اگر کوئی ٹیوٹر گھر آتا ہے تو پڑھائی کے دوران اس پر نظر رکھیں۔ چھوٹے بچوں کو ٹیوشن کے لئے کسی کے گھر بھیجنے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔

5۔ کسی اجنبی شخص کو گھر کے اندرونی حصے میں غیر ضروری طور پر نہ آنے دیں۔ اگر کسی مزدور وغیرہ کے لئے مجبوری ہے تو مزدور کے ساتھ ساتھ رہیں، بچوں کو دوسرے کمروں میں رکھیں۔
6۔ بچوں کو اکیلا گھر سے باہر نہ بھیجیں۔ سامنے والی دکان تک بھی جانا ہے تو گھر کے دروازے پر کھڑے دیکھتے رہیں۔

7۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ بچوں کا محلے میں باہر دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنا بہت ضروری ہے تو ہر وقت نظر رکھیں۔ گھر کے کسی بزرگ کو کرسی دے کر باہر بٹھا دیں تاکہ وہ اردگرد نظر رکھ سکیں۔ چھوٹے بچوں کے ساتھ کھیلنے والے بڑے بچوں پر بھی نظر رکھیں۔ یہ بھی دیکھتے رہیں کہ بچوں کے کھیلتے ہوئے کوئی انجان ریکی تو نہیں کر رہا۔ اس سب سے آسان حل یہ ہے کہ بچوں کو قریبی پارک یا گراؤنڈ لے جائیں اور ان کے ساتھ خود کھیلیں۔

8۔ گھر میں آنے والے ہر انکل اور ہر دور پار کے کزن کے ساتھ بچوں کا زیادہ فری ہونا لازمی نہیں ہے۔ سلام دعا تک رکھیں۔ سوائے دادا، نانا، سگے ماموں اور سگے چاچو پر اعتماد کریں، ان کے علاوہ بچوں کے معاملے پر کسی پر اعتماد نہ کریں۔

9۔ بچوں کو اپنے ساتھ ایسے مشغول رکھیں کہ وہ آپ سے اپنی ہر بات شیئر کریں۔ ان سے سکول کی، دوستوں کی، ٹیچرز کی کہانیاں سنیں تاکہ ان کو معلوم ہو کہ آپ ان کی زندگی میں دلچسپی لیتے ہیں اور آپ کو ہر بات بتانا ضروری ہے۔ بچہ اگر آپ کی ڈانٹ ڈپٹ سے گھبرا کر کوئی چھوٹی سی بات بھی چھپائے گا تو بڑی بات تو کبھی بھی نہیں بتائے گا۔

10۔ بچوں کے بیگ ہر دوسرے تیسرے دن دیکھا کریں کہ کوئی فالتو کی چیز تو نہیں پڑی، اگر کوئی پینسل یا ربڑ بھی فالتو ہے تو پوچھیں کہ کس کا ہے، آپ کے بیگ میں کیسے آیا، اور کیوں آیا۔
11۔ بچوں کو سکول چھوڑنے کے لیے اگر وین لگوائی ہوئی ہے تو وین والے کی مکمل تحقیق کر لیں، اس کے گھر کا پتا جا کر دیکھ لیں، اس کے محلے سے پوچھ گچھ کر لیں، وین میں جانے والے دوسرے بچوں کے بارے میں بھی اطمینان کر لیں۔ بہتر ہے کہ ایسی وین لگوائیں جس میں کالج کی لڑکیاں زیادہ ہوں کیونکہ وہ چھوٹے بچوں کا دھیان رکھتی ہیں۔

12۔ اگر بچے پیدل سکول جاتے ہیں تو خود چھوڑ کر آئیں۔
13۔ اسی طرح اور باقی چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی احتیاط لازم ہے۔

اوپر والی باتیں تو لکھتے ہوئے جیسے جیسے ذہن میں آئیں تو لکھ دیں، مگر آپ لوگ اپنے گھر کے ماحول کے مطابق ہر قسم کی احتیاط اپنے اوپر لازم کر لیں۔ جب تک کوئی سانحہ نہیں ہوتا معاملے کی سنگینی کا احساس نہیں ہوتا مگر احتیاط برتنے سے اگر کسی سانحے کا امکان کم ہوتا ہے تو بہت ضروری ہے۔ ہم لوگ اس غم کا اندازہ ہی نہیں کر سکتے جو اس طرح کے کسی واقع کے بعد ماں باپ پر طاری ہوتا ہے۔

بچوں کو سمجھانا شاید اتنا سود مند نہ ہو کیونکہ بچے تو پھر بچے ہوتے ہیں، ان کی کھیل کود کی عمر ہوتی ہے، ذمہ داری سے آشنا نہیں ہوتے۔ مگر پھر بھی اچھے اور برے لمس کا ضرور سمجھائیں۔ اس بارے میں آج کل عامر خان کی وائرل ویڈیو بہت مناسب ہے۔ بچوں کی عادت ہوتی ہے کہ گھر میں جیسے مرضی اچھے کھلونے ہوں گے اور جیسا مرضی اچھا چیزیں کھاتے ہوں گے، باہر جا کر غبارے والے کے پلاسٹک کے سستے سستے کھلونوں پر یا ریڑھی والی کھانے کی چیزوں پر بھی اڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ بچوں کی یہی وہ بچگانہ عادت ہوتی ہے جس کا فائدہ ظالم لوگ اٹھاتے ہیں۔ ان کو سمجھائیں کہ کوئی آدمی یا آنٹی جتنا مرضی چاکلیٹ کا، ٹافی کا یا کھلونا دلانے کا کہیں ان کے ساتھ نہیں جائیں بلکہ گھر آ کر بابا ماما کو بتائیں۔

یہ سب پڑھ لینے کے بعد شاید کچھ بے چین آتمائیں اس نتیجے پر پہنچ جائیں کہ سیکس ایجوکیشن کا وہ مطلب نہیں ہے جو کہ آپ جیسوں کو بظاہر نام سے لگتا ہے۔ اگر آپ کو پھر بھی اس نام سے مسئلہ ہے تو اس کا جو مرضی مناسب سا نام رکھ لیں جیسے ”بچوں کی حفاظت کی تراکیب“، ”بچے اور ماحول کی تربیت“، یا ”حلوہ کدو بنانے کا طریقہ“، مگر خدارا خود بھی سمجھیں اور بچوں کو بھی سمجھائیں اور ان خوبصورت اور معصوم پھولوں کو مسلنے سے بچائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).